کٹھ پُتلی تماشا
(Tehzeeb Hussain Bercha, )
’’گلگت بلتستان کے عوام کی
نہ صرف خدمت کریں گے بلکہ اس علاقے کے سپوت ہونے کا حق بھی ادا کرتے ہوئے
کرپشن اور بیڈ گورننس کے خاتمے اور میرٹ کی بالادستی کے لیے ہنگامی بنیادوں
پر اقدامات کریں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’سیاحت کے شعبے کو ترقی دینے کے ساتھ ساتھ خطے کے وسائل کو بھی بروئے کار
لا کر یہاں کے باسیوں کی تقدیر بدل دینگے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’شہر میں کھنڈرات منظر پیش کرتی ہوئی سڑکوں کی مرمت کا سلسلہ بھی بہت جلد
شروع کیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ اس علاقے کے سرکاری سکولوں کی حالتِ زار کو بہتر بنا کر بچوں کو مفت اور
معیاری تعلیم کی دی جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’گلگت بلتستان کے ہسپتالوں کو دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے غریب
عوام کو علاج معالجے کے لیے بہترین سہولیات فراہم کیے جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’علاقے کے نوجوانوں کو کاروبار کی شروعات کے لیے آسان شرائط پر قر ضے دیے
جائیں گے اور غمِ روزگار کے ماروں کو با روزگار بنایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ گلگت بلتستان سے لوڈشیڈنگ کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جائے
گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ‘‘
یہ دعوے عوامی خواہشات‘آرزووں اور تمناؤں پر اترتے کسی مہذب معاشرے سے تعلق
رکھنے والے باضمیر لیڈروں کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ نہیں بلکہ GBLA-2015
کے انتخابات کے سلسلے میں جی ۔بی کی مختلف شاہراہوں میں مختلف سیاسی‘سماجی
اور مذہبی جماعتوں کی جانب سے کھولے گئے تشہیری دفاتر کی فضاؤں میں گونجتے
بے ضمیر سیاستدانوں کے اعلانات ہیں ۔تا حدّ ِ نظر جہاں بھی دیکھیں ان
کمپیئن دفاتر کے لگے اتوار بازار کو دیکھ کر گماں ہو تا ہے کی جیسے مداری
تماشا لگا ہو جس میں ہر سیاسی مداری اپنے ہنر کو بروئے کار لاتے ہو ئے
زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
عوامی شاعر حبیب جالب نے کیا خوب کہا تھا
ہر راہزن ہے راہبر و میرِ کارواں
ہر اہلِ زر ہے خاک نشینوں کا ترجماں
جوں جوں گلگت بلتستان میں8جون2015کے انتخابی عمل کے دن قریب آتے جا رہے ہیں
اس خطے کی سیاسی گہماگہمی میں اور بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔مستقبل میں
سیاسی حوالے سے مریض قوم کون سے سیاسی لیڈر کو منتخب کریں گے اور کس کو
مسترد۔یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن یہ ایک ننگی حقیقت ہے کی وہ وقت
دور نہیں کہ جب اس قوم کی سوچ ‘امنگیں اور آرزوئیں خاک میں مل جائیں کیونکہ
ہم سیم وزر زدہ زمین میں بیج بو کر اچھی فصل کی توقع کر رہے ہیں لیکن قدرت
کا نظام ہے کہ بیج زرخیز زمین میں بو کر ہی مثبت نتائج کی توقع کی جا سکتی
ہے لیکن ہم کسی گنے چنے نئے اورباکردار لیڈر کو بھی غریبِ شہر کا دشمن اس
فرسودہ نظام کی کیچڑ زدہ دلدل میں غوطہ زن کراکر موتیوں کی برآمدگی کے خواب
دیکھ رہے ہیں۔
بقول جالبؔ
ہر صبح مری صبح پہ روتی رہی شبنم
ہر رات مری رات پہ روتے رہے تارے
گلگت بلتستان میں آزادی کے بعد ہی سے اس جنت نظیر خطے پر بیرونی افراد کی
حکمرانی رہی ہے۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت یا حکمرانی ہے
کیاچیز۔۔۔۔۔۔۔؟نہیں نہیں جناب ! حکومت کوئی آسمان سے اتری ہوئی شے نہیں
