نمک پارے

٭سماجی کارکن
معروف سماجی کارکن سیف الاسلام قریشی کے والد صاحب میرے سامنے بیٹھے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے:
’’بیٹا، وہ ہمارا ذرہ برابر بھی خیال نہیں رکھتے․․․․․ ان کی ساری خدمات شہر کے لوگوں کے لیے ہیں․․․․ ہم تو صاف ستھرا لباس پہننے سے بھی محروم ہیں․․․․․ بیمار پڑ جائیں تو دوا لانے کے لیے کسی پڑوسی کی منت سماجت کرنی پڑتی ہے․․․․․․ ان کے منہ سے دو میٹھے بول سننے کو یہ کان ترس گئے ہیں․․․․․ پلیز، انہیں سمجھاؤ کہ والدین کا بھی حق ہوتا ہے اولاد پر․․․․․ ہمیں سماجی کارکن کی نہیں، ایک پیار کرنے والے بیٹے کی ضرورت ہے․․․․․‘‘

وہ نہ جانے کیا کیا کہہ رہے تھے، جبکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ کیا اسی کا نام سماج کی خدمت ہے کہ ہمارے اپنے والدین در بدر بھٹکتے رہیں؟ حالانکہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ کا ارشادِ پاک ہے:’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہے!‘‘

٭چوہے اور کشمیر
ڈاکٹر جارج سٹیفن کی کتاب ’’Rats in Danger‘‘ کی نیو یارک کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں تقریبِ رونمائی ہو رہی تھی۔ دنیا بھر کے نیوز چینلز کے نمائندے جمع تھے۔ ڈاکٹر جارج سٹیفن ایک مایہ ناز محقق تھے اور ایک دنیا ان کے کام کی قدر کرتی تھی۔ وہ خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے:
’’یہ کتاب لکھنے کا مقصد چوہوں کی ایک خاص اور نایاب نسل کا تحفظ ہے، جو افریقہ کے جنگلات میں رہتے ہیں اور ان کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ میں تمام عالمی برادری اور UN سے اپیل کرتا ہوں کہ چوہوں کی اس نایاب نسل کی بقا کے لیے ہر ممکن کوششیں کریں․․․․․‘‘
ہال پُرزور تالیوں کی آواز سے گونج اٹھا۔

اچانک ایک صحافی نے اٹھ کر سوال کیا، جس کی حق گوئی اور بے باکی پر کوئی انگلی اٹھانے کی جرأت نہ کر سکتا تھا:
’’جناب ڈاکٹر جارج سٹیفن صاحب، آپ نے چوہوں کی مٹتی ہوئی نسل کی بقا کے لیے تو کتاب لکھ ڈالی․․․․․ لیکن کیا آپ کو کشمیر اور فلسطین میں مسلمانوں کی مٹتی ہوئی نسل نظر نہیں آئی․․․․․ جو انسان ہیں اور چوہوں سے بہر حال افضل ہیں․․․․․ ان کی بقا کے لیے کتاب کون لکھے گا؟‘‘

اس سوال نے ڈاکٹر جارج سٹیفن سمیت ساری دنیا کے نمائندوں کا سر جھکا دیا اور ہال میں خاموشی طاری ہو گئی․․․․․ پوری دنیا خاموش ہو گئی․․․․․ پتہ نہیں کشمیریوں اور فلسطینیوں کے حقوق کی خاطر دنیا کب بولے گی؟؟؟

