اﷲ نے پاکستان کو لازوال وسائل
سے مالامال کیا ہے۔لیکن بے شمار قدرتی ذخائر ہونے کے با وجود ملک آئی ایم
ایف کے قرضوں پہ چل رہا ہے۔بجلی کا بحران اور انرجی کرائسس اتنے بڑھ گئے
ہیں کہ ہم پتھر کے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔زرعی ملک ہونے کے باوجود ،ایک
متوسط طبقے کی کھانے پینے کی عام اشیاء تک رسائی نہیں۔اگر آبی اور معدنی
وسائل کو زیرِاستعمال لایا جاتاتو پاکستان ایک ترقّی یافتہ ملک ہوتا،ہم
بجلی میں خودکفیل ہوتے اور شاید تمام اشیائے خوردنی تیس روپے فی کلو سے
تجاوز نہ کرتیں۔ آج ہم چین اور دوسرے ترّقی یافتہ ممالک کے ہم پلہ ہوتے اور
امریکی غلامی سے بھی آزاد ہوتے۔ہر پاکستانی با عزت اور خوشحال زندگی بسر کر
رہا ہوتا۔مگر بد قسمتی سے ہمارے نااہل حکمران پاکستان کو لوٹتے رہے اور
بیرونی ممالک کے بینکوں کو اپنی دولت سے بھرتے رہے۔اپنے اقتدار کو طول دینے
کے لئے اپنے کچھ حواریوں کو نوازتے ہوئے باقی لوگوں کاطرز حیات تنگ کرتے
رہے ۔ان حکمرانوں میں ایک نام تیسری بار ملک کا وزیراعظم بننے والے
نوازشریف کا ہے۔نوازشریف کی کرپشن کا تذکرہ ایک امریکی مصنف Raymond
W.Bakerنے اپنی کتاب Capitalism's Achilles Heel میں بھی کیا ہے۔میاں صاحب
کی منی لانڈرنگ کی ڈاکومنٹری فلم بی بی سی نے نشر کی ہے۔میاں صاحب کی بہت
بڑی جائداد جدہ اور لندن میں ہے جن میں سے ایک فلیٹ کی مالیت تقریبًا۱۲
ملین پاؤنڈ ہے۔اس کے علاوہ عربوں ڈالر بیرونی بینکوں میں پڑے ہوئے
ہیں۔پاکستان میں رائیونڈ کے اس شیر کی عیاشی کا یہ عالم ہے کہ معروف صحافی
رؤف کلاسرا کے مطابقــ بادشاہ سلامت کا جب موڈ بمع فیملی مری میں چائے پینے
کا ہوتا ہے تو ہیلی کاپٹرپہ جاتے ہیں اور سارا خرچہ قومی خزانے سے ہوتا ہے۔
نواز شریف کے عزائم پاکستان کے لئے بہتر نہیں ہیں اور ان کی سیاست کا مقصد
صرف اور صرف اپنے خاندان کی ترقی ہے۔آئی ایم ایف سے ریکارڈ ساز قرضے لے کر
پاکستان کی تباہی کے بیج بوئے جارہے ہیں۔ملکی وسائل غیروں کے سپرد کیے جا
رہے ہیں اور بلیک واٹر جیسی خطر ناک تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔ہمارے ایٹمی
اثاثوں کی ہمارے دشمن مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔دہشت گردی پھیلائی جا رہی
ہے۔بقول معروف صحافی اوریا مقبول جان ،امریکہ نے اسلام آباد میں دنیا کی سب
سے بڑی ایمبیسی بنائی ہے جس میں آٹھ ہزارسے زائد افراد کے رہنے کی جگہ
ہے،جہاں تین ہزار سے زائد امریکن آرمی کے علاوہ بلیک واٹر کے اہلکار موجود
ہیں۔
نواز شریف پاکستان کے اندر انیس بینکوں کے ڈیفالٹر ہیں ۔ان بینکوں سے لی
