میٹروبس منصوبہ اور راولپنڈی شہر کے مسائل

فی الوقت ساری قوم کا مزاج کچھ اس طرح کا ہو گیا ہے کہ ہم میں سے ہر دوسراشخص سستی ، کاہلی اور تساہل پسندی کاشکار نظر آتا ہے ۔’’ریموٹ کنٹرول‘‘ کی ایجاد نے بھی اس عادت کو رفتہ رفتہ پروان چڑھایا ہے ۔ گھر ہو یا دفتر لوگ ’’ریمورٹ کنٹرول‘‘ ہاتھ میں لے کر سارا دن ٹی وی چینلز تبدیل کرتے رہتے ہیں ۔ اسی وجہ سے وہ کوئی ایک چینل بھی توجہ سے نہیں دیکھ پاتے ۔ ہم میں سے اکثریت یہ چاہتی ہے کہ گھر سے باہر جانے کیلئے اگر ٹرانسپورٹ اُس کے گھر کے اندر یعنی ’’ڈرائنگ روم ‘‘تک پہنچ جائے تو وہاں سے ہی اُس میں سوار ہو کروہ اپنے آفس یا سکول چلا جائے اور وہاں بھی اگر گاڑی اُسے کلاس روم یا اپنے دفتر کے کمرے تک پہنچا دے تو اُسے زیادہ تکلیف نہ اٹھانا پڑے ۔ اسی طرح ہم لوگ سڑک پر آتے ہی بغیر سٹاپ ،جہاں دل چاہا ویگن، ٹیکسی یا رکشے والے کو ہاتھ دیتے ہیں اور اس میں بیٹھ کر اپنی منزل کو روانہ ہو جاتے ہیں ۔ بپلک ٹرانسپورٹ والے بھی عوام کی اس عادت کو پذیرائی بخشتے ہیں ۔اور ہاتھ کے ایک اشارے پر وہی بریک لگا دیتے ہیں ۔چاہے اُن کی اس حرکت سے پیچھے آنے والی گاڑیاں آپس میں ٹکرا جائیں، چاہئے ٹریفک جام ہو جائے ۔ ہمیں قوم کی اس عادت بد کا خیال اس وجہ سے آیا کہ جب ہماری قوم کا انداز اس قدر شاہانہ ہے تو اُس صورت میں’’ن‘‘ لیگ کی حکومت نے جڑواں شہروں کے عوام کو ’’میٹرو بس‘‘ کا جو عظیم منصوبہ دیا ہے ، وہ اس قابل بھی تھی یا نہیں ۔۔؟ ’’میٹروبس منصوبے ‘‘ کی تعمیر پر 41ارب روپے لاگت آئی ہے ، اور 24.4کلومیٹر لمبے اس ٹریک پر 24مقامات پر سٹاپ بھی بنا دئیے گئے ہیں ۔ ان سٹاپس تک رسائی کیلئے ہر شخص کوکم از کم 20سے 30منٹ کا فاصلہ بس میں سوار ہونے پہلے اور اترنے کے بعد بھی پیدل طے کرنا ہوگا کیونکہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے راولپنڈی شہر میں مری روڈ کے اطراف بہت سی گنجان آبادیاں ہیں اور میٹروبس‘‘ کا ہر سٹاپ کافی فاصلے اور اونچائی پر بنایا گیا ہے ۔ گو کہ معمر افراد کیلئے ’’لفٹ‘‘ کا بھی انتظام کیا گیا ہے اس کے باوجود ہماری قوم کے’’ تن آسان‘‘ لوگ اس سہولت سے کس حد تک استفادہ کر پائیں گے ۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔

حکومت سے ’’میٹرو بس‘‘ منصوبے پر 41ارب روپے کی خطیر رقم خرچ کر ڈالی ، اس کے ذریعے روزانہ ڈیڑھ لاکھ شہریوں کو سفری سہولیات میسر آئیں گی ۔میٹرو بس منصوبے کا سب سے بڑافائدہ یہ ہوا ہے کہ اسلام آباد میں تقریباً 6ارب روپے کی لاگت سے پشاور موڑ انٹر چینج تعمیر کیا گیا ہے، یہ رقم ’’میٹر بس منصوبے ‘‘کیلئے مختص رقم میں سے ہی ادا کی گئی۔اگر یہ رقم ادا نہ کی جاتی تو شاہد سی ڈی اے آئندہ 10سال تک یہاں انٹرچینچ نہ بنا پاتا ۔ لیکن راولپنڈی شہرکے باسیوں کا مسئلہ صرف اسلام آباد جانا ہی نہیں ۔ راولپنڈی شہر کا سب سے اہم مسئلہ مری روڈ پر ٹریفک کا دباؤ ہے ، کیونکہ مری روڈ کے دونوں اطراف گنجان آبادیوں کے مکینوں کو اس اہم شاہراہ پر ’’کراسنگ‘‘کا مسئلہ درپیش ہے ،آر پار آنے جانے والوں کو مری روڈ سگنل فری نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک جام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ مری روڈ کا یہ مسئلہ کمیٹی چوک انڈر پاس ، چاندنی چوک فلائی اوور ، 6thروڈ فلائی اوور، مریڑ چوک ٹنل اور راول روڈ کی تعمیر کے باوجود حل نہ ہوسکا ۔