مسلم پرسنل لاء بورڈسے صاف صاف باتیں

ملک میں بڑھتے فرقہ پرستی کے رجحان کے پسِ منظرمیں جے پورمیں مسلم پرسنل لاء بورڈکے چوبیسویں اجلاس کاانعقاد۲۱/۲۲مارچ کوہوا۔اب۷جون کواس کی مجلس عاملہ کی میٹنگ ہونے والی ہے۔یہ تحریراسی پس منظرمیں لکھی گئی ہے کہ جے پور اجلاس کاجائزہ لیتے ہوئے اپنے بزرگوں کی خدمت میں چند عرضداشت پیش کی جائیں۔بورڈکے جے پوراجلاس میں ایک بات جوصاف طورپرسامنے آئی ہے وہ یہ کہ بورڈجومتحدہ ملی کازاوراتحادملت کاداعی ہے، اس کی اعلیٰ قیادت کے درمیان افکارمیں فاصلے نظرآتے ہیں۔اوریہ کہنابجاہے کہ بورڈاپنے صحیح منہج اوردرست سمت میں نہیں چل رہاہے۔ایک طرف صدربورڈملک کے موجودہ حالات کوہلکابناکرپیش کررہے ہیں ۔نہ جانے کیوں مرعوبیت کے شکارہیں نیزہاتھ پرہاتھ دھرکرعالمی طاقتوں کے رحم وکرم پرہندوستانی مسلمانوں کو بیٹھ جانے کامشورہ بن السطورمیں بھی دے دیتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ ملک کے حالات کسی سخت اقدام کی اجازت نہیں دیتے ۔یہ سارے حالات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہوجائیں گے ۔

دوسری طرف بورڈکے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری عبدالرحیم قریشی مختلف موقف رکھتے ہیں ۔انہوں نے بہت سخت اندازمیں وارننگ دی ہے کہ بورڈنے اگرابھی حالات کونہیں سمجھااورحکومتی رخ کوپہچاننے میں دیرکی تواس کے پریشان کن نتائج سامنے آئیں گے۔غورکامقام یہ ہے کہ جس بورڈکے اولین معماروں نے حکومت کی آنکھ میں آنکھ ڈال کربات کی تھی اورحکومت کوللکارکراسے اپنے قدموں میں جھکنے پرمجبورکیاتھاکیامسلم پرسنل لاء بورڈآج ان بزرگوں کے منہج پرگامزن ہے؟۔کم ازکم صدربورڈکے خطبہ صدارت کے پڑھنے کے بعدتوایسامحسوس نہیں ہوتاہے۔اس متحدہ پلیٹ فارم کے باحوصلہ بانیان نے ملک وملت میں اس کاوقارواعتباربڑھایااورارباب اقتدارکی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کرباتیں کیں،ان بزرگوں کی اس نازک امانت کوسنبھالنے والوں کایہ رویہ رہاتواس سے ملت کے اعتبارکی عمارت متزلزل ہوگی۔ ذیل کی سطروں میں کاروائی رپورٹ اورخطبہ صدارت کاسرسری جائزہ لیاجاتاہے۔

بورڈکے اس اجلاس میں بیشتراراکین نے ملکی حالات پرسخت تشویش کااظہارکیاجن میں مولاناارشدمدنی ،مولاناخالدرشیدفرنگی محلی،شکیل صمدانی،محمدسلیمان کانپور،سابق ممبرپارلیمنٹ محمدادیب اورڈاکٹرمنظورنے بھی اظہارخیال کیا۔اسسٹنٹ جنرل سکریٹری نے واضح اندازمیں اس کی سنگینی پرروشنی ڈالی۔انہوں نے حالات کی پیچیدگی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں ملک کی تمام اقلیتوں اورمذہبی اکائیوں کواکثریتی تہذیب میں ضم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔اسسٹنٹ جنرل سکریٹری نے تعلیمی ،تاریخی اورعدالتی بھگواکرن کی کوششوں اورآرایس ایس کی گوڈسے نوازی پرتفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے مطالبہ کیاکہ ہم اپنے خول سے باہرنکل کربرادران وطن کابھی ساتھ لیں اورعوامی رائے عامہ بنائیں۔(چوبیسواں اجلاس بورڈکاروائی ،تجاویزاورفیصلے ص۱۶)