گئی رقم ۴۔۶بلین روپے ہے اورسود اس کے علاوہ واجب الاداہے۔بینکوں نے یہ
مسئلہ عدالت میں اٹھایا مگر میاں صاحب نے
Stay order لے لیا۔جس کا ثبوت اس وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔
https://www.facebook.com/zemtv/videos/969006453113191/?fref=nf
میاں صاحب نے کچھ عرصہ قبل اپنے ذاتی استعمال کے لئے دو عدد بلٹ پروف بی
ایم ڈبلیو سیون سیریز گاڑیاں خریدی ہیں جن کی قیمت ۲۲۴ملین قومی خزانے سے
ادا کی گئی ہے۔ ذاتی سیکورٹی کے لئے قومی خزانے سے بڑے مہنگے کتے بھی خریدے
گئے ہیں ۔اٹھارہ عرب روپیہ کا گھپلا نندی پور پروجیکٹ میں ہوا۔اقوامِ متحدہ
کے اجلاس میں شرکت کے لئے میاں صاحب امریکہ گئے تو مہنگے ترین ہوٹل میں
قیام کیا۔اس ہوٹل کا صرف ایک رات کا ایک فرد کا کرایہ ۷۵۶۰ امریکی
ڈالرہے۔میاں صاحب کے ہمراہ چار افراد بھی تھے۔اور چند بین الاقوامی
نمائندوں کے علاوہ خالی کرسیوں کو پرچیاں پڑھ کر سنانے کے بعد میاں صاحب
واپس لوٹ آئے۔جبکہ برطانیہ کے وزیرِاعظم نے اپنے سفارت خانے میں قیام کیا
تھا۔لندن کا اس وقت تیسرا بڑا انوسٹر اور جمہوری ریاستوں میں سب سے امیر
ترین وزیرِاعظم نواز شریف ہے اور سب سے بڑا گھر بھی انہی کا ہے۔حوالہ اس
ویڈیو میں ہے
https://tune.pk/video/741621/nawaz-sharif-richest-prime-minister-among-all-democratic-countries-pm-mubashir-lucman-claims
سچ تو یہ ہے کہ میاں صاحب کا پورا خاندان اور ان کے بچے اقتدار میں بیٹھ کر
عوام کے ٹیکس کے پیسے سے عیاشیاں کرتے ہیں۔اسحاق ڈار جن کے ہاتھ میں ملکی
خزانے کی کنجیاں ہیں نے Affidavit پہ تسلیم کیا تھا کہ انہوں نے منی
لانڈرنگ کے ذریعے پیسہ برطانیہ منتقل کیا ہے۔
میاں صاحب نے اپنی ذات کیلئے انڈیا سے دوستانہ تعلقات قائم کر رکھے
ہیں۔انہوں نے انڈیامیں اپنی فیکٹری کا لائسنس حاصل کرنے کے لئے انڈیا کی
ڈیمانڈ پہ بھاشا ڈیم کی تعمیر ۲۰۳۷ء تک ملتوی کر دی ہے۔ اپنے پچھلے دورِ
حکومت میں میاں صاحب نے کارگل کی جیتی ہوئی جنگ سے فوج کو پسپائی کا حکم
دیا اور فتح کو شکست میں بدل دیاتھا۔انہوں نے دو قومی نظریے کی بھی دھجیاں
بکھیردی ہیں،جب انہوں نے انڈیا میں کہا ـ،ـہمارا اور آپ کا کلچر ایک ہے۔
ـــہمارا اورآپ کا رب ایک ہے،جس کی آپ پوجا کرتے ہیں ہم بھی اسی کی پوجا
کرتے ہیں،جس کو آپ رب کہتے ہیں،ہم بھی اسی کو رب مانتے ہیں۔ہمارے اور آپ کے
درمیان صرف ایک باؤنڈری لائن ہے اور کوئی فرق نہیں۔قرآن کی سورۃالکافرون
میں ہے کہ کافرو جن بتوں کی تم پوجا کرتے ہو،میں نہیں کرتا۔پس تمہارے لئے