ان تمام منصوبوں پر اربوں روپے ضائع کر دئیے گئے ۔ اور اب’’میٹرو بس ‘‘منصوبے پر 41ارب روپے لگا دئیے گئے ہیں ۔ فرنگیوں کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ایک بات سامنے آتی ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنے منصوبوں کو 100سالہ ضروریات کو مدنظر رکھ کر مرتب کیا جبکہ ہماری حکومتیں مختصر مدت کیلئے منصوبے بناتی ہیں جن کی وجہ سے چند سالوں میں ہی ان کی افادیت ختم ہو جاتی ہے ۔ ’’میٹرو بس ‘‘ منصوبے کے بارے میں بھی خود اس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر و کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) زاہد سعید نے اپنے انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ میٹروبس منصوبہ جڑواں شہروں کی 15سالہ ضروریات پوری کرے گا۔ ظاہر ہے کہ شہر کی آبادی مسلسل بڑھ رہی ہے ۔تواس کی سفری ضروریات بھی تیزی سے بڑھ رہی ہیں ، اور15سال گذرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ۔۔’’میٹروبس‘‘کا تحفہ دینے کے دعویدار کیا یہ بتانا پسند کریں گے کہ 15سال بعد راولپنڈی شہر کی کیا حالت ہو گی ۔؟۔اور اُس وقت ’’میٹرو‘‘ کی جگہ کیا حکمت عملی اپنائی جائے گی ۔ راولپنڈی کے مسائل کا جائزہ لیا جائے تو اس شہر کو تین اطراف سے اسلام آباد نے گھیرے میں لے رکھا ہے ۔ آبادی کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے آج تک کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی ۔ اندرون شہر فوارہ چوک کو تقریباً 6سڑکیں یعنی سٹی صدر روڈ،کشمیری بازار،گنج منڈی روڈ، راجہ بازار ، لیاقت مارکیٹ(اقبال روڈ)،لیاقت روڈ لگتی ہیں ۔ اس چوک کی کشادگی اور یہاں یادگاریں بنانے پر لاکھوں روپے خرچ کر دئیے گئے ۔ اسی چوک میں ایک کثیرالمنزلہ کارپارکنگ پلازہ بنا کر قومی دولت کا ضیاع کیا گیا ۔ کیونکہ جس مقصد کے تحت اس کی تعمیر کی گئی وہ مقاصد وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت کھو چکے ہیں ۔ مری روڈ پر، موتی محل چوک، لیاقت باغ، کمیٹی چوک ، کوہاٹی بازار، اصغر مال چوک ، چاندنی چوک ، 6thروڈ چوک ، ڈبل روڈ شمس آباد وغیرہ پر کاڑیوں کی کراسنگ ایک مستقل درد سر ہے ۔یہی حال چونگی نمبر 4، چوک بازار کلاں ، بانسانوالہ بازار، بنی چوک ، محلہ امام باڑہ، صادق آباد چوک ، پنڈورہ ، سید پور روڈ پر واقع تمام کراسنگز ،6thروڈ ،5thروڈ ، سمیت پربیشتر کراسنگز پر ہے ۔ لیکن آج تک اس جانب کوئی توجہ ہی نہ دی گئی ۔ راولپنڈی کی تاجر برادری خود ٹریفک کے مسائل میں اضافے کی ذمہ دار ہے لیکن انہیں بھی اس بات کا کوئی احساس نہیں ہر بازار میں پارکنگ کا مسئلہ سوہان روح بنا ہوا ہے ۔ اکثر پلازوں کے باہر گاڑیوں کی پارکنگ ٹریفک کی روانی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے ، شہر بھر میں سوائے چند ایک پلازوں کے کہیں پارکنگ موجود نہیں ۔ اگر کہیں ہے بھی تو وہاں پارکنگ فیس اتنی زیادہ لی جاتی ہے کہ لوگ سڑک پر ہی گاڑی پارک کر کے چل دیتے ہیں ۔

بیشک! ’’میٹروبس منصوبہ‘‘سفری سہولیات کے حوالے سے جڑواں شہروں کے عوام کیلئے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کا ایک بڑا تحفہ ہے اور اس کی تعمیر کے ساتھ ساتھ اس پراجیکٹ کیلئے مختص رقم سے ہی مری روڈ پر کئی اور منصوبے بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کی حکمت عملی اپنا ئی گئی اور یہ تمام کام پراجیکٹ ڈائریکٹر و کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) زاہد سعید کی دوراندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، ورنہ ماضی میں جتنے بھی منصوبے بنائے جاتے رہے انہیں انہی تک محدود رکھا گیا ۔ اس کاوش پر پراجیکٹ ڈائریکٹر و کمشنر راولپنڈی کیپٹن (ر) زاہد سعید واقعی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے ’’میٹر وبس منصوبے ‘‘ کیلئے مختص کی گئی رقم سے شہر کی بہتری کیلئے ساتھ ساتھ دیگر کام بھی نمٹادئیے ہیں ۔جن کا فائدہ بہر حال راولپنڈی کے شہریوں کو ہی پہنچے گا ۔لیکن ماضی کی طرف نظر دہرائیں تو جنرل مشرف کے دور میں نالہ لئی ایکسپریس کا آغاز کیا گیا تھا جس کا مقصد مری روڈ پر ٹیفک کے دناؤ کو کم کرنا تھا ۔یہ منصوبہ اس وقت شیخ رشید احمد کی ذاتی کاوشوں کا مرہون منت تھا ۔اُن سے ذاتی و سیاسی اختلافات ہونا الگ بات ہے لیکن یہ منصوبہ راولپنڈی شہر کیلئے بہت اہمیت کا حامل تھا جیسے محض اس لئے داخل دفتر کر دیا گیا کہ یہ موجودہ حکومت کے ایک سیاسی مخالف نے شروع کرایا تھا ۔ یہ منصوبہ کسی طور بھی موصوف شیخ رشید احمد کے اپنے فائدے کے لئے نہ تھا بلکہ ہمیں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ یہ منصوبہ خالصتاً راولپنڈی کے شہریوں کی ضرورت تھا ۔ اس لئے اسے ہر حال میں پایہ ء تکمیل تک پہچانا چاہئے تھا ۔ لیکن یہ عوامی منصوبہ بھی سیاسی مخالفت کی بھینٹ چڑھ گیا ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف’’ میٹرو منصوبے ‘‘کی تکمیل کے بعد راولپنڈی شہر میں ٹریفک کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرنے کیلئے تمام کراسنگز کو ’’سگنل فری‘‘ بنانے کے ساتھ ساتھ شہر کے گنجان بازاروں کومستقبل کی ضروریات کے مطابق کشادہ کرانے کیلئے بھی اقدامات اٹھائیں ۔کیونکہ شہر بھر میں تنگ بازاروں اور بے ہنگم ٹریفک کے عذاب نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا کر رکھ دیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ سیاسی مخالفت کو پس پشت ڈال کر ’’نالہ لئی ایکسپریس وے ‘‘ کی تعمیر کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں ۔حالیہ چند برسوں میں دیگر شہروں سے آنے والے لوگوں کی وجہ سے راولپنڈی شہرمیں آبادی کا دباؤمسلسل بڑھ رہا ہے ۔مستقبل قریب میں یہی صورتحال رہی تو لوگوں کیلئے سڑکوں پر گاڑی کو رواں دواں رکھنا تو ایک طرف، پیدل چلنا بھی محال ہوگا ۔اس لئے حکومت کو ان مسائل پر توجہ دینا ہو گی ۔
syed arif saeed bukhari
About the Author: syed arif saeed bukhari Read More Articles by syed arif saeed bukhari: 126 Articles with 130327 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.