آپ کا خوف یا جبلی بے حیائی؟

 ایک سال قبل 26مئی کو بھارت کی مرکزی سرکار سنبھالنے والی بی جے پی ہمہ وقت پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کاطوفانِ بدتمیزی کھڑاکیئے رکھتی ہے۔ایک سال مکمل ہونے پر مرکزی سرکار کے بیس وزراء کے خلاف مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں۔جن میں سے سترہ پرقتل‘فرقہ واریت جیسے سنگین الزامات ہیں۔ایک وقت تھاکہ جب بی جے پی نے اپوزیشن میں رہتے ہوئے رام ولاس پاسوان کے بنگلہ دیشیوں کو شہریت دینے کے معاملے پر ہرزہ سرائی کی تھی ‘اوراب وہ ان کی حکومت میں وزیر ہیں۔کانگریس نے درست تجزیہ کیا کہ ’’مودی سرکارکاایک سال دیش بدحال‘‘۔

گزشتہ روز بھارتی مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے پھر توہین آمیز اورمتعصب الفاظ کے استعمال سے کشمیری عوام کے دلوں پر چوٹ لگاتے ہوئے کہا کہ ’’پاکستان زندہ بادکانعرہ غیراسلامی ‘‘ہے۔درحقیقت یہ اس بات کی عکاسی ہے کہ بھارتی سرکار پاکستان پر کسی بھی طرح کی ضرب لگانے کاموقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اورایساالیکشن میں تو اس لیئے ہوتاہے کہ ووٹ کھرے کیئے جائیں لیکن الیکشن کے بعد اس لیئے ہوتاہے کہ اپنے کالے کرتوت اورنااہلی کوچھپاکربھارتی عوام کے جذبات سے کھیلاجائے۔بھارتی حکومت کے اسی رویہ کی وجہ سے وزیراعظم پاکستان کے مشیر برائے خارجہ امور طارق فاطمی کو کہناپڑاکہ بھارتی ریاست کی خارجہ پالیسی کامحور پاکستان دشمن رویہ وسوچ کی عکاسی کرتاہے۔حق تو یہ تھا کہ مودی کی تقریب حلف برداری میں شمولیت کے بعد بھارتی سرکار اسے مضبوط بنیاد بناتے ہوئے اپنی عوام کے دل میں سے نفرت کے کانٹے اکھاڑتی لیکن اس نے تو زہر اگلنے والی نئی فصل کی تیاری کا کام شروع کررکھاہے۔وزیراعظم پاکستان کے اس دورے پر ہی چند واقفانِ حال نے کہہ دیا تھا کہ اب بھارت سرچڑھ جائے گا۔

اس صورتحال کو سمجھنے کیلئے بھارت کی اندرونی کیفیات کامطالعہ بھی ضروری ہے۔نئی دہلی میں بی جے پی سرکار اے اے پی سے منہ کی کھاکراب اوچھے ہتھکنڈوں پر اترآئی ہے۔بی جے پی جسے پہلے ہی سخت گیر تنظیموں کی درپردہ حمایت حاصل ہے یاایسے کہیں کہ یہ ان کا سیاسی ونگ ہے تو کچھ زیادہ غلط نہیں ہوگا۔نئی دہلی میں بھارتی مرکزی سرکار نے ایم ایچ ایزنوٹیفیکیشن کے تحت بہت سارے اضافی اختیارات لیفٹیننت گورنرکوسونپ دیئے ہیں جس کاواضح مقصد عام آدمی پارٹی کے اختیارات پر کاری ضرب لگاناہے۔اس بات پر شدید رد عمل کا اظہارکرتے ہوئے دہلی کے ڈپٹی چیف منسٹر منیش سسوڈیانے اسے 125برس قبل انگریز کی دورغلامی سے بھی بدترقراردیاہے۔انہوں نے کہا کہ وہ اقتدار میں آنے سے پہلے جانتے تھے کہ پبلک آرڈر ‘پولیس اورلینڈکے مسائل ان کے دائرہ اختیارمیں نہیں لیکن باقی تمام معاملات دہلی اسمبلی ہی کے ماتحت آتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ’’ یہ دہلی پر صدارتی راج نافذکرنے اورآئین کی توہین کے مترادف ہے‘درحقیقت سرکارہمارے سودن کے کام سے خوفزدہ ہے اوردہلی میں پہلاایساوزیراعلی آیاہے جو کسی بھی محکمے میں کرپشن برداشت نہیں کرتا‘‘۔دہلی سرکارنے اسمبلی میں اس ’’غیرقانونی ‘‘اقدام کے خلاف قرارداد بھی پاس کی اورعام آدمی پارٹی کے وزیراعلی اروندکجریوال نے کہاکہ یہ اقدام ملک کو ڈکٹیٹرشپ کی جانب دھکیلنے کے مترادف ہے۔