تمہارا رب اور میرے لئے میرا رب۔مفتی حضرات بہتر بتا سکتے ہیں کہ یہ بیان
کس نوعیت کا ہے۔میاں صاحب نے فوج کو بھی انڈیا میں بدنام کیا اور کارگل کی
جنگ کو Misadventure کہہ کر انڈیا والوں سے Shame Shame کے نعرے لگوائے۔ان
تمام باتوں کا ریکارڈ اس وڈیو میں موجود ہے۔
https://www.facebook.com/sochnews/videos/vb.587271804639518/844723068894389/?type=2&theater
https://tune.pk/video/1585702/nawaz-sharif%20views%20on%20two%20nation%20theory
لیکن افسوس ہم سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ہم یہ بھی بھول گئے کہ میاں صاحب نے
قرض اتارو،ملک سنوارو کی سکیم چلا کر کتنا پیسہ ہڑپ کیاتھا۔ہم ایمل کانسی
کوامریکہ کے حوالے کرنا بھی بھول گئے۔جس پر ایک امریکی سینیٹر نے کہا تھا
کہ پاکستانی ڈالر کے بدلے اپنی ماں کو بیچ دیتے ہیں۔ہم الیکشن میں کیے گئے
جھوٹے وعدے بھی بھول گئے۔پی ایم ایل این نے تو وعدوں کے برعکس کام
کیے۔کشکول توڑنے کا وعدہ تھا،مگر کشکول اتنا اٹھایا کہ گذشتہ حکومتوں کے
ریکارڈ ٹوٹ گئے۔زرداری کو سڑکوں پہ گھسیٹنے کی بجائے ستر ڈشز کے کھانوں سے
اس کا استقبال کیا۔اور صدر کی الوداعی تقریب میں ممنون حسین کو بھی ہدایت
کی کہ وہ زرداری کے نقشِ قدم پہ چلیں۔
یاد رکھیے!میاں صاحب کے دل میں پاکستان سے کوئی ہمدردی نہیں،بلکہ صرف اپنے
خاندان کے لیے دولت جمع کرنا ان کا نصب العین ہے۔ہمارے ملک کا نظام ایسا ہے
جس کے سارے فوائد اہلِ اقتدارکو میسر ہیں۔ہر وزیر کو مفت سرکاری رہائش گاہ
اور اگر وہ اپنے گھر میں رہے تو اسّی ہزار کرایہ،ہر ماہ کی تنخواہ ایک لاکھ
روپیہ،ہر بیرونی و اندرونی سفر کے لئے ہوائی جہاز کا ٹکٹ،ہوٹل کا خرچ اور
روزانہ کا ٹی اے ڈی اے ملتا ہے۔اس کے علاوہ گاڑی،پٹرول اور فون سب کچھ فری
ہے۔بجلی اور گیس کے بل بھی نہیں دیے جاتے۔ساری عیاشی عوام کے ٹیکس سے ہوتی
ہے۔ جاتی عمرہ محل سے جب کوئی جنگلی بلاِ مور کھا جائے تو پولیس اہلکار
معطل ہو جاتے ہیں اور بلے کو تلاش کر کے مار دیا جاتا ہے مگر ٹارگٹ کلر
نہیں پکڑا جاتا۔جنگلی ِبِلے کو مارنے والے ایلیٹ فورس کے جوان کو نوازا گیا
اور سرٹیفکیٹ دیا گیا۔حوالہ یہ ہے۔
https://tune.pk/video/3597939/elite-police-force-killed-murderer-of-nawaz-sharif-precious-peacock
جس ملک میں ادارے کرپشن کی نظر ہو کر بکنے لگیں اور صحافی سچ کو جھوٹ اور
جھوٹ کو سچ کہنے پہ نوازے جائیں اور انہیں ترّقی دی جائے،اس ملک میں محبِ
وطن افراد کی خاموشی جرم ہوتی ہے۔جس ملک میں آہیں بکتا ہو،قانون بکتا
ہو،آواز اور نظریات بکتے ہوں اور اسمبلی میں بیٹھے ہوئے مفاد پرست جمہوریت