بلکہ جو لوگ حقیقی معنوں میں کسی علاقے پرحکمرانی کرتے ہیں یا حکمراں ہوتے
ہیں تو انہی کی حکومت قائم ہوتی ہے-
کہتے ہیں کہ آج سے اڑھائی تین ہزارسال قبل یونان میں بادشاہ امراء طبقے میں
سے اپنے لیے مشیر چنتے تھے اور انہی کی مشاورت سے نظامِ حکومت چلاتے تھے
اسی طرح گلگت بلتستان میں 18نومبر1970 کی مشاورتی کونسل کے قیام کے بعد ہی
سے چند افراد(عرباء) کو مراعات سے نواز کر علاقے پر حکمرانی کی جا رہی ہے
اور آج بھی گلگت بلتستان میں وزیرِ اعلی‘گورنراور ممبرانِ اسمبلی کی فوج کو
مراعات سے نواز کر یہاں کے عوام کے حقوق غصب کیے جارہے ہیں جبکہ گلگت
بلتستان قانون ساز اسمبلی کے ممبران کی حیثیت کٹھ پُتلی تماشے کے کرداروں
سے زیادہ کچھ نہیں ہے اور اس کٹھ پُتلی تماشے کی دور کہیں اورسے ہلائی جاتی
ہے اور سیاسی حوالے سے بے شعور قوم پر زمین تک اتنی تنگ کی گئی ہے کہ اپنے
حقوق کے حوالے سے غورو فکر کرنا تو دور کی بات۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کو تو اپنے اور
اپنے بچوں کی پیٹ پوجا کی فکر ستائے جارہی ہے
بقول جالبؔ
وہ جس کی روشنی کچے گھروں تک بھی پہنچتی ہے
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ اپنے دن بدلتے ہیں
گلگت بلتستان کے عوام کو 68سالوں سے محرومیوں کو سامناہے اور16نومبر1947کو
پہلے پولیٹیکل ایجنٹ سردار محمد عالم کی آمد سے لے کر2015میں وزیر امور
کشمیر و گلگت بلتستان و گورنر برجیس طاہرکے دور تک اس خطے کی سیاسی حیثیت
کا تعین نہیں ہو سکا ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے اپنے گلگت
بلتستان کے گزشتہ دورے میں اس علاقے کے آئینی حیثیت اور با اختیاری کے
مسئلے پرغور کرنے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے لیکن ’’ایک وعدہ ہے کسی کا
جو وفا ہوتا نہیں ‘‘ کے مصداق دھن کے پہاڑوں پر تخت سجائے بیٹھے حکمرانوں
کے اعلانات پر اعتبار کرنا طوائف سے عشق لڑانے کے مترادف ہے اس کے علاوہ
شروع ہی سے اس علاقے سے حقیقی معنوں میں محبت کرنے والوں کی یہ بدقسمتی رہی
ہے کہ یہاں چاپلوسی کی بیماری بہت زیادہ ہے بلکہ اب تو ناسور کی شکل اختیار
کر گئی ہے اور پاکستانی سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے افراد نمک حلالی
کا کچھ زیادہ ہی مظاہرہ کر رہے ہیں اور پارٹی عہدوں‘پروٹوکولز اور
جائیدادوں کی مد میں عوامی امنگوں کا سودا کر رہے ہیں
بقول جالب ؔ
شازشیں ہیں وہی خلافِ عوام
مشورے ہیں وہی مشیروں کے
گلگت بلتستان کے عوام کی یہ بد قسمتی ہے کہ یہاں کی پڑھی لکھی نوجوان نسل
ابھی تک وطن کی فکر کرنے سے قاصر ہیں اور جس قوم کے نوجوان سوچنے کی صلاحیت
سے محروم ہوں اور تعلیم کا مقصد فقط حصولِ روزگا ر ہو یا جن کے قبلہ اور
دلوں کی دھڑکن آصف علی زرداری‘ نوازشریف‘ عمران خان‘الطاف حسین اور فضل
الرحمن جیسی شخصیات ہوں تو اس قوم کی مستقبل کے حوالے سے شاندار توقعات
رکھنا ہی بے سود ہے لیکن ’’پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ‘‘ کے مصداق آج
بھی اس جنت نظیر خطے کے لیے دردِدل رکھنے والے اور سیاسی حوالے سے چندگنے
چنے با شعورافراد موجود ہیں جو آنے والے وقتوں میں علاقے سے محرومیوں کے
حوالے سے نجات دہندہ کا کردار ادا کرسکتے ہیں۔گلگت بلتستان کی نوجوان نسل
کو اس فرسودہ نظام اور پاکستانی سیاسی پارٹیوں کی کٹھ پُتلی حکومتوں سے
امیدیں وابستہ رکھنے کے بجائے اپنے حقوق کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے
تا کہ گلگت بلستان میں ایک عرصے سے جاری کٹھ پُتلی تماشے کا خاتمہ کیا جا
سکے۔ |
|