غیرسودی نظام میں بینکنگ کا مستقبل کیسا ہو؟
(ظفر عمر خان فانی, Karachi)
اسلام میں سود کا لین دین حرام
ہے، اسلئے قیام پاکستان کے وقت مسلمانانِ ہند کو سودی نظام والے بینک
کھولنے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہاں جتنے بھی بینک تھے وہ انگریزوں یا
ہندؤوں کے تھے۔ تجارتی بینکوں کو کنٹرول کرنے کے لئے اور انہیں دیوالیہ
ہونے سے بچانے کے لئے انگریزوں نے ایک مرکزی بینک بھی قائم کیا تھا جسکا
ہیڈ آفس بمبئی میں تھا اور شاخیں اہم شہروں میں تھیں۔ اسکا نام “ریزرو بینک
آف انڈیا“ تھا۔ بینکنگ کو توسیع دینے کے لئے انہوں نے مرکزی بینک کا ایک
ایجنٹ بینک بھی قائم کیا تھا، جسکا نام “امپیریل بینک آف انڈیا“ تھا۔
جب پاکستان بنا تو پاکستانی ہندو اپنے بینک بند کرکے ہندوستان چلے گئے تو
وقت کم اور ہنگامی حالات ہونے کی وجہ سے حکومتِ پاکستان نے ریزرو بینک آف
انڈیا کے ماڈل پر “اسٹیٹ بینک آف پاکستان“ کے نام سے مرکزی بینک بنالیا اور
اسکا ایجنٹ بینک “نیشنل بینک آف پاکستان“ کو مقرّر کیا۔ اُسوقت کے حالات
میں یہ ضروری بھی تھا، کیونکہ متحدہ ہندوستان کے “ریزرو بینک آف انڈیا“ کے
Issue Deptt کے اثاثے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تقسیم ہونے تھے۔
اس سے پہلے بمبئی کے مسلمانوں نے ایک تجارتی بینک بنام حبیب بینک بنالیا
تھا جسپر مسلمانوں نے ناک بھوں تو چڑھائی مگر اس بینک نے بھارت کے مسلمانوں
کا سرمایہ پاکستان منتقل کرنے میں بہت مدد دی تو خاموش ہو گئے۔ آج یہ
پاکستان کا بہت بڑا بینک ہے۔ اسکے بعد آہستہ آہستہ اور بینک بھی بنتے رہے
اور ان پر آسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کنٹرول رکھنے کے لئے قوانین بھی پاس
ہوتے رہے۔ اور آج یہ حالت ہے کہ گلی گلی بینک کھلے ہوئے ہیں اور جو سودی
نظام وہ چلا رہے ہیں، انکے حلال یا حرام ہونے کا سوال طاق پر رکھ دیا گیا
ہے۔ بلکہ اس سودی نظام کو فروغ دینے کے لئے طرح طرح کے ہتھکنڈوں سے کام لیا
جا رہا ہے تاکہ ملک کی ساری بچت کھنچ کر بینکوں میں آجائے نتیجتاً انکے
سودی قرضوں میں اضافہ ہو۔
قیامِ پاکستان کے بعد ملکی نظام چلانے کے لئے جیّد عوامی نمائندوں نے متفقہ
طور پر جو “قراردادِ مقاصد“ پاس کی تھی اسکے مطابق سودی نظام کا مکمل خاتمہ
کیا جانا چاہئے تھا، لیکن اسکے برعکس یہاں سودی نظام کو روز بروز ترقی دی
جارہی ہے اور اب “اسلامی بینکنگ“ کے پردے میں اسے جاری و ساری رکھنے کا
انتظام کیا جا رہا ہے۔ آیئے دیکھیں کے سودی نظام کے مفاصد کا خاتمہ کرنے کے
لئے کیا کیا، کیا جاسکتا ہے۔
اس ناچیز کی رائے میں بینکوں کی اچھائیاں برقرار رکھ کر انکی بُرائیاں ختم
کی جانی چاہیئں، مثلاً:-
1)بینکوں کا لوگوں کی رقم محفوظ رکھنا ایک اچھائی ہے۔ ڈپازٹرز کی اجازت سے
انکی رقم کو جائز منافع بخش کاموں میں لگایا جاسکتا ہے۔ اس حد تک کہ
ڈپازیٹرز کو اپنے روز مرہ کے کاموں کے لئے چیک بھنوانے میں کوئی دشواری پیش
نہ آئے۔ بینک اپنے سروس چارجز منہا کرکے ان کاموں کا منافع ڈپازیٹرز کے
اکاؤنٹ میں جمع کرے۔
2)بینکوں کو Creation of Credits کی اجازت نہ ہو۔ کیونکہ یہ جعلی نوٹ چلانے
کے مترادف ہے۔
3)بینک نہ تو ڈپازیٹرز کا روپیہ سود پر چلائے، نہ ڈپازیٹرز کو انکی رقم پر
سود دے۔
4)ملک کے ترقیاتی کاموں کے لئے، تمام بلا سود قرض، حکومت کی Development
Finance Corporations سے لیا جائے اور حکومت تازہ نوٹوں کے ذریعے یہ روپیہ
مہیّا کرے۔
5)لوگوں کو ٹیکسیاں، لیپ ٹاپس اور روزگار کی اسکیمیں وغیرہ بینکوں کے سودی
قرض لے کر مہیا نہ کی جائیں حکومت اسکے لئے بھی تازہ نوٹ چھاپ کر بلا سود
روپیہ فراہم کرے۔ عوام کو جو بینکنگ خدمات (مثلاً رقم کی منتقلی وغیرہ)
انجام دی جائیں، بینک اسکا معاوضہ عوام سے وصول کرنے کا مجاز ہو، جیسے پوسٹ
آفس والے منی آرڈر بھیجنے کا معاوضہ لیتے ہیں۔
کرنسی نوٹ چھاپنے اور عوام کو مہیّا کرنے کا پورا سیٹ اپ “اسٹیٹ بینک اف
پاکستان“ کے کنٹرول مین ہے۔ اسکا یہ کام بھی جو عوام کی بہت بڑی خدمت ہے،
جاری رہنا چاہیئے۔ مختصر یہ کہ سودی بینکنگ کو “سروس بینکنگ“ میں تبدیل
کرکے اس نظام کو جاری رکھا جاسکتا ہے۔ |
|