دوسری طرف صدرملاحظہ ہوخطبہ کااقتباس ۔’’ہمارے کچھ ملی مسائل ایسے بھی سامنے آتے ہیں کہ ان کی فکراگربروقت نہ کی جائے اوران کے لئے ضروری بندوبست نہ کیاجائے تووقت گذرنے پران کے حل میں بہت دشواری پیداہوتی ہے اس لئے ان کاتقاضہ یہ ہوتاہے کہ مسلمانوں کے اہل بصیرت ان کوبروقت محسوس کریں اوران کاحل نکالیں۔’اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہے کہ کچھ مسائل ایسے بھی ہوتے ہیں جووقتی حالات سے پیداہوتے ہیں اوروقت گذرنے کے ساتھ وہ ختم بھی ہوجاتے ہیں،ان کی حیثیت کااندازہ ہونے پرایسی نظررکھی جائے تاکہ وہ وقت گذرنے پرخودختم ہوجائیں اس لئے حکمت اورحسن بصیرت سے کام لیناہوگاتاکہ ایسانہ ہوکہ وقت کے گذرنے پروہ مسائل اورپیچیدہ ہوجائیں‘‘۔(خطبہ صدارت ص۵)

قربان جایئے صدربورڈکے حکیمانہ مشورہ پر۔اورآگے کی عبارت کوبھی پڑھ جایئے ۔’’ہم کویہ بھی پیش نظررکھناہے کہ ملک کی پالیسی میں کوئی بڑی تبدیلی لانے کے سلسلہ میں کسی بھی اصحاب اقتدارکے پیش نظرمنصوبے جوبھی ہوں،ملک کے متفرق مذاہب اورکلچرکومشترک دائرہ میں رکھتے ہوئے ہی حل کیاجاسکتاہے اور’مزیدیہ کہ وہ بین الاقوامی حالات کے اثرات سے پوری طرح باہرنہیں ہوسکتے‘۔اس صورتحال کوسامنے رکھتے ہوئے بھی ہم کوحالات پرنظررکھناہے اورکسی قابل توجہ مسئلہ کے پیش آنے پرجس اقدام کی ضرورت محسوس ہو،اس کوحکمت عملی اوردوراندیشی کے ساتھ اختیارکرناہے۔(خطبہ صدارت ص۹)