٭’’فکشن ‘‘کی خوشبو
عارف بڑے فخر سے اپنے دوستوں کو بتا رہا تھا․․․․․
’’میرے پاس ’’فکشن‘‘ کے پورے پانچ سال کے شمارے جمع ہیں۔ ایک رسالہ بھی شارٹ نہیں۔ میں نے اپنے کمرے میں چھوٹی سی لائبریری بنا رکھی ہے۔ سارے رسالے اس میں بڑی ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
’’لیکن آپ نے وہ رسالے ہمیں تو کبھی پڑھنے کے لیے نہیں دیے۔‘‘ فاران نے حسرت سے کہا۔
’’میں ہر ماہ اپنے جیب خرچ سے لیتا ہوں․․․․ کسی اور کو کیوں دوں؟‘‘ عارف نے منہ بنایا۔
’’دیکھو عارف !‘‘ کاشف نے کہا۔ ’’علم تو پھیلانے کے لیے ہوتا ہے․․․․․ چراغ سے چراغ جلتا ہے․․․․․ تم ’’فکشن‘‘ کسی کو پڑھنے کے لیے دے کر گویا علم و محبت کی ایک شمع روشن کرو گے․․․․․ پھر اس سے کئی شمعیں روشن ہوں گی․․․․․ جہالت کی تاریکی دور ہو جائے گی تمہاری ذرا سی کوشش سے․․․․․‘‘
بات شاید عارف کے دل میں اتر گئی تھی․․․․ تھوڑی دیر بعد وہ اپنے سب دوستوں کو ’’فکشن‘‘ کے دو،دو شمارے دے رہا تھا․․․․․’’فکشن‘‘ کی بھینی بھینی خوشبو کمرے میں پھیل رہی تھی․․․․․ علم کی ایک شمع روشن ہو چکی تھی!

٭اﷲ کے نام پر
ایک فقیر فروٹ کی دکان میں داخل ہوا اور دکاندار سے کہا:
’’بابا․․․․ اﷲ کے نام پہ ایک آم تو دے دو۔‘‘
دکاندار نے ایک گلا سڑا آم اٹھا کر اسے دے دیا۔
پھر فقیر نے بیس روپے کا ایک نوٹ نکالا اور دکاندار سے کہا کہ اس کا بھی آم دے دو۔
دکاندار نے ایک موٹا تازہ صحت مند آم اسے دے دیا۔
فقیر نے دونوں آم اپنے ہاتھوں میں اٹھا کر آسمان کی طرف بلند کرتے ہوئے کہا:
’’اے اﷲ! دیکھ لے․․․․ تیرے بندے نے تجھے کیسا آم دیا تھا اور مجھے کیسا آم دیا ہے!‘‘
واقعی، سوچنے کی بات ہے․․․․․ کیا ہم بھی اﷲ کے نام پر ایسا ہی تو نہیں کرتے؟؟؟

٭دہشت گرد
وہ محتاط انداز میں چلتا ہوا شہر کے سب سے بڑے شاپنگ سنٹر میں پہنچ گیا۔ وہ ایک خودکش بمبار تھا۔ دہشت گرد تھا۔ اس کا کوئی نام نہیں تھا، کیونکہ دہشت گردوں کا نہ کوئی نام ہوتا ہے، نہ کوئی مذہب!
اس نے بارود سے بھری ہوئی جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ وہ ایک مناسب جگہ پہنچ کر بم بلاسٹ کرنے ہی والا تھا کہ اچانک اسے اپنی ماں نظر آ گئی۔ اس کی ماں نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ وہ آنے والی موت سے بے خبر شاپنگ میں مصروف تھی۔ ایک بار تو اپنی ماں کو دیکھ کر اس کا دل لرز گیا۔ لیکن پھر اسے بابا کا خیال آیا، جس نے اس سمیت کئی لڑکوں کو ٹریننگ دی تھی۔ وہ گویا اس کے سامنے آ کر کہ رہا تھا:
’’جلدی سے بم بلاسٹ کر دو․․․․․ تم سیدھے جنت میں جاؤ گے․․․․ جنت میں حوریں تمہارا انتظار کر رہی ہیں۔‘‘
اس نے بے خود ہو کر بم بلاسٹ کر دیا․․․․․ کئی لوگ مارے گئے، جن میں اس کی ماں بھی شامل تھی․․․․․ ماں، جس کے قدموں تلے اس کی جنت تھی!
اس کی ماں کی لاش گویا دنیا والوں سے سوال کر رہی تھی۔
دنیا والو! وہ کون سا مذہب ہے، جس میں ماں کے قاتل کو جنت ملتی ہے؟ کیا ماں کو قتل کرنے والا جنت کا حقدار ہے ؟
ہرگز نہیں!․․․․․ اس بدنصیب کو تو اپنے دہشت گرد ’’بابا‘‘ نے جہنم کا ایندھن بنا ڈالا تھا!