کا شور مچا رہے ہوں وہاں نظام کے خلاف بغاوت فرض ہو جاتی ہے۔اس نظام میں
گلو بٹ کی رہائی کا نام انصاف کی فراہمی ہے۔یہاں دو سال لگ جاتے ہیں وہ
دھاندلی ثابت کرنے میں جس کا ثبوت پہلے ہی سارے میڈیا چینل فراہم کر چکے
ہوتے ہیں اور جب خواجہ سعد رفیق معطل ہوتے ہیں تو فورـاََ بحال کر دیے جاتے
ہیں۔دھاندلی کو بے ضابطگی اور بے قائدگی کا نام ایسے دیا جاتا ہے جیسے کوئی
طلاق یافتہ عورت کہے کہ اسے طلاق نہیں بلکہ علیحدگی ہوئی ہے۔ماڈل ٹاؤن
لاہور میں سولہ قتل کرنے والوں کی گرفت نہیں ہوتی مگر پتنگ اڑانے والا بچہ
قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتا۔اور اگر عدالت کی دیوار پہ شلوار لٹکی ہو تو
عدلیہ کا وقار مجروع ہوتا ہے۔ریلوے کے ملازمین جب اسلحہ اور منشیات کی
سمگلنگ میں کیمرے کی آنکھ سے پکڑے جائیں تو ہتھکڑی بے نقاب کرنے والے ARY
ٹی وی چینل کے میڈیا اہلکاروں کو لگتی ہے اور وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق
اینکر اقرارالحسن پہ دباؤ ڈالتے ہیں کہ پروگرام نشر نہ کیا جائے۔ جس
پاکستان میں حکمرانوں کے لئے تمام اقسام کے کھانے ناکافی ہیں،اسی پاکستان
میں کچھ مائیں بچوں کا گلا اپنے ہاتھوں سے دبا دیتی ہیں کیونکہ ان سے اپنے
لخت جگروں کی بھوک سے بھلبھلاہٹ نہیں دیکھی جاتی، تھر میں کئی بچوں کو
غذائی قلت ابدی نیندسلا دیتی ہے۔حکومت میٹرواور موٹر وے جیسی سکیمیں اپنے
اقتدار کو طول دینے اور کمیشن کھانے کے لیے متعارف کراتی ہے،لیکن پینے کے
لیے پانی میسر نہیں کرتی۔سارا انحصار قرضوں پہ کر کے ترّقی نہیں ہوا کرتی۔
ترّقی کے لیے وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو یہ
سوچتے ہیں کہ ٹماٹر کیسے خریدیں۔یہ ہے وہ نظام جس کے ہم غلام ہیں اور
حکمران طبقہ تمام قوانین سے بالا تر ہے۔اگر ہم اس کے اصل مجرم تلاش کریں تو
انگلی اپنی طرف اٹھتی ہے،کیونکہ ساری تباہی کے ذمہ دار حکمرانوں کے ساتھ
ساتھ ہم خود بھی ہیں جو چوکوں اور جلسوں میں مداری حکمرانوں کے جوشِ خطابت
کو دیکھ کر اپنی رضامندی سے ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں اور آنکھیں بند کر
دیتے ہیں۔ہم خود ہی ان کو کندھوں پہ اٹھاتے ہیں اور ان کے لئے نعرے لگا کر
گلے پھاڑتے ہیں۔کچھ عوام کی جاہلیت اور کچھ مفاد پرست عناصر کی خود غرضی
پاکستان کے لٹنے کا سبب بن رہی ہے۔مفاد پرست طبقہ کرپٹ سیاستدانوں سے سیاسی
وابستگی رکھتا ہے۔ان مفاد پرستوں میں سے بیشتر بلدیاتی الیکشن میں
امیدواریا سپورٹرز کی صورتوں میں سامنے آتے ہیں،جن میں سے اکثر کو یہ بھی