صدرمحترم یہ کہناچاہتے ہیں کہ یہ جوحالات ملک کے ہیں یہ وقتی ہیں اوروقت گذرنے کے ساتھ ساتھ وہ ختم ہوجائیں گے۔کیاصدرمحترم اس حقیقت سے بے خبرہیں کہ اس نئی حکومت میں تعلیمی بھگواکرن سے لے کرعدالتی بھگواکرن تک کی کوشش ہورہی ہے،پورے ملک میں ہندوتواکے نفاذکے ایجنڈے پرعمل ہورہاہے جس کے نتیجہ میں صرف پانچ سال کے اثرات کم ازکم پچاس برسوں تک محسوس کئے جائیں گے ۔جمہوری حکومتوں میں انصاف کی آخری امیدعدالت ہوتی ہے۔جس کا مقننہ اورسیاسی اثرات سے آزادہوناجمہوریت کی بقاکے لئے لازم ہے۔ نئی حکومت نے پرانے کالجیئم سسٹم کوختم کرکے نئے عدالتی تقرری کمیشن کی تشکیل کی ہے۔کیایہ عدالتی بھگواکرن کا پیش خیمہ نہیں ہے ؟۔پھرمایاکوڈنانی،گجرات انکاؤنٹروں کے مجرم اسپیشلسٹ افسران اورسادھوی پرگیہ جیسے لوگوں کی گھرواپسی ہوچکی ہے۔لوجہادکافتنہ تبدیلی مذہب،گائے کے ذبیحہ پرپابندی اورہرروزنت نئے شوشے چھوڑے جارہے ہیں اوران سب سے بڑھ کرنئی حکومت میں فرقہ پرستوں کے حوصلے ساتویں آسمان پرہیں۔ہاںیہ بھی واضح ہے کہ فرقہ پرستی کی جس طرح آگ لگائی جارہی ہے، براہ راست اس میں حکومت کی مرضی شامل ہے۔ورنہ وزیراعظم تواتنے طاقتورہیں کہ ان کی مرضی کے بغیروزیرداخلہ بھی اپنے سکریٹری نہیں رکھ سکتے اورجب پی ایم کوپرنسپل سکریٹری اپنی مرضی کے افسرکوبناناہوتوپارلیمنٹ سے قانون پاس کرادیتے ہیں۔کیااتنے طاقتوروزیراعظم اورحکومت کی پشت پناہی کے بغیرفرقہ پرستی کاملک میں فروغ ہورہاہے؟۔اس کے بعدبھی کیا ہمارے قائدین سمجھتے ہیں کہ ہم ہاتھ پرہاتھ دھرکرقسمت میں لکھے کے انتظارمیں بیٹھ جائیں اوریہ مسائل ازخودحل ہوجائیں گے۔
دلچسپ بات یہ کہ صدربورڈملت کوعزم وحوصلہ سے کام لینے کی تلقین کرتے ہیں اوراپنے اسلاف کی قربانیوں کاحوالہ بھی دیتے ہیں اوردوسری طرف اس خطبہ میں صدربورڈیہ کہناچاہتے ہیں کہ ملک کے جوحالات ہیں ایسے میں کسی سخت اقدام کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک ذمہ دارقائدکی طرف سے ایساطرزعمل یقیناََحوصلہ شکن ہے۔پھرخطبہ میں یہ تضادکیوں؟،صدربورڈکوگول مول بات کرنے کی بجائے واضح اندازمیں موقف پیش کرناچاہئے تاکہ ملت ،بورڈکے منہج کوسمجھ سکے۔انہیں اس کی وضاحت کرنی چاہئے کہ ان دونوں نظریہ میں ان کااپنانظریہ کون ساہے؟۔

آنجناب کادوسراپیراگراف بھی قابل توجہ ہے جس میں گویاوہ کہ یہ کہناچاہتے ہیں کہ بین الاقوامی حالات ایسے نہیں ہیں کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے تشخص اورمسلم پرسنل لاء کوکوئی خطرہ ہو۔عالمی حالات کے پس منظرمیں نئی حکومت کسی بھی طرح کاکوئی غیرجمہوری اقدام نہیں کرے گی۔ ممکن ہے کہ صدرمحترم اوبامہ کے مذہبی روادی والے بیان سے کسی خوش فہمی میں مبتلاہوگئے ہوں حالانکہ اوبامہ کے بیان کاتعلق مسلمانوں سے قطعاََنہیں تھا۔ان کے سارے تحفظات عیسائی کمیونٹی سے متعلق تھے۔