٭بھارت کا بائیکاٹ
سکول میں کشمیر ڈے منایا جا رہا تھا۔ وقار بڑے پرجوش انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر تقریر کر رہا تھا․․․․․
’’کشمیر ہماری شہہ رگ ہے اور انڈیا ہمارا دشمن نمبر ایک ہے۔ اس نے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔ ہمیں چاہیئے کہ ہر قدم پر کشمیریوں کی حمایت اور انڈیا کی مخالفت کریں۔ اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں۔ اس کی فلموں اور چینلز کا بائیکاٹ کریں۔ حکومت کو بتا دیں کہ جب تک کشمیر آزاد نہیں ہوتا، انڈیا کے ساتھ کوئی سمجھوتا، کوئی معاہدہ ہمیں منظور نہیں․․․․․‘‘
ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ پہلا انعام بھی وقار ہی کو ملا تھا۔
گھر جا کر اس نے جلدی سے ڈش آن کی اور اپنا پسندیدہ انڈین چینل دیکھنے لگا۔ آج اس کے فیورٹ اداکار کی مشہور فلم جو نشر ہونے والی تھی!

٭ڈاکٹر اور ڈاکو
ڈاکٹر ندیم کمال کا شمار ملک کے چند ایک معروف ترین ڈاکٹروں میں ہوتا تھا۔ وہ ایک نہایت قابل سرجن اور ہارٹ سپیشلسٹ تھے۔ ہارٹ سرجری میں ان کی مہارت کسی تعارف کی محتاج نہ تھی۔ لیکن ان کی سب سے بڑی خامی یہ تھا کہ پیسہ ہی ان کے لیے سب کچھ تھا۔ پیسہ ہی ان کا دین ایمان تھا۔ کروڑوں کا بنک بیلنس رکھنے کے باوجود وہ رقم لیے بغیر کسی مریض کے قریب بھی نہ جاتے تھے۔ اور پھر ان کی فیس بھی غریبوں کے بس سے باہر تھی۔
اس وقت وہ اپنی شاندار لینڈ کروزر میں اندرونِ سندھ کا سفر کر رہے تھے۔ آج ان کی ایک بہت بڑی ڈیل تھی۔ ان کے پاس پچاس لاکھ روپیہ نقد موجود تھا۔ ان کے ساتھ ان کا ڈرائیور اور گن مین بھی تھے۔ اچانک ایک موڑ گھومتے ہی ڈرائیور کو گاڑی روکنی پڑی۔ سڑک پر دو درختوں کے موٹے تازے تنے پڑے تھے اور روڈ بالکل بند تھا۔ گاڑی رکتے ہی ابھی وہ سنبھلنے بھی نہیں پائے تھے کہ چار ڈاکو بجلی کی سی تیزی سے آئے اور گن مین اور ڈرائیور کو ریوالور کے دستے مار کر بے ہوش کر دیا۔ ان کے سردار نے ڈھاٹا اتارا تو ڈاکٹر ندیم کمال نے اسے پہچان لیا۔ وہ بدنامِ زمانہ ڈاکو ’’نورا ڈکیت‘‘ تھا۔ پولیس اس کے خوف سے کانپتی تھی۔
اس نے ڈاکٹر صاحب کا بریف کیس قابو کرتے ہوئے اس سے کہا:
’’میں تمہیں زندہ چھوڑ رہا ہوں․․․․․ لیکن خبردار پولیس میں رپورٹ نہ کرنا ورنہ․․․․․․‘‘
وہ جانے لگے تو ڈاکٹر ندیم کمال نے غصے سے کہا:’’یُو باسٹرڈ․․․․․ میں تمہیں دیکھ لوں گا!‘‘
نورا ڈکیت غصے میں آنے کی بجائے ہنس پڑا اور جاتے جاتے کہا:
’’نہ ڈاکٹر صاحب نہ․․․․․ اپنے ہم پیشہ لوگوں کو گالی نہیں دیا کرتے․․․․․ ہم دونوں میں فرق ہی کیا ہے؟․․․․․ہم دونوں ہی لوگوں کو لوٹتے ہیں․․․․․ میں زبردستی لوٹتا ہوں اور تم ان کی مرضی سے․․․․․‘‘

