غیر ملکی اخبار کی اہمیت
(Raja Tahir Mehmood, Rawat)
پاکستان میں آج کل جس چینل پر جس
اخبار میں جس ویب سائیٹ پر دیکھو ایک ہی نام چل رہا ہے ہر شخص ایک ہی نام
کو ڈسکس کر رہا ہے اور وہ نام ایسا ہے جس نے پاکستانی میڈیا انڈسٹری میں
کچھ نیاء اور منفرد کرنے کی کوشش کی تھی اور جس کی وجہ سے پاکستانی میڈیا
کے وہ چینلز جن کے مفادات پر اس نئے آنے والے چینلز کی وجہ سے ضرب لگنی تھی
ان کے پیٹ میں درد کی شدت کا اندازہ یوں بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا
کوئی بھی بلیٹن ایگزٹ کے بغیر نہیں نشر ہو رہا وہ چینلز اس کمپنی کی یوں
تشہیر کر رہے ہیں جیسے ان کو اس تشہیر کی کوئی باقاعدہ رقم ادا کی گئی ہو
بول چینلز (ایگزٹ)نے میڈیا ورکروں کو جس طرح مالی مشکلات سے نکالنے کا ویژن
دیا تھا اور جس طرح کی سہولیات دینے کا وعدہ کیا تھا وہ بلا شبہ ترقی یافتہ
ممالک میں صحافیوں اور میڈیا ورکروں کو دی جانے والی مراعات سے کسی طور پر
کم نہیں تھی ۔اس سارے قصے میں دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ چینل جس نے پچھلے کئی
ماہ سے اپنی ایڈورٹائزنگ کے لئے کروڑوں روپے خرچ کیے مگر اس کی اتنی تشہیر
نہ ہو سکی جتنی ایک امریکی اخبار میں لگنے والی خبر کے بعد اس کے حصے میں
آئی اگر تو واقعی ہی ایگزٹ جعلی ڈگریوں میں ملوث ہے تو اس کے خلاف کاروائی
کی جانی چاہیے اگرکمپنی اس گھنونے کام میں ملوث ثابت نہ ہو سکی تو پھر اس
بات کو بھی ماننا پڑے گا کے جس صحافی نے اس سکینڈل کو سامنے لا کر چینل کو
راتوں رات اس چینل کو اس بلندی پر پہنچا دیا کہ جس کے لئے بول کو پاکستانی
میڈیا انڈسٹری میں کئی سال محنت کرنے کے بعد پہنچنا تھا جس صحافی نے اس خبر
کو بریک کیا اور اس سے پہلے بھی کئی نیوز سٹوریاں پاکستان سے بریک کر چکے
ہیں مگر ہر بار موصوف کو منہ کی کھانی پڑتی ہے اور کھبی تنقید تو کھبی
تردید کے سواء ان کے حصے میں کچھ بھی نہیں آیا اور کئی ایک بار تو ان کو
پاکستان کی طرف سے ناپسند یدہ شخصیت قرار دے کر ملک چھوڑنے کا بھی کہا گیا
اب کی بار موصوف نے ایسی کون سی سچی خبر نشر کر دی کہ پاکستانی میڈیا ،
اخبارات ، سیاست اور صحافت کے میدانوں میں ایک طوفان آگیا اور طوفان بھی
ایسا کہ ہر چینل پر ہر نیوز بلیٹن میں اس خبر کو اولین ترجیح دی جا رہی ہے
کہ ایگزٹ نے یہ کر دیا ایگزٹ نے وہ کر دیا حالانکہ پاکستان جیسے ملک میں
جہاں ہمارے کئی ایک اسمبلی ممبران کی ڈگریاں جعلی ثابت ہو چکی ہیں اور کئی
ایک جعلی ڈگری پر سٹے آرڈر لیکر سب سے مقدس ایوان کا حصہ ہیں ایسے ملک میں
اگر یہ سکینڈل سامنے آیا ہے تو کوئی اچھنبے کی بات نہیں بلکہ یہ ایف آئی اے
کے لئے ٹیسٹ کیس ہے کہ اس نے کسی بین القوامی اخبار کی خبر پر ایکشن لیا
اور ایک بڑی کمپنی کے خلاف کاروائی کی کیونکہ اکثر اوقات ہمارے ملکی میڈیا
ورکر صحافی خضرات ایسی ایسی نیوز بریک کرتے ہیں جن سے ان کی جان کو خطرہ ہو
سکتا ہے اور ایسی سٹوریاں اگر کسی مغربی ملکوں میں سامنے آ جائیں تو وہاں
کی حکومت بھی جا سکتی ہے مگر ہمارے ہا ن کی خبروں پر ایکشن لینا تو دور کی
بات کوئی ان کی خبر کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کرتا دارے ہیں کہ جو چین کی
نیند سو رہے ہیں اس کی بڑی مثال ڈبل شاہ فراڈ، مضاربہ سکینڈل ،نجی ہاؤسنگ
سوسایٹیوں کی لوٹ مار ہیں جن کو کسی نہ کسی اخبار نے ہائی لائیٹ ضرور کیا
تھا مگر کسی بھی دارے نے اس طرف توجہ نہ دی اور نتیجے کے طور پر لوگ کروڑوں
روپے سے محروم ہو گے اور آج تک در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں ان کی
داد رسی بھی اسیطرح کی جائے ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی اخبارات میں بریک
ہونے والی کرپشن کی وہ داستانیں جنھیں پڑھ کر سمجھ آتی ہے کہ پاکستان غریب
اور نادار کیوں ہے کن لوگ ہیں جو اسے دھیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ان پر بھی
ایکشن لیا جانا چاہیے سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے اربوں ڈالروں کے بارے میں
بھی تو کئی نیوز بریک ہو چکی ہیں ان پر ہمارے معزز ادارے کیوں چپ ہیں کیا
ان میں کچھ بڑے لوگوں کے نام ہیں ؟ یا کوئی سیاسی مصلحت ہے۔ کون سے ارکان
اسمبلی جعلی ڈگریوں پر آئے ہوئے ہیں ان پر ایکشن کیوں نہیں کیا جاتا۔ اور
اگر اﷲ اﷲ کر کے کوئی ایکشن ہو بھی جاتا ہے تو دو چار دن میڈیا کی بریکنگ
نیوز بننے کے بعد وہ فائلیں پھر سے داخل دفتر کر دی جاتی ہیں اﷲ ،اﷲ خیر
صلہ
:آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جس طرح ایک غیر ملکی اخبار کی خبر کو
اہمیت دے کر ایک بڑی کمپنی کے خلاف کاروائی کر رہی ہے ایک ملکی اخبارات کے
صحافیوں کی خبروں پر بھی ایسے ہی ایکشن لیا کرئے اور اگر حکومت ملک سے
کرپشن ،نا انصافی ،لاقانویت ، دہشت گردی ،انتشار کا خاتمہ چاہتی ہے تو یہ
صرف اسی صورت ممکن ہے جب ان علاقائی صحافیوں کی خبروں کو بھی وہی اہمیت دی
جائے جو ایک غیر ملکی اخبار کو مل رہی ہے تب جا کے ملک کو درست ٹریک پر
لایا جا سکتا ہے ورنہ دوسری صورت میں ایسے سکینڈل روز بروز بڑھتے جائیں گے۔ |
|