اس حقیقت سے توانکارممکن نہیں کہ بھارتی سیاست دان اپنی سیاسی بنیادپاکستان دشمنی پررکھتے آئے ہیں لیکن الیکشن کے بعد اس صورتحال کو تبدیل کردیناہی عقل کے زیادہ قریب ہے۔قومیں بلاجوازتعصب اورانتہاپسندی کے قعرِ مذلت میں گرکرکبھی ترقی نہیں کرسکتیں۔بھارتی مرکزی سرکار چونکہ اپنے کسی انتخابی نعرے کو عملی جامہ نہیں پہناسکی اسلیئے وہ پاکستان کے خلاف بیانات دے کر اورسرحدی خلاف ورزیاں کرکے عوام کارخ موڑناچاہتی ہے۔نریندرمودی صاحب نے سودن میں کالادھن لانے کا وعدہ کیا جو خواب ثابت ہوا‘جس پر پارٹی کے صدر امیت شاہ نے کہا کہ یہ ایک انتخابی نعرہ تھا ایسا حقیقت میں کرناممکن ہی نہیں ۔دوم ۔کسانوں کی پیداوار قیمتوں میں پچاس فیصد اضافہ کرنے کا وعدہ کیا گیا جوابھی تک ہوا میں ہی لٹکاہواہے اورحدتویہ ہے کہ ایک وزیر نے کسانوں کو ’’کائر‘‘قراردے دیا۔رندیپ سرجیولااس لیئے کہتے ہیں کہ مودی سرکارنے پوراسال اشتہاری مہم چلائی اورساراسال دیش والوں سے جھوٹ بولتے رہے۔

پاکستان پر ہرزہ سرائی کی ایک اوربنیادی وجہ مسئلہ کشمیر ہے‘جسے اپنانے کیلئے آٹھ لاکھ کے قریب بھارتی فوجی ایک چھوٹی سی وادی میں دندناتے پھرتے ہیں ۔مفتی محمود کے ذریعے بی جے پی پہلی بارریاست میں شریکِ اقتدارہوچکی ہے‘370دفعہ کو تبدیل کرنے کیلئے پرتول رہی ہے جو انشااﷲ کبھی نہیں ہو گا۔مسئلہ کشمیر پر پاکستان اورکشمیری رہنماؤں سے 125سے زائدبارگفتگوکے دورچلنے کے باوجود بھارتی سوئی ایک بے بنیاد ڈھکوسلے کے گرد گھومتی نظرآتی ہے۔پچھلے سال اگست میں ممکنہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات کو بھارت نے یہ کہہ کر مستردکردیاکہ پاکستانی ہائی کمشنران کی اجازت کے بغیر کشمیری رہنماؤں سے کیوں ملے ہیں ۔اسی سال جب بھارتی سیکرٹری خارجہ اپنے معمول کے سارک دورے کے تحت پاکستان آئے توکچھ دورکی کوڑی لانے والے لکھ رہے تھے کہ اب یہ ہوجائے گا‘وہ ہوجائے گا‘بھارت بازی لے گیا‘بھارت پاکستان کے ساتھ چلناچاہتاہے ۔اب انھیں چاہیئے کہ لکھیں کہ بھارت کے وزیرداخلہ پاکستان کے خلاف دہشت گرد تنظیموں کواستعمال کرنے کی بات کرکے بین الاقوامی قانون کی دھجیاں اُڑارہے ہیں۔لکھیں کہ بھارت اندرونی سیاسی خوف کے ساتھ ساتھ جبلی بے حیائی پر اترکراپنی عوام کو دشمنی برائے دشمنی کے خطرناک آتشی کھیل میں دھکیل رہاہے۔ناچیزنے تواس وقت بھی ناقص عقل کے تحت عرض کی تھی کہ یہ معمول کادورہ ہے اور اس سے نہ ہی کشمیر کامسئلہ حل ہونے کا کوئی خاص چانس ہے اورنہ ہی حالات کی بہتری کی امید۔ہاں ایسا ہونااضرورچاہیئے کہ 67برس سے دشمنی کی پالیسی اپنا کر ہم دونوں نے کیا حاصل کیا؟؟؟اربوں ‘کھربوں کے فولادی اورآتشیں اسلحے کے استعمال سے ہمارے کتنے شہری خوشحال ہوئے؟؟؟‘مگرقارئین دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کیا تالی ایک ہاتھ سے بجتی ہے؟؟؟؟؟
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 188667 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.