100 باراتی،100بکرے
پرانے زمانے کی بات ہے کہ ایک گاؤں والوں نے اپنے قریبی گاؤں میں رشتہ طے کیا۔ بیٹی والوں نے شرط رکھی کہ جب تک باراتی ہماری فرمائش پوری نہیں کریں گے، ہم دلہن کو رخصت نہیں کریں گے۔ لڑکے والوں نے ان کی بات مان لی اور شادی کی تیاریاں کرنے لگے۔

بارات سے ایک دن پہلے لڑکی والوں کا پیغام آیا کہ بارات میں سو آدمی آئیں اور سب نوجوان ہوں، کوئی بوڑھا ساتھ نہ آئے۔ اب تو وہ سخت فکر مند ہوئے کہ ضرور کوئی خاص بات ہے۔ ایک بزرگ نے کہا۔ ’’تم ایسا کرو، مجھے کسی طرح چھپا کر بارات کے ساتھ لے جاؤ۔ وہ ضرور کوئی ایسی فرمائش کریں گے جس کے لیے تجربہ درکار ہو گا۔ اسی لیے تو کہہ رہے ہیں کہ کوئی بزرگ آدمی ساتھ نہ لائیں۔‘‘

سب نے بزرگ کی رائے سے اتفاق کیا اور اسے کپڑوں والے ایک صندوق میں چھپا کر ساتھ لے گئے۔ جب بارات وہاں پہنچی تو لڑکی والوں نے کہا:
’’ہماری شرط یہ ہے کہ پہلے 100 بکرے کھاؤ، پھر ہم دلہن کو رخصت کریں گے۔‘‘

یہ سن کر باراتی سخت پریشان ہوئے۔ بھلا ایک آدمی ایک سالم بکرا کیسے کھا سکتا تھا؟

اچانک انہیں بزرگ کا خیال آیا۔ ایک آدمی لوگوں کی نظریں بچا کر اس صندوق کے پاس گیا ، جس میں بزرگ کو چھپا کر لایا گیا تھا۔ اس آدمی نے بزرگ کو ساری بات بتائی تو بزرگ نے کہا:
’’تم ایسا کرنا کہ باری باری سب مل کر ایک ایک بکرا کھانا․․․․ اس طرح تم آسانی سے 100 بکرے کھا لو گے۔‘‘
چنانچہ باراتیوں نے کہا کہ ٹھیک ہے، ہم 100 بکرے کھائیں گے لیکن ایک ایک کر کے۔
وہ مان گئے۔ باراتی پہلے ایک بھنے ہوئے بکرے کے پاس گئے اور اس پر ٹوٹ پڑے۔ 100 آدمیوں کے حصے میں بمشکل ایک ایک بوٹی ہی آئی تھی۔ پھر وہ دوسرے بکرے پر پل پڑے․․․․․ پھر تیسرے بکرے کا نمبر آ گیا․․․․․
غرض انہیں پتہ ہی نہ چلا اور وہ 100 بکرے آسانی سے ہڑپ کر گئے۔
یہ دیکھ کر دلہن والے حیران رہ گئے۔ انہوں نے کہا:’’ضرور تمہارے اندر کو بوڑھا آدمی موجود ہے۔‘‘
باراتیوں نے انکار کر دیا۔ دلہن والوں نے اس بزرگ کو ڈھونڈنے کی اپنی سی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ کیونکہ بزرگ تو صندوق کے اندر چھپا ہوا تھا۔ بالآخر انہوں نے دلہن کو ان کے ساتھ رخصت کر دیا۔ سچ ہے کہ بزرگوں کا تجربہ نوجوانوں کی ذہانت سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ ہمیں ان کے مشوروں کی قدر کرنی چاہیئے۔
(اختتام)
Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 295873 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.