پتہ نہیں ہوتا کہ وہ کیسے استعمال ہو رہے ہیں۔ان میں سے بیشتر کا مقصد اپنے
اپنے مفادات یا پھر کچھ پھوں پھاں بنانایعنی سستی اور ،مگرحقیقت میں جھوٹی،
شہرت حاصل کرنا ہوتا ہے۔یہی بلدیاتی الیکشن کے امیدوار،قومی اور صوبائی
الیکشن میں بے ضمیر سیاستدانوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو اس
ظالمانہ نظام کا غلام بناتے ہیں۔اس نظام کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے
عَلم بغاوت بلند کیا ہے ،جبکہ نون لیگ اور دوسری سیاسی پارٹیاں اسی نظام کو
بچانے کے لئے کوشاں ہیں۔ہم نے نون لیگ کے چہروں کو پہچاننا ہے جو خدمتِ خلق
اور علاقائی ترّقی کے لبادے میں بلدیاتی انتخاب کے امیدوار بنے بیٹھے
ہیں۔ہمیں غور سے ان کے عزائم کو سمجھنا ہے۔یہ خود نون لیگ کے غلام ہیں اور
اپنا حصہ لے کر سب کو غلام بنانا چاہتے ہیں۔یہ اپنے آقاؤں کو زیادہ ووٹ
دلاکر اپنی Value بناتے ہیں۔وولٹئر نے کہا تھا کہ ان غلاموں کو آزاد کرانا
مشکل ہے جو اپنی غلامی کی زنجیروں کی خود عزت کرتے ہوں۔ابوالکلام آزاد کا
قول ہے کہ بدترین غلامی وہ ہے جس میں غلام کو غلامی کا احساس نہ ہو۔لہـٰذا
یہ بدترین غلام قوم کو بد ترین غلامی میں جھکڑنا چاہتے ہیں۔یہ خود کو غلام
نہیں سمجھتے لیکن ہم نے انہیں ٹھکرانا ہے۔یاد رکھیے جہالت ایک لعنت اور جرم
ہے۔اگر آج آہین میں یہ ترمیم کر دی جائے کہ ووٹ کا حق صرف خواندہ افراد کو
ہے تو کرپٹ اور مفادپرست سیاسی پارٹیوں کی موت ہو جائے۔لیکن اس بیکار
جمہوریت میں احمق اور دانشور سب برابر ہیں۔احمقوں کی اکثریت کے بل بوطے پہ
ملک لوٹا جا رہا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر ووٹر اور سپورٹر اپنے آپ کو
ٹٹولے کہ کیا ہماری سیاسی وابستگی کی وجہ کہیں ہماری خود غرضی،مفاد
پرستی،جہالت،ضد یا تعصب تو نہیں؟کیا ہمیں ذاتی مفاد کی خاطر اپنے پیارے
وطنِ عزیز کو داؤ پہ لگانا چاہیے؟۔اور اگر سب کچھ جان بوجھ کر بھی ہم سچائی
کو تسلیم نہ کریں تو پھر ہم گمراہی کے زمرے میں آئیں گے اور گمراہوں کو
اﷲمعاف نہیں کرتا۔ہم نے ہمیشہ دنیا میں نہیں رہنا،ہم آنے والی نسلوں کے لئے
کیا کر رہے ہیں؟کیا ہم کہیں اپنے مفاد،غرض یالالچ کی خاطر اپنی آئندہ نسلوں
کو قربان تو نہیں کر رہے؟کہیں ہماری لا پرواہی اور حقائق سے دانستہ انکاری
ملکی سلامتی کے مستقبل کو بھی داؤ پہ تو نہیں لگا رہی؟گہرائی سے سوچنے کی
ضرورت ہے کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں؟ ہمیں اپنے آپ،ملک اور آئندہ نسلوں کے
لیے دیانتدار بننے کی ضرورت ہے۔