معاف کیجئے گاصدربورڈکایہ مشورہ بزدلی سے عبارت ہے۔کیاصدربورڈبتائیں گے کہ ایک طرف مذہبی آزادی پرحملہ ہوااورہم ملکی اقدارکی بات کہہ کرتسلی کرلیں۔یہ کون سی فراست ہے۔کیایونیفارم سول کوڈکے مسلسل مطالبے مسلم پرسنل لاء کی بقاء کوچیلنج نہیں ہیں۔اورتواوراپنوں میں ایسے مطالبات کرنے والے ’’دانشوروں‘‘کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔پانچ مئی کوایک انگریزی شمارہ کے صحافی اعجازاشرف کوانٹرویوکے دوران قومی اقلیتی کمیشن کے سابق صدرپروفیسرطاہرمحمودنے تین طلاق پرپابندی کی وکالت کرتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈکوختم کرنے کامطالبہ کیا۔انہوں نے اس ضمن میں یہ بھی کہاکہ قانون میں مذہبی آزادی کی کو ئی دفعہ ہے ، آرٹیکل 25 سے آرٹیکل 28 تک میں پرسنل لاء کادوردورتک کو ئی تذکرہ ہے ۔انہوں نے یہ بھی کہاکہ میں چاہتا ہو ں کہ مسلم پرسنل لاء بو رڈکو ختم کردیاجائے۔اس کے ممبران کمیونٹی کونقصان پہنچارہے ہیں ،وہ قوم کویہ سمجھا نے میں کامیا ب ہو گئے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء کامطلب ہے قرآن ۔اور یہ کہ ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے اور دونوں خدائی چیز ہے ۔ تین طلاق کے مسئلہ پربھی انہوں نے اپنی’’ دانشورانہ رائے ‘‘کااظہارکرتے ہوئے یہ کہاکہ اسلام نے تین طلاق کے طریقہ کو متعارف نہیں کرایا ہے۔تین طلاق پر تمام مسلم ممالک میں پابندی عائد ہے ، تو پھر ہندوستان کو اس ’’سا تویں صدی ‘‘کے قانون سے چپکے رہنے کی کیاضرورت ہے ؟۔

حیرت انگیزان دانشورصاحب کابیان نہیں،دانشوروں کواس طرح کے مالی خولیے ہوتے رہتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ جب یہ خبراخبارات میں شائع ہوئی توبورڈکے ذمہ داروں کے کانوں پرجوئیں تک نہیں رینگی اورنہ کسی طرح کاکوئی ردعمل سامنے آیا(سوائے اس کے کہ قاسم رسول الیاس صاحب کا اخباری نمائندہ کے سوال کے ردعمل میں مختصرسابیان اسی خبرکے ساتھ تھا)پورابورڈاپنے وجودکوچیلنج کرنے والے بیان پرخاموش رہا۔یہ توصرف ایک مثال ہوئی بورڈکی غیرسنجیدگی کی۔الیکٹرانک میڈیااورپرنٹ میڈیاسے ان کاکوئی رابطہ نہیں ۔بورڈکے ذمہ داران نہ جانے ابھی اورکس انتظارمیں ہیں۔ایک سال بہت ہوتاہے حکومت کی سمت سمجھنے میں اورحیرت ہے کہ بورڈاب تک اپنی حکمت عملی طے نہیں کرسکاہے۔ ے ادب کے ساتھ بورڈکے ذمہ داروں سے گذارش ہے کہ وہ ملت ہندیہ کی امیدوں کامرکزہیں۔وہ اپنی فکرکویکجہتی سے ہمکنارکریں ورنہ ملی کازکوشدیدنقصان کاخطرہ ہے۔ملت آپ کی طرف امیدبھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ یہ بھی غورکریں کہ امت مسلمہ آپ سے کیاچاہ رہی ہے۔ہمارے رہنماؤں کوکم ازکم گوجروں سے سبق لیناچاہئے جنہیں اس کاتجربہ ہوگیاہے کہ جمہوریت میں زبان گستاخی کی سمجھی جاتی ہے۔قوت فکروعمل پہلے فناہوتی ہے پھرکسی قوم کی شوکت پہ زوال آتاہے۔
Md Sharib Zia Rahmani
About the Author: Md Sharib Zia Rahmani Read More Articles by Md Sharib Zia Rahmani: 43 Articles with 36996 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.