پولیس گردی یا وکلاء گردی!!

پنجاب پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ بتاتے ہو اسینہ چوڑا ہو جاتا ہے کہ پنجاب پولیس دنیا کی دوسری بڑی پولیس ہے مگر پنجاب پولیس کی کرتوتوں کو؂جب دیکھتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔پنجاب پولیس کے جوان ہٹے کٹے طاقت ور اور مضبوط جوان ہیں ٹریننگ نے اُنکو فولاد سے مضبوط بنا رکھا ہے مگر ان ہٹے کٹے جوانوں میں عقل کی کمی ہے ! ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ میں افسوسناک واقعہ پیش آیا جہاں پر احتجاج کرتے ہوئے وکلاء پر فائرنگ کر دی گئی جسکے نتیجے میں ڈسکہ بار کے صدر رانا خالد عباس، عرفان چوہان جاں بحق ہوگئے جبکہ ایڈوکیٹ زیب چوہدری اور راہگیر عباس مسیح زخمی ہوگئے۔ فائرنگ ایس ایچ اوتھانہ سٹی ڈسکہ شہزادوڑائچ نے کی ۔ یہاں پر ایک اور بات قابل غو ر ہے کہ ایسی کیا بات صدر ڈسکہ بار نے کر دی تھی کہ ایس ایچ او صاحب طیش میں آگئے اور انہوں نے فایرنگ کر دی ؟ضرور وکلاء کی جانب سے کوئی غیر اخلاقی بات،گالم گلوچ ہوا اہو گا اور پھر فائرنگ ۔ لیکن ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ ایس ایچ او شہزاد وڑائچ تھوڑی گرم طبیعت کے حامل ہیں 30جون2006کو انہوں نے ایک مجرم پر تشدد کیا اور تشدد کے باعث حوالاتی ہلاک ہو گیا ۔ اس کارنامے کے بعد شہزاد وڑایچ دبئی فرارہو گئے۔سپریم کورٹ نے حکم جاری کیا کہ ملزم کو گرفتار کیاجائے اسکے بعد عزت ماب ایس ایچ اوشہزاد صاحب گرفتار ہوئے اور پھر مدعی پاڑٹی پر ڈباؤ ڈال کر صلح کرلی گئی اور ایس ایچ او شہزاد وڑایچ دوبارہ بحال ہوگئے اور اب کی بار انہوں نے وکلاء برادری کو اپنی پولیس گردی کا نشانہ بنا یا۔اتنی بھی کیا گرم مزاجی کے سولہویں گریڈ کا افسر بلا سوچے سمجھے موقعہ پر ہی خود فیصلہ کرتے ہوئے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے ۔ بار صدر کے قتل کی خبرجنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر پورے ملک میں ترت ہی ہنگامے اور عدالتی امور کا بائیکاٹ اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہو گیا۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ہم لوگ حد سے زیادہ ہی مشتعل اور جذباتی ہو جاتے ہیں اور اسکالرز لکھتے ہیں کہ جہاں پر عقل کی بجائے جذبات ہوتے ہیں وہاں جہالت ہوتی ہے ! اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پولیس نے جو بھی کیا غلط کیا ۔وکلاء کی جانب سے جب شدید احتجاج دیکھنے کو ملا جس میں وکلاء اور عام شہریوں کی جانب سے اسٹنٹ کمشنر ذوالفقار بھُون کے گھر کو آگ لگا دی گئی اور انہوں نے اپنے اہل خانہ کے ہمراہ بھاگ کر جان بچائی ۔ تھانے پر حملہ کیا گیا اہم سرکاری ریکارڈ کو جلا دیا گیا جب صورتحال مزید تشویشناک ہوتی گئی تو تب شہزادوڑایچ کو گرفتار کیا گیا اور سیالکوٹ کینٹ تھانہ منتقل کر دیا گیا۔وکلاء براداری سے مسلسل پرُامن رہنے کے بیانات سامنے آتے رہے مگر وہ ایسے پرُامن رہے کہ پوچھیں ہی نہ ! لاہور میں مال روڈ بلاک کر دیا پنجاب اسمبلی میں لگے شامیانے جلا ڈالے اور پنجاب اسمبلی کے گیٹ کو بھی آگ لگا دگئی۔ ایلیٹ فورس کی گاڑی کا گھیراؤ کیا اور دھکم پیل کر کے گاڑی کو الٹا کر کے اس پر اینٹیں برسا دیں۔پورے پاکستان میں احتجاج کی کال دیدی گئی اور ہر جگہ وکلاء نے توڑپھوڑ کیا۔گوجرانوالہ میں وکلاء نے ڈی سی او آفس کا گھیراؤ کیا پہلے پتھراؤ کرتے رہے اُسکے بعد جب غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو بھاری گیٹ تو ڑکر اندر گھس گئے سیالکوٹ میں بھی وکلا ء نے خوب وکلاء گردی کی وہاں پر بھی ڈی پی او آفس پر پتھراؤ کیا گیا اور سیالکوٹ بار نے خواجہ آصف کی بار رکنیت بھی منسوخ کر دی اورساتھ ہی ڈی سی او اور ڈی پی او کو برطرف کرنے کامطالبہ بھی کر ڈالا۔مظفر گڑھ میں بھی ڈی پی او آفس پر حملہ کیا گیا ور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ایس ایچ او شہزاد کی غلطی سے جہاں دو قیمتی جانیں چلی گئی اور 2زخمی ہوئے وہاں پورے ملک میں کالی وردی والوں نے بھی سرکاری املاک کو نقصان پہنچا کر قانون کی دھجیاں بکھیر دیں۔ پولیس اہلکار وکلاء گردی سے اسقدر بوکھلاہٹ کا شکار تھے کہ لاہور کی اہم شارع مال روڈ، پنجاب اسمبلی جہاں پر پولیس اہلکاروں کی کثیر تعداد ہوتی ہے نظرنہیں آئی اور نہ ہی ٹریفک وارڈن ڈیوٹی پر مامور تھے جسکے باعث ٹریفک کی لمبی قطاریں تا حد نگاہ تھیں۔پولیس نے جو کیا سو کیا وکلاء نے جو پورے پنجاب کی صورتحال کشیدہ کر کے رکھ دی اور پھر امن اومان کو قائم رکھنے کے لیے ڈسکہ گوجرانوالہ اور لاہور میں رینجرز طلب کی گئی تاکہ حالات مزید سنگین نہ ہو جائیں۔وکلاء برادری اور خصوصا بڑے بھائی ایڈووکیٹ سلمان طاہر رندھاوا سے معذرت کے ساتھ ،لارڈہیلی فیکس کہتے ہیں کہ اگر قانون کی زبان ہوتی تو وہ سب سے پہلے قانون دانوں کی شکایت کرتا! پنجاب پولیس کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں جہاں انہوں نے بے قصوروں کو موت کی نیند سلا دیا ہو۔سانحہ ماڈل ٹاؤن اس کی تازہ مثال ہے جس میں14لوگ شہید اور 8درجن لوگ زخمی کر دیئے گئے، تو کبھی نا بینا افراد پر اندھا دھند لا ٹھیاں برسائی جاتی ہیں مگر وہ غریب اندھے جان کی امان پانے کے لیے بھاگ بھی نہیں سکتے مگر پنجاب پولیس کے گلو بٹوں کو ایسا لاٹھی چارج کرتے شرم نہیں آئی! دنیا کی دوسری بڑی پنجاب پولیس ہمیشہ جائے وقوعہ پر تب ہی پہنچی ہے جب وردات ہوجاتی ہے اور جانیں چلی جاتی ہیں اربوں روپے کا فنڈ اس محکمے کے لیے ہے مگر کارکردگی زیرہ سے بھی نیچے ہے! ارباب اختیار سے گزارش ہے کہ محکمہ پنجاب پولیس کو "نتھ"ڈالی جائے۔ یہ عوامی محافظ ہیں یا جلاد جب جی چاہاقانون کو ہاتھ میں لیتے ہوئے معصوم شہریوں کو موت بانٹنا شروع کردیتے ہیں ۔ وزیر اعلیٰ شہباز نے نوٹس لے لیا ہے اور حسب روایات کمیٹی بھی تشکیل دی ہے مگر کمیٹیاں تو اس مسئلے کا حل نہیں ہیں وزیر اعلی صاحب!آپ نے حال ہی میں ایک پاسنگ آوٹ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ میں تھانہ کلچر تبدیل کر دوں گا واقعی تھانہ کلچر تبدیل ہو چکا ہے!ضرور ت اس امر کی ہے کہ دوران ٹریننگ ایسی کتابیں پولیس نصاب میں پڑھائی جائیں جو پولیس اہلکاروں کی ذہنی تنگ دستی کو وسعت دیں اور مشکل سے مشکل حالات میں صبروتحمل کے ساتھ مظاہرین کو منتشر کرنے کے گرُ سکھائے جائیں۔مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسوگیس اور فائرنگ کی بجائے موب کینن(واٹر ٹینکر) استعمال میں لائے جائیں۔اور سب سے بڑھ کر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے اور غریبوں مظلوموں کو اُنکا حق دیا جائے نہیں تو اُنکی تلواریں بلند ہونگی۔
Zaid Imran
About the Author: Zaid Imran Read More Articles by Zaid Imran: 12 Articles with 9101 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.