حیرانگی ہوتی ہے ان سپورٹرز اور ووٹرز پہ جن کا لیڈر ایک پرچی ریڈر،آئی ایم
ایف کے آگے ہاتھ پھیلانے والا اور اپنی دولت بیرونی ممالک میں جمع کرنے
والا ہے۔جس کی کرپشن کے چرچے سارا میڈیا کرتا ہے۔ بعض مفادپرست غلام یا
عاشق ایسے بھی ہیں جو کیمرے کی آنکھ سے دکھائی گئی حقیقت کو بھی تسلیم نہیں
کرتے۔ظلم اور نا انصافی کے کتنے ہی ثبوت فراہم کر دیے جائیں،یہ اندھے اور
بہرے ہی بنے رہیں گے۔بڑے سے بڑا ظلم انہیں جگا نہیں سکتا۔یہ غلام کتنے خوش
ہوئے ہوں گے،جب انہوں نے وزیرِاعظم صاحب کو صدر اوباما کے سامنے تابعداری
کے عالم میں کانپتے ہوئے ہاتھوں پرچیاں پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔کیا خوب شان و
شوکت ،وقار،عظمت اور دلیری تھی ہمارے وزیرِاعظم صاحب کی جب وہ اپنی پینٹ کے
جیب سے کرسی سے ذرا اوپر کھسک کرپرچیاں نکال رہے تھے اور ایک مڈل کلاس
سٹوڈنٹ کی طرح اوباما کو سنا رہے تھے۔اس پر ساری قوم کا سر فخر سے بلند ہوا
ہو گا کہ ہمارے لیڈر نے اپنے آقا کے سامنے بڑی عاجزی سے حاضری دی ہے۔بعد
میں صدر اوباما نے مڈیا پہ یہ بھی کہہ دیا He was nervous ۔حوالہ درج ہے۔
https://www.dailymotion.com/video/x2ba5qs_pakistan-s-pm-plz-plz-dont-merge_news
دنیا میں ہمارا امیج کچھ اس طرح ہے کہ انڈیا کے ایل کے ایڈوانی نے ایک بار
کہا تھا کہ پاکستانی نالی پختہ کرنے والے کو ووٹ دے دیتے ہیں۔انگلینڈ کے
سینیٹرJosh Kenyonنے ٹویٹ کیا کہ حیرانگی ہے ایسی قوم پہ جو ایسے لیڈر پہ
اعتبار کرتی ہے جس کی پراپرٹی پاکستان میں کم اور باہر زیادہ ہے۔
ان تمام مایوس کن حالات کے باوجود ہمارے پاس پھر بھی ایک امید کی کرن ہے،جس
سے ہم سارا پاکستان روشن کر سکتے ہیں اور وہ امید ہمارے پاس عمران خان
ہے۔یہ وہ ہستی ہے جو پاکستان کے لیے اﷲکی بڑی نعمت ہے۔عمران خان پاکستان کو
اس غلامی سے نجات دلا کر ایک آزاد ملک بنانا چاہتا ہے۔فرقہ واریت،برادری
ازم اور ذات پات کی تقسیم کو مٹانا چاہتا ہے۔اس کا خواب ہے کہ پاکستان با
عزت اور ترّقی یافتہ ملک بنے۔لا قانونیت اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو۔پاکستان
صحیح معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار ہو اور حکمران طبقہ بھی قانون کے
تابع ہو۔اس کا ٹارگٹ کرپشن کو مٹانا،بھیک اور گداگری کے کشکول توڑ کر اپنے
وسائل استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ہر آدمی کو انصاف کی فراہمی ہے۔اس کے
ایجنڈے سے صرف وہی شخص انکار کر سکتا ہے،جس کے نظریات میں غلامی ہو۔عمران
خان نے پاکستان سے لوٹا کچھ نہیں اور بغیر کسی اقتدار کے بہت سے تحفے دیے
