صحافیوں اور وکلاء پر تشدد
(Sami Ullah Malik, Mianwali)
ویسے تو بدقسمتی سے لفظ
’’سانحہ ‘‘لکھتے لکھتے انگلیاں شل ‘الفاظ بانجھ اورآنکھیں خشک ہوگئیں
ہیں‘لیکن شاید نہ ہماری ریت بدلی ہے ‘نہ امراء و سرکاری رکھوالوں کی۔پیرکے
روز ڈسکہ میں جس قدرپولیس گردی کا مظاہرہ ہوایہ کسی اخلاقی سانحہ سے کم
نہیں ۔تجاوازات کے خلاف آپریشن میں پولیس والوں اوروکلاء کے درمیان تلخ
کلامی ہوئی‘ایک ذرائع کی خبر کے مطابق مقتول وکیل کی جانب سے غیراخلاقی
الفاظ کااستعمال ہوا‘پریشردینے کی کوشش کی گئی ‘مگر کیاجس کے ہاتھ میں
قانون کی رکھوالی کرنے کیلئے ریاست نے ہتھیاردیئے ہیں وہ اس قدر بے حوصلہ
بشرہے کہ اپنے مرتبے ‘فرض اوراخلاقیات وقانون کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اتنابے
قابوہوگیاکہ دووکلاء کی جان لی اوردوراہ گیر اسکے اس جذباتی اقدام سے
شدیدزخمی ہوگئے۔
حیرت ہے اس ملک کی انتظامیہ پر جس نے جذبات کے اندرپیچ وخم کھانے والے شخص
کواتنااہم منصب سونپ دیا۔ایک قومی اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ
’’موصوف کے تشددسے پہلے بھی ایک حوالاتی جاں بحق ہوچکاہے‘جس کے بعد موصوف
باہرکے ملک فرارہوئے‘سپریم کورٹ کے حکم پر گرفتارہوئے اورپھرمدعی پر دباؤ
ڈال کرصلح کروالی ‘‘۔ جوکہ اس ملک کے جابروں کا پراناوطیرہ ہے۔سانحہ ماڈل
ٹاؤن میں اٹھارہ افراد کاخون ابھی خشک ہوانہیں اورایک اورسانحہ نے جنم لے
لیا۔ایساکیوں ہے کہ ہم اسی وقت لکھتے ‘پڑھتے اورسوچتے ہیں جب سانحات جنم
لیتے ہیں اوراسکے بعد مظلوموں کاخون وقت کی گرد تلے جم جاتاہے۔مسئلہ یہ ہے
کہ ہم لکھاریوں‘امراء‘سرکاری افسران سب ڈنگ ٹپاؤ پالیسی پرعمل پیراہیں ۔اتنے
سانحات کے باوجود پولیس کی اخلاقی تربیت کاکوئی مستقل بندوبست نہیں کیاگیا۔
دوسری جانب اس سانحہ کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے وکلاء جو کہ ایک پڑھی لکھی
اورقانون کی سوجھ بوجھ رکھنے والی اوراسکی ایمپلیمنٹ کاانداز سمجھانے والی
کمیونٹی ہے ‘اسکی جانب سے جلاؤ گھیراؤ‘توڑپھوڑ کے واقعات اس بات کی غمازی
کرتے ہیں کہ وہ تہذیب سے دانستہ دورہوتے جارہے ہیں۔ڈی ایس پی آفس‘ٹی ایم اے
آفس اوراے سی آفس کو وکلاء کی جانب سے آگ لگادی گئی۔وکلاء اورانکے حمایتی
افراد نے ڈسکہ شہرکی اہم شاہراؤں کو ٹائرجلاکرایسے بلاک کردیاجیسے یہ’’
بناناریپبلک‘‘ ہو۔کیاقانون کے رکھوالے قانون شکنی کا جواب قانون شکنی سے ہی
دیں گے ؟لیکن اس سارے عمل میں ایک بات جو ہماری ناقص عقل میں آتی ہے وہ یہ
ہے کہ وکلاء اس ملک کی نچلی عدالتی صلاحیت اسکے کام کرنے کے انداز‘پولیس کے
پینترے اورسیاسی مداخلت کا روزانہ کی بنیاد پر مشاہدہ ومطالعہ کرتے ہیں
‘کہیں ایساتونہیں کہ وہ سمجھتے ہوں کہ جب تک اس ملک میں شوروواویلا نہ
مچایاجاتے کوئی ایکشن نہیں ہوتا‘کوئی ڈس مس نہیں ہوتا۔ اس سارے عمل میں ایک
اوربات بھی قابل غور ہے کہ وکلاء کے سامنے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے
کہ معاملات جیسے بھی ہوں پولیس والے اپنے ساتھیوں کو بچالیتے ہیں ۔گو کہ اس
ساری بات سے وکلاء کہ غیرقانونی اقدام کو قانونی حیثیت تو حاصل نہیں ہو
جاتی مگریہ بات ضرورسامنے آتی ہے کہ ملک کی باگ ڈورسنبھالنے والوں سے مایوس
ہوکر ہی متاثرین قانون کواپنے ہاتھ میں لیتے ہیں ۔جہاں قانون کو توڑنے
کاعمل قابلِ مذمت ہے وہیں قانون کو کمزوراورحیلہ جوئی کے عادی اوربے ہوش
سیاستدانوں کا عمل بھی اتناہی قابل ِ گرفت ہے۔ان سے تو بہتر اشوک اعظم تھا
کہ جس شہر میں قانون کی پامالی ہوتی اسکامنتظم سے چند دن میں حل تلاش
کروالیتاکیونکہ دوسری صورت میں منتظم صاحب جیل کی ہواکھاتے یعنی جیل میں ہی
رہتے تھے۔یہ غالبا قبل مسیح کا حاکم تھا اورآج اکسویں صدی میں برصغیرکے
دونوں ممالک اس جیسی انتظامی صلاحیت سے محروم ہیں۔
دوسری جانب ہفتہ کے روزبھی پولیس کی جانب سے اختیارات سے تجاوز کی ایک نئی
مثال قائم کی گئی۔اس واقعہ میں پاکستان پیپلز پارٹی کے باغی رہنماء اورسابق
وزیرداخلہ سندھ ذوالفقارمرزاکی سندھ ہائی کورٹ میں پیشی کے موقع پر قانون
کے رکھوالوں نے اخلاقی حدودکوپامال کرتے ہوئے صحافی برادری کے نہتے افراد
پر ڈنڈے برسائے ۔جس میں پولیس افسرکی جانب سے یہ موء قف اختیار کیاگیاکہ
ہمیں حکم ملاتھاکہ سابق وزیرداخلہ کو ہرحال میں گرفتارکرکے لاناہے ۔اس لیئے
ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ صحافیوں کو کوریج سے روک دیاجائے۔ صدمعذرت کیساتھ
اسکے اوربھی بہت سے مہذب طریقے تھے ‘آخر سب اپنی اپنی طاقت کا غیرقانونی
استعمال کرکے دوسروں کی عزت سے کیوں کھیلتے ہیں ۔یہاں یہ بات قابلِ غورہے
کہ اگروکلاء پر پولیس کی جارحیت کی وجہ انکی دھمکیاں یا غیراخلاقی گفتگوبنی
تو یہاں تو ایسی کوئی بات ابتک سامنے نہیں آئی ۔اگردونوں واقعات کوسامنے
رکھاجائے تویہ بات باآسانی سمجھ آتی ہے کہ پولیس کی تربیت کافقدان ‘ان میں
حوصلہ کی کمی ‘اورقانون کی حفاظت کیلئے قانون توڑنے کاعمل ان میں زور پکڑ
رہا ہے۔ارباب اختیار کوچاہیئے کہ ان اداروں میں سیاسی مداخلت بندکرتے ہوئے
‘باحوصلہ اورفہم وفراست والے افراد منتخب کریں ‘خصوصا اہم پوسٹوں پر جذبات
سے مغلوب ہونے والے افسران کو ہرگزنہ لگایاجائے۔اوروکلاء کو بھی چاہیئے کہ
صبرکے دامن کوہاتھ سے نہ جانے دیں اورپرامن شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے
قانونی راستہ اختیارکریں ۔کیونکہ قوم کسی کے بھی غیرقانونی اقدام کی حمایت
نہیں کرسکتی ۔
|
|