لیسکو کی نجکاری

ایک دو ماہ نہیں جب سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے پیپکو کی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نجکاری کے مسلے پر مزدور یونینز اور حکومت کے درمیان آنکھ مچولی جاری ہے۔ ملازمین دھرنے اور پرامن احتجاج کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔لیکن گذشتہ چند ماہ سے ملازمین میں اضطراب ، اور بے چینی بڑھی ہے، ملازمین اپنی قیادت یعنی مزدور راہنماؤں کی اپیل پر اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر بھی اپنااحتجاج ریکارڈ کروائے آئے ہیں۔

ملازمین کی نمائندہ یونینز کی اپیل پر گیارہ مئی سے چودہ مئی تک لیسکو کی سطح پر ’’کام چھوڑ‘‘ ہڑتال رہی بلکہ سانگلہ ہل سے اوکاڑہ تک پوری لیسکو میں مکمل تالا بندی رہی ،اور ہر قسم کا تمام کام ٹھپ کرکے ملازمین ’’ موجیں مانتے رہے، اگر کسی کی لائٹ خراب ہے تو اسے درست کرنے سے یہ کہہ کر معذرت کی جاتی رہی کہ’’ ہم ہڑتال پر ہیں ‘‘ اس قدر موثر ہڑتال کے باعث کئی علاقے اندھیرے میں ڈوب گئے، شاہراہ فاطمہ جناح پر واقع لیسکو ہیڈکوارٹر کے تمام دروازے بند کیے گئے اور لیسکو کے چیف سمیت دیگر افسران کو اندر داخل ہونے سے روکدیا گیا حتی کہ بعض لیسکو عہدیداران کسی قسم کی بد مزگی سے ’’محفوظ‘‘ رہنے کے لیے رکشوں میں سوار ہوکر رفع چکر ہوئے

بڑے بوجھل دل کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ عوام کی منتخب حکومت ہونے کے باوجود حکومت نے اس ملک گیر احتجاج کا نوٹس نہیں لیا بلکہ ان کمپنیوں کی نجکاری کے منصوبے کو بتدریج آگے بڑھانے میں پوری تندہی سے مگن ہے۔نجکاری کمیشن کی ہدایت پر لیسکو نے فوکل پرسن کا تقرر کر دیا ہے اور اطلاعات کے مطابق نجکاری کمیشن کے حکام فوکل پرسن کے ساتھ باہمی مشاور ت سے معاملات کو حتمی شکل دینے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔حکومتی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ اسلام آباد اور لاہورمیں ملازمین کے احتجاجی دھرنے میں کسی حکومتی نمائندے یا وزیر پانی و بجلی نے شریک ہوکر ملازمین کو جھوٹی تسلی تک دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی، حالانکہ عمران خاں کے دھرنوں میں شریک لوگوں کی تعداد سے ہزار گنا توانائی ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کے ملازمین شریک ہوتے ہیں۔ حکومت کا لیسکو ملازمین کی پر امن ہڑتال اور احتجاج کا نوٹس نہ لینا اور ہڑتالی ملازمین کی قیادت سے مذکرات کے لیا اپنے روئیے میں لچک پیدا نہ کرنا افسوسناک پہلو اپنی جگہ پر، لیکن ملازمین کو ان کے مستقبل کے حوالے سے اعتماد میں لینا حکومت خصوصا وزارت پانی و بجلی کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔

ہمیں تو بتایا جاتا تھا کہ کامیاب حکمران کی تعریف یہی ہے کہ وہ کسی مسلے کے سراٹھاتے ہی اسے دبوچ لے تاکہ وہ گھبیر اور سنگین بحران کی صورت اختیار نہ کرپائے لیکنمجھے تو لگتا ہے کہ حکومت کے ذمہ داران کو معاملات کو بگڑنے کی حدود کو چھونے سے قبل سلجھانے کی عادت نہیں ،اسے ہوش اس وقت آتا ہے جب ’’پانی سر ‘‘ سے گر جاتا ہے یا گزرنے کے قریب پہنچ جاتا ہے،بصارت سے محروم نابینا افراد کا معاملہ ہو، ینگ ڈاکٹرز کے پرامن احتجاج کی بات ہو،انسانیت کی خدمت پر مامور نرسز کا اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی مظاہروں مسلہ ہو حکومت اس وقت تک سکون کی نیند سوتی رہی جب یہ تمام معاملات نے پرامن حدود سے باہر نکل گئے…… نابینا افراد پر تشدد، ینگ ڈاکٹرز کے معاملے پر لاہور ہائی کورٹ کا نوٹس لینا اور نرسز پر پولیس کا بے رحمانہ تشدد نے حکومت کی آنکھوں سے پٹی اتاری یہ صورت حال قابل فخر قرار نہیں دی جاسکتی -

میری رائے میں مسلم لیگ کی حکومت خصوصا وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب کو اس جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں مذید تاخیر مسائل کو سنگین بنادے گی یہ تو میاں صاحبان کی خوش بختی ہے کہ انہیں میاں شہباز شریف جیسی زیرک اپوزیشن کا سامنا نہیں ہے ورنہ وہ ان سلگتے مسائل پر سیاست کرنے اور پوائنٹ سکورنگ کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہ دیتی۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ سمیت کئی اور مسائل نے عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے ۔

اطلاعات گردش میں ہیں کہ جون اور جولائی کے مہینے حکومت کے لیے نئی آزمائش لیکر آ رہے ہیں، یار لوگوں کا استدلال ہے کہ قائد انقلاب حضرت علامہ طاہر القادری ایکبار پھر’’ ان ایکشن‘‘ ہونے والے ہیں، کنیڈا میں واپسی کی تیاریوں میں مصروف ہیں، کہنے والوں کا کہنا ہے کہ ’’سانحہ ماڈل کی جوڈیشنل کمیشن کی رپورٹ پر عملدرآمد‘‘ اسلام آباد کے مکینوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر بظاہر مطالبہ ہوگا، کہنے والوں کی زبان تو نہیں پکڑی جا سکتی ۔وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ کورکمانڈر کراچی کی تقریر آنے والے ایام کی سمت اشارہ ہے کہ ماہ جون اور جولائی میں موسم کی حدت کے ساتھ سیاسی لہاظ سے بھی ’’ آگ برسائے ‘‘گا ۔ دعا ہے کہ اﷲ پاکستان اور اس کے غیور عوام کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اس کے ساتھ اسلام آباد کے مکینوں سے درخواست ہے کہ وہ اپنی منافع بخش مصروفیات میں سے کچھ وقت نکالیں اورلیسکو سمیت دیگر کمپنیوں کے احتجاجی ملازمین کے مطالبات کی طرف متوجہ ہوں،اور انہیں اعتماد میں لیں تاکہ جون اور جولائی کی حدت میں متوقع اضافہ میں کمی لائی جا سکے-
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144500 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.