ہیں۔جن میں شوکت خانم کینسر ہسپتا ل اورنمل یونیورسٹی نمایاں ہیں۔خان نے
سڑکوں پہ نکل کرنیٹو سپلائی بند کر کے ڈرون حملے بھی رکوائے تھے۔جس سے واضح
ہے کہ وہ اپنے وعدوں کا پابند ہے۔دھرنے کے دباؤ کی وجہ سے جوڈیشیل کمیشن
دھاندلی کی تحقیقات کے لیے قائم ہو چکا ہے،جس سے آئندہ الیکشن شفاف ہونے کے
چانسز بن سکتے ہیں۔کے پی کے حکومت بیشمار مشکلات ہونے کے باوجود ترّقی کی
راہوں پہ گامزن ہے اور لوگ مطمئن نظر آتے ہیں۔ اس عظیم لیڈر نے اپنی زندگی
پاکستان کے لیے وقف کر دی ہے اور تمام فرعونوں کے خلاف ڈٹ کے کھڑا ہے۔ سب
سے بڑھ کر عمران خان نے قوم میں شعور بیدار کیا ہے جس سے لٹیروں کی نیندیں
اڑی جا رہی ہیں۔سب مافیا گروپ اور کرپٹ سیاستدان اس کے خلاف اکٹھے ہو گئے
ہیں۔یہ پاکستان کا وہ محافظ ہے جس نے پاکستان کی تعمیرِنو کرنی ہے۔اگر اﷲ
کی دی ہوئی اس نعمت کی ہم نے قدر نہ کی توپچھتاوے کے علاوہ کچھ باقی نہیں
بچے گا۔ وطنِ عزیز کے وسائل پہ غیروں کا قبضہ بڑھتا جا رہا ہے۔کیونکہ ٹھیکے
غیر ملکی کمپنیوں کو دیے جا رہے ہیں۔بلوچستان کے معدنی وسائل غیروں کے
حوالے کیے جا رہے ہیں۔کیا بعید کہ (اﷲنہ کرے )یہ کمپنیاں اور بلیک واٹر
جیسی تنظیمیں ماضی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ثابت ہوں۔ساتھ ساتھ بھوک و
افلاس اپنے پاؤں جما رہی ہے۔اندرونی اور بیرونی سازشیں پاک سرزمین کو لپیٹ
میں لے رہی ہیں اور دہشت گردی کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے۔اگر ہم اپنے کردار
پہ غور کرتے ہوئے اپنی سمت کا درست تعین کرنے کی بجائے مفاد پرست
سیاستدانوں اور ان کے خاندانوں کی غلامی کرنے پر بضد رہے تو مستقبل بڑا
بھیانک ہو گا۔(اﷲ نہ کرے) ہمارے وسائل غیروں کے کنٹرول میں ہوں گے جیسا بعض
افریقی ممالک مثلاََ کانگو اور سریا لون وغیرہ میں ہے۔جہاں ہیرے کی کانیں
اور بے پناہ وسائل ہیں ،خوبصورت سڑکیں بھی بہت ہیں مگر خواتین کھانا حاصل
کرنے کے لئے اپنی عزتیں فروخت کرتی ہیں اور بچے ننگے پاؤں لئے گندگی کے
ڈھیروں سے خوراک تلاش کرتے ہیں۔جہاں ایبولا وائرس سے ناقابلِ علاج اور جان
لیوا امراض پھوٹتی ہیں اور موت رقص کرتی ہے۔کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری وجہ
سے آئندہ نسلوں کے لیے ایسے حالات پیدا ہو جائیں۔آخر کب تک ہم پاکستان کے
سارے وسائل لٹنے کے مناظر دیکھتے رہیں گے۔ دبئی،جدہ اور لندن میں کب تک
ہماری دولت منتقل ہوتی رہے گی۔ایسا کب تک ہو گا اور آخر اس کا انجام کیا
ہوگا۔سب کچھ گہرائی سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ |