ایگزیکٹ کیا۔ کیوں اور کیسے؟

ایگزیکٹ جعلی ڈگریاں بنانے والا ادارہ کیا ہے اور کیسے وجود میں آیا اور ہمارے مرکزی حکمرانوں کے سابق دارالخلافہ کراچی میں کیسے قائم ہو گیا اس پر کوئی دو رائے نہیں ۔اگر کوئی دلیر ، باکردار قیادت آکر ایمان داری سے یہ تحقیق کرے تو ہزار فیصد یہی نتیجہ نکلے گا کہ یہ سب کچھ سابقہ اور موجودہ حکمرانوں نے خود ہی کروارکھاتھا۔جعلی ڈگریاں کروڑوں روپے میں پوری دنیا میں بک رہی ہوں اور ہمارے متعلقہ وزراء اور اصل حکمرانوں اور لوکل بر سر اقتدار ٹولے کو اس میں سے حصہ نہ مل رہا ہوگایہ بات ہمارے ملک میں سوچنا بھی گناہ ِعظیم سمجھیں اور یہ بات بھی واضح کرتا ہوں کہ یہ جعلی ڈگریاں حکمرانوں کی اولادوں ، رشتہ داروں دوست احباب میں ریوڑیوں کی طرح بانٹی گئی ہوں گی۔اور انھیں بیرون ممالک میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات کیا ہوگایا کروایا گیا ہوگا۔اس میں بھی کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی کہ اس ادارہ کااصل سیاسی اقتداری قوتوں کو پتا نہ تھااور وزارء یا متعلقہ ایم این اے و ایم پی ایز اس سے لاعلم تھے ۔یہ اس دور کا سب سے بڑا جھوٹ ہے جؤا ، چوری ،ڈکیتی ، منشیات فروشی،اغوا برائے تاوان ،بھتہ خوری ہو ہی نہیں سکتی جب تک علاقہ کے تھانیدار کا ان کاروباری منافعوں میں برابر کا حصہ نہ ہو۔ ہر جواری ،چور ،ڈاکو بھتہ خور پہلے متعلقہ پولیس میں تعلقات ڈھونڈتا یا بناتا ہے۔ جب اس کی لائن جڑ جاتی ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو ہر طرف سے محفوظ سمجھ کروارداتیں شروع کردیتا ہے۔ اس کمپنی کا کراچی میں ہیڈ آفس بناناہی اس وجہ سے تھاکہ وہاں کے بھتہ خوروں کواچھا مال لگا کروہ جعلی کاروبارمسلسل جاری رکھ سکتے تھے اور جہاں کوئی بڑ ادوست یا رشتہ دار ایس ایچ او ہوگاتو پھر دو نمبر ادویات تیار ہوں گی۔ منشیات کا وسیع کاروبار ہو گا۔آن لائن جعلی ڈگریوں کی بندر بانٹ لاکھوں ڈالروں کے عوض عرصہ دراز سے جاری تھی۔اس میں ہمارے نامور ، مقتدر اور مفاد پرست سیاستدانوں ،سود خور سرمایہ داروں اور ناجائز منافع خور صنعتکاروں نے خوب ہاتھ رنگے ہوں گے۔اس بدنام زمانہ کاروبار کے چئیر مین شعیب شیخ اور جعل سازی و دھو کا دہی کے مجرمان ڈائریکٹرزوغیر ہ سبھی تو گرفتار ہو چکے ہیں متعلقہ وزراء،حصہ بقدر جسہ لینے والے حصہ دار افسران کو کون گرفتار کرے گا ؟بلکہ ان میں سے اکثر اس پکڑی گئی موٹی مچھلی سے مال اِدھراُدھر کر رہے ہوں گے۔اور صحافی حضرات جو معاشرے کی آنکھ کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور حکومت کا چوتھا پایہ سمجھے جاتے ہیں۔وہ بھی تواس جعلی کمپنی کے چنگل میں پھنس کرکروڑ روپے تک تنخواہیں ماہانہ وصول کر رہے تھے کہ ابھی وہ مخصوص "بول" تو اپنی بولی بولنا شروع ہی نہیں ہواتھا ۔اینکر و بڑے صحافی ایک ادارہ سے بڑے ادارہ میں پیسہ کی چمک کی وجہ سے ہی بھاگے چلے جاتے ہیں ۔حالانکہ شورش کشمیری نے کہا تھا "کہ قلم کابکنا ماں کے بکنے کے مترادف ہے" جعلی ڈگریاں تیار کرنے والی کمپنی کے سرغنہ نے پہلے ہی روز متعلقہ اعلیٰ عدالت سے حفاظتی ضمانت بھاری فیسیں ادا کرکے کروالی تھی۔اب بھی چوکوں،کیفوں ،قہوہ خانوں میں لوگ یہی کہہ رہے ہیں کہ ان مجرموں کو پکڑناکوئی ڈرامہ لگتا ہے ۔ملک ریاض جیسی مؤثر شخصیت ان کی ضمانتیں حتیٰ کہ رہائیاں کروانے کے لیے میدان عمل میں ضرور آجائے گی اور پھر زرداری صاحب بھی ترپ کا پتہ ثابت ہوں گے۔کسی چوک ،چوراہے ،گلی کوچوں میں پہنچ کر ان مجرمان کے بارے میں بات کی جائے توسبھی یہی کہیں گے کہ یہ لوگ"بھاری فیسیں" ادا کرکے بیرون ملک فرار ہونے میں ہر صورت کامیاب ہو جائیں گے۔کہ انتظامیہ اور حکمرانوں کی نااہلیوں اور کرپشن سے ملک کی حالت"اس بازار "کی طرح ہو چکی ہے جہاں پر مال لگانے سے ہی گھنگروں چھنکتے اور جس کا مال ختم وہ چوبارے کی سیڑھیاں اتررہا ہوتا ہے اور دوسرامال داراوپر چڑھ رہا ہوتاہے مال لگتا رہے توراتیں جاگتی ہیں ۔لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ ہماری اہم ایجنسیاں کیوں سوئی پڑی رہتی ہیں کہ انھیں اسامہ بن لادن کی موجودگی کا بھی پتہ نہیں چلتا، سرحدوں میں گھس کرسامراجی غنڈے اسے ہلاک کرکے لے جائیں تو بھی ہم چپ کا روزہ رکھ لیتے ہیں اور کسی تہہ خانے میں نہیں بلکہ سب سے بڑے شہرمیں اعلیٰ بلڈنگ بنا کرجعلی ڈگریاں پوری دنیامیں فروخت ہوتی رہیں ہمیں پتہ نہیں چلا ایسا ضرور ہوا ہوگامگرمیں نہ مانوں اور نہ ہی عوام اس مفروضے کو مانتے ہیں ۔بس سبھی یہی کہے جارہے ہیں کہ راجکماری اسی کی ہو گی جو مال ودولت اور طاقت کا مظاہرہ کرے گا۔نیویارک ٹائمز کو سب پتا چل گیا ہے اور ہمیں کانوں کان خبر نہ ہوسکی اصل میں ہمارے کان تو کام کرتے ہیں مگر مال حرام سبھی راستوں سے اندر تک گُھسا ہوتا ہے اس لیے ادھر سے در گذ رکرڈالنااور توجہ ہی نہ کرنا ہمارا خصوصی قومی و طیرہ بن چکا ہے۔اس سکینڈل میں فرانزک رپورٹ تک مل چکی ہے اپنا پرنٹنگ پریس بھی لگا ہوا تھا۔بیسیوں بنکوں میں جعلی ناموں سے اکاؤنٹس بھی پکڑے جاچکے ہیں منی لانڈرنگ ثابت ہو چکی لاکھوں ڈگریاں تیارپکڑی جاچکی ہیں مگر اب بھی بھاری فیسیں یہی بولی بولیں گی اوربحث کریں گی کہ یہ سارا ملبہ ان پر خواہ مخواہ ڈالاگیا ہے۔جیسے کہ ایم کیو ایم نے نائن زیروسے بھاری اسلحہ برآمدگی پر کہا تھا ۔دہشت گردی کے اصل موجد ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے اقتدارکے دو ران اس کے مشیر ،وزیر اور ہم پیالہ و ہم نوالہ افراد جعلی ڈگریاں رکھتے ہوئے وزارتوں ، سفارتوں کے مزے لوٹتے رہے اور سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی عدالتیں اور الیکشن ٹربیونل ان کاکچھ نہ بگاڑ سکے کہ ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا ہے۔تو اب ان ایک لاکھ ڈالرروزانہ کی خصوصی کمائی کرنے والوں کاکوئی کیسے کچھ بگاڑ سکتا ہے بہر حال یہ ٹیسٹ کیس بن چکا ہے۔حکمرانوں نے اس مال کماؤ شیخ پتر کوبچانے کی کوشش کی تو یا د رکھوکہ عوامی غیض و غضب ان کی پہلے سے ڈانوں ڈول اقتداری کشتی میں ایسا سوراخ کریں گے جو اسے ڈوبنے سے نہ بچا سکے گا۔بہر حال عوام کو اس جعلی ڈگری سکینڈل سازوں کی گرفتاریوں پرشدید افسوس ہے کہ کراچی میں20سال سے اقتدار پر قابض اور ان کے حواریوں کی بھتہ دینے والی ایک بڑی آسامی کم ہوگئی ہے۔
Dr Ihsan Bari
About the Author: Dr Ihsan Bari Read More Articles by Dr Ihsan Bari: 22 Articles with 18052 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.