آج دنیا میں بظاہرامن و سکون نظر
آتاہے مگر اس خاموشی کے تہہ میں ہزاروں ہنگامے پل رہے ہیں ہر قوم دوسری قوم
کے خون کی پیاسی ہے ہر ملک دوسرے ملک کو ہڑپ کر نا چاہتا ہے اور ہر شخص
دوسرے شخص کا جان لیوا ہے اس دور انتشار میں زندہ رہنے کے لیے طاقت کی
ضرورت ہے ۔وہی قوم اور وہی ملک پُر وقار زندگی گزار سکتا ہے جس کے پاس
عسکری طاقت اور جذبہ ہو ۔اگر کوئی قوم عسکری قوت سے عاری ہے تو یوں محسوس
ہوتا ہے جیسے اُسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ تاریخ اور تقدیر
دونوں کا فتویٰ یہی ہے کہ
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
ہم جس پاک مذہب کے پیروکار ہیں وہ ہمیں امن و سکون اور سلامتی کا درس
دیتاہے مگر اس کے ساتھ اپنے حقوق ،ملت کے مفادات اور دین کے تقاضوں کا سودا
نہیں کرتاجہاں ان میں سے کسی چیز پر آنچ آتی ہو۔اسلام مسلمان کو شمشیر بکف
ہو جانے کا درس دیتاہے اگر ظلم و ستم کا دور دورہ ہو، استبدادی قوتیں
منافقانہ رویہ اپناتے ہوئے سازشوں میں مصروف ہوں۔ہستی کی نبضیں تپش آمادہ
ہوں ۔عصمت و آبرو کے آبگینے مجروح ہو رہے ہوں ۔چادر اور چار دیواری دونوں
خطرے میں ہوں تو اسلام مسلمان کو جہاد کا حکم دیتاہے یعنی مسلمان اﷲ کے
لیئے ،اﷲ کے رستے میں اس وقت تک لڑتا چلا جائے جب تک امن و آشتی بحال نہ
ہوجائے گویا اپنی قوت کو مستحکم کرنا ،عسکری لحاظ سے خود کو اس قابل بنانا
کہ کوئی آنکھ کج نگاہی سے نہ دیکھ سکے ہمارا ایک دینی فریضہ ہے ۔پاکستان
ایک اسلامی ملک ہے ہم نے اسے بیش بہا قربانیوں سے حا صل کیا ہے اس کی تاریخ
کے حاشیوں پر ہمارے آباؤ اجداد کے خون کی رنگینی آج بھی فروزاں ہے پاکستان
کے دشمن اسے محض اس لیئے ختم کرنا چاہتے ہیں کہ یہ اسلام کا قلعہ ہے ۔ہمارے
لیئے ضروری ہے کہ ہم اﷲ کے فضل و کرم پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی قوت بازو سے
اس قلعے کو ناقابل تسخیر بنا دیں۔قیام پاکستان سے لیکر آج تک ہمیں کتنے ہی
انقلاب کا سامنا کرنا پڑا ۔1947 ء کی خون آشامیاں 1965 ے کی جان فروشیاں
اور 1971 ء کے زخم دلوں اور نگاہوں میں تازہ رہیں گے ۔ضرورت اس امر کی ہے
کہ ہم خود کو اس قدر مضبوط بنا لیں کہ ہمار ا وطن سیسہ پلائی دیوار بن جائے
کہ اس سے ٹکرنے والاپاش پاش ہو جائے ۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جس قو م نے تن
آسانی کو اپنا شیوہ اورتیغ وسناں کو چھوڑ کر طاؤس و رباب کو اپنی زندگی بنا
لیا وہ یوں مٹ گئی جیسے خزاں دیدہ پتا درخت سے گرتااور ہوا کے درشن پر
لڑھکتا پھرتاہے ۔وہ قومیں جنہوں نے اپنی خون جگر سے چراغ روشن کیئے اور
اپنے اعمال کی خوبی کو دشمنوں سے منوایا جنہوں نے اپنی تاریخ خود بنائی آج
بھی ان کا ذکر عزت و احترام سے لیا جا تاہے ۔عربوں نے جب اسلام قبول کیا
اسے عام کرنے کے لیئے دنیا کے گوشے گوشے میں گئے تو ان کے پاس ایک چیز تھی
جیسے ہم عمل کہتے ہیں وہ جو کہتے تھے ان کے قول و فعل میں مطابقت تھی انہوں
نے اسلام کے لیئے اپنا خون پیش کیا اور ان کا خون تاریخ کے ایوانوں کو
رنگینی عطاکر گیا اور آج بھی جب انکا نام آتاہے تو بڑے بڑے حکمرانوں کے سر
عقیدت سے جھک جاتے ہیں ۔وقت گزرتاجا رہاہے تاریخ مرتب ہورہی ہے زمانہ تیزی
سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہے جو قوم زمانے اور وقت کے تقاضوں کا ساتھ
دیتی ہے وقت کا کارواں اسے ساتھ لے جاتاہے جو قوم ان تقاضوں سے سے پہلو تہی
کرتی ہے تو زمانہ اسے روندتا ہوا آگے نکل جاتاہے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم وقت
کے تیور پہچانیں ،ہوا کا رخ جانچیں، تاریخ کی رو کو سمجھیں ،صباکے زمزموں
اور گھٹا کے اشاروں کو دیکھیں اور پھر زندگی کے میدانوں میں اپنے عمل کی
تمام صلاحیتوں کو اس مقصد کے لیئے وقف کردیں اس کے لیئے ضروری ہے کہ دل میں
عشق کا جذبہ پیدا ہو جائے جو اسے منزل کے پارلے جائے اور اس کے سامنے پہاڑ
کنکر بن جائیں اور سمندر راستہ چھوڑ دیں۔
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیان رہے
اب وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے دشمنوں کی سازشوں سے باخبر رہیں اور اپنی
پاک افواج کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ اسلحہ فراہم کریں اس کے لیئے اپنا
دفاعی بجٹ بڑھائیں تاکہ ہماری پاک افواج اندورنی و بیرونی دشمنوں کا بھر
پور مقابلہ کر سکے ۔بقول شاعر
بقا ء کی فکر کرو خود ہی زندگی کے لیئے
زمانہ کچھ نہیں کرتا کبھی کسی کے لیئے
|