ڈھاکہ میں دہلی کی وائسرائے....حسینہ واجد

بنگلہ دیش کی خونی ڈائن حسینہ واجداپنے بھارتی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے اپنے ہی ملک میں جمہوریت کوختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔جماعت اسلامی کے بزرگ اورنیک سیرت رہنماؤں کوظالمانہ طورپرتختۂ دارپرلٹکانے کاسلسلہ ہنوزجاری ہے ،اس کے علاوہ اپوزیشن کوزچ کرنے کیلئے مذموم حربے استعمال کرتے ہوئے اپنے ملک کے عوام کی اکژیت کو احتجاج کی راہ پرلگاچکی ہے۔سب سے بڑی اپوزیشن جماعت بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی(بی این پی)کی سربراہ خالدہ ضیاء قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کررہی ہیں۔بی این پی نے گزشتہ دنوں منعقدہ بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کااعلان کردیاہے۔پارٹی اوراس کے ہم نواؤں کے مطابق ان انتخابات میں دھاندلی کی جارہی ہے۔ بی این پی کی جانب سے اعلان کیاگیا ہے کہ وہ ملک کے دو بڑے شہروں ڈھاکہ اورچٹاگانگ میں انتخابات میں حصہ نہیں لے گی ۔یہ اعلان بلدیاتی انتخابات کے آغازسے چارگھنٹے بعدہی کردیاگیاتھا۔ بی این پی کامؤقف ہے کہ حکمران جماعت عوامی لیگ ان انتخابات میں وسیع پیمانے پردھاندلی میں مصروف ہے ۔متوازن ومیانہ رو مبصرین کا کہناہے کہ کہ سیاسی طورپرغیرمستحکم اورعدم تحفظ کے شکار ملک میں اپوزیشن کے اس اعلان کے بعد سیاسی مفاہمت کی راہیں اب توبالکل مسدودہوکررہ گئیں ہیں۔ان انتخابات کووزیراعظم حسینہ واجدکی مقبولیت کے ایک امتحان کے طورپربھی دیکھاجارہاہے تاہم بی این پی کے مطابق حکمران جماعت آمرانہ طرزحکومت میں مصروف ہے۔

بنگلہ دیش کے جلاوطن اپوزیشن رہنماء طارق الرحمان نے حسینہ واجدکی حکومت پرریاستی دہشتگردی کاالزام عائد کیاہے۔انہوں نے بنگلہ دیش کے تجارتی پارٹنراوراقوام متحدہ سے ١٦کروڑکی آبادی والے جنوبی ایشیاکے اس ملک میں حقیقی جمہوریت کی بحالی کیلئے دباؤ ڈالنے کامطالبہ کیا۔طارق رحمان نے ان خیالات کااظہارفنانشل ٹائمزسے گفتگوکرتے ہوئے کیا۔گزشتہ ہفتے دارلحکومت ڈھاکہ میں بی این پی کی سربراہ اورطارق رحمان کی والدہ خالدہ ضیاء کے قافلے پرحکمران جماعت عوامی لیگ کے وفادار ڈنڈابردار غنڈوں نے دھاوابول دیاجس کے نتیجے میں ١٥/افرادزخمی ہوگئے جبکہ ٦گاڑیوں کونقصان پہنچا۔ طارق رحمان نے مزیدکہاکہ یہ لوگ ریاستی دہشتگردی کی سرپرستی کر رہے ہیں جس سے ریاستی دہشتگردی کوفروغ مل رہاہے۔واضح رہے کہ طارق رحمان نے برطانیہ میں سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔

انہوں نے بنگلہ دیش کے تجارتی شراکت داروں سے حسینہ واجدپرسفارتی اور معاشی دباؤ ڈالنے کامطالبہ کیا۔ مثلاً پولیس کیلئے امداداورآلات کی برآمد بندکی جائے۔انہوں نے اقوام متحدہ پر زوردیا کہ بین الاقوامی امن آپشنزسے جن میں بنگلہ دیش کانمایاںکردارہے،سیکورٹی فورسز کے بدنام ارکان کے جاری غیرقانونی ظلم وستم کی وجہ سے ان پرپابندی عائد کی جائے۔ طارق رحمان نے انسداددہشتگردی اورجرائم کی خاص یونٹ ریپڈایکشن بٹالین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ ان میں بہت سے لوگ اپنی ہی ملک میں سیاسی کارکنوں کواغواء اورقتل میں ملوث ہیں،یہ دوسرے ملک میں کیاامن قائم کریںگے ۔بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی تنظیم ادھیکارکے مطابق ٢٠٠٩ء سے ریپڈ ایکشن بٹالین اوردیگرگروپس کے ہاتھوں٢٠٠سے زائد افرادلاپتہ ہوچکے ہیں۔بنگلہ دیش ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جس کی ١٩٧١ء میں پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعداب تک تشددکی ایک تاریخ رہی ہے۔حسینہ واجدکے والدشیخ مجیب الرحمان کے قتل کے بعدطارق رحمان کے والد ضیاء الرحمان نے فوجی آمرکے طورپرملک میں حکومت کی لیکن چھ سال بعدانہیں بھی ہلاک کردیاگیا۔

شیخ حسینہ عوامی لیگ کی اورخالدہ ضیاء بی این پی کی سربراہ ہیں ۔دونوں کولڑاکابیگمات کے نام سے پکاراجاتاہے۔ دونوں نے وزیراعظم کی حیثیت سے اقتدارکامزہ چکھاہے لیکن کئی بنگلہ دیشیوں کاکہنا ہے کہ بودی جمہوریت جس نے کسی نہ کسی طرح گزشتہ دودہائیاں نکال لی ہیں اب شدید خطرے سے دوچارہے کیونکہ حسینہ واجدنے اپنی حکومت کے سامنے کسی بھی اپوزیشن کوبرداشت کرنے سے انکارکر دیا ہے۔بی این پی نے پچھلے انتخابات کابائیکاٹ کیاتھاجن میں حسینہ واجدکوفتح حاصل ہوئی،جنوری میں متنازع الیکشن کوایک سال ہونے کے بعدسے حالات بہت خراب ہوگئے ہیں ۔ بی این پی کے رہنماء مسلسل ہڑتالوں اورٹرانسپورٹ بندرکھنے کی کال دے رہے ہیں جبکہ حکومت اپنے مخالفین کوظلم وستم اورمیڈیا کو کریک ڈاؤن کانشانہ بنارہی ہے۔چندماہ سے کم عرصے میں سوسے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں جن میں بعض لوگ بسوں کو آگ لگانے کے واقعات میں ہلاک ہوئے جس کاالزام بی این پی کے اتحادیوں پرلگادیا، نیز ملک کی اہم ترین گارمنٹ برآمدات کی تجارت ٹھپ پڑی ہے۔بی این پی کی زیرقیادت ٢جماعتی اپوزیشن اتحادنے خالدہ ضیاء کے قافلے پرحملے کے بعدایک اورہڑتال کی اپیل کی۔ طارق رحمان نے بتایاکہ میرے ٥٠ہزارسے زائد کارکن جیلوں میں بندہیں۔ گزشتہ چھ سال سے ان میں سے ١٥٠٠ کارکن پولیس نے یاریپڈایکشن والوں نے ماردیے۔ انہوں نے کرپشن اورعدلیہ کے غلط استعمال کے متعلق انسانی حقوق کی تنظیموں کی شکایات کاحوالہ دیتے ہوئے بتایاکہ شیخ حسینہ واجد کے مخالفین کے خلاف مختلف الزامات میں ٦لاکھ ٤٠ہزارجھوٹے مقدمات ہیں۔

طارق نے بتایاکہ شیخ حسینہ واجدکی ایک آمرکی طرح حکومت کررہی ہیں اورجمہوری اپوزیشن جماعتوں کوکچل رہی ہیں۔حکومت کے اس ہتھکنڈے کی وجہ سے ان کے مخالفین زیر زمین چلے جائیں گے اورحفاظت اسلام جیسی نئی بنیادپرست تنظیمیں تقویت پکڑیں گی۔انہوں نے بتایاکہ شفاف الیکشن کرانے کاتقاضہ سارے مسئلے کی اصل وجہ ہے کہ حالات نہ صرف بنگلہ دیش کے لیے خطرناک ہیں بلکہ آہستہ آہستہ اورتدریجاًپوری جمہوری دنیاکے لیے خطرہ بنتے جارہے ہیں۔طارق نے کہااگرحسینہ واجد نے ردّعمل ظاہرنہ کیاتودیگر ممالک کوسخت اقدامات کرنا چاہئیں،ان پردباؤ ڈالنا چاہئے۔خود طارق رحمان پراپنی والدہ کی حکومت میں کرپشن کرنے کاالزام لگایاجاتاہے اورانہیں لندن میں اپنے مرکزسے سیاسی تشددپراکسانے کاذمہ دارٹھہرایا جا رہاہے،عوامی لیگ کی حکومت نے انہیں انٹرپول کے ذریعے اشتہاری ملزم قرار دیا ہواہے۔ان پر ٢٠٠٤ء میں بنگلہ دیش میں عوامی لیگ کی ریلی پردستی بم حملے میں ملوث ہونے کاالزام ہے جس میں شیخ حسینہ بچ گئی تھیں مگر ٢٤/ افرادہلاک ہوگئے تھے۔ طارق رحمان نے فنانشل تائمزکے وکٹرمالٹ کو اس حوالے سے بتایا کہ یہ اوردوسرے تمام الزامات سادہ زبان میں حقارت کے ساتھ مستردکیے جانے کے لائق ہیں اصلاً میرے خلاف سیاسی مقدمات قائم کیے گئے ہیں۔

جب مشہورٹی وی چینل الجزیرہ نے طارق رحمان سے اپنے وطن کے حالات پراستفسارکیاتوان کاکہناتھاکہ بنگلہ دیش سیاسی بحران سے دوچارہے اوریہ بحران وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قابوسے باہرہوتاجارہاہے ۔ حزبِ مخالف کی قائدسابق وزیراعظم اورمیری ماں خالدہ ضیاء پراس ہفتے تین الگ الگ مواقع پرمسلح جتھوں نے حملہ کیا۔گزشتہ پیرکے روز ان پرفائرنگ کی گئی ،ان کی کارپرحملہ کیاگیااورکارکی کھڑکیاں توڑدی گئیں۔ یہ صورت حال نہ صرف بنگلہ دیش کی گندی سیاست کی مثال ہے بلکہ اب توملک عملی طور پرواحد پارٹی کی حکومت کی طرف بڑھ رہاہے ۔خالدہ ضیاء اورمیں ، دونوں موجودہ حکومت کی طرف سے اس قسم کے الزامات کاسامنا کر رہے ہیں جن کا مقصدیہ ہے کہ تمام حزبِ اختلاف کاصفایا کر دیاجائے ۔موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ پرجب سے ملک میں ایک انتہائی ناقص اوردھاندلی شدہ انتخابات کرانے کاالزام عائدکیاگیاہے۔ہم ایک ایسے موڑتک پہنچ چکے ہیں جہاں مرکزی مخالف جماعت کی قائدمقدمے بازی کاسامناکررہی ہیں اورحزبِ مخالف کے دیگرتمام قائدین قید میں ہیں یاسزاؤں کاسامناکررہے ہیں۔اگریہ صورتحال جاری رہی توبنگلہ دیش میں بدترین آمریت کا دور طویل ترہو جائے گا۔

بنگلہ دیش میں سیاست ہمیشہ ہی سے پیچیدہ اورمشکل رہی ہے ۔آزادی کے بعدسے ٢٠برس تک ہمیں فوجی انقلاب کی ١٥کوششوں کاسامنا کرناپڑاہے لیکن ١٩٩١ء میں جمہوریت بحال ہونے کے بعدصرف دوبرس کے وقفے کے علاوہ ہم نے ضیاء کی بی این پی اورحسینہ کی عوامی لیگ کوانتخابات کے ذریعے سے حکومت میں آتے دیکھا ہے۔ بہرحال جب سے عوامی لیگ ٢٠٠٨ء میں اقتدارمیں آئی ہے ملک کا استحکام سکڑتاجارہاہے اوردنیاکے دوسرے بڑے مسلمان ملک میں سیاست ایک دفعہ پھر خطرے میں دکھائی دے رہی ہے۔ اس وقت عوامی لیگ ،مغربی ممالک کے ان خدشات سے فائدہ اٹھارہی ہے کہ یہ انتہاپسندی کے سامنے رکاوٹ ہے اوریہ ملک ایک ایسے خطے میں امن کا جزیرہ ہے جہاں ہرطرف عدم استحکام پھیلاہواہے۔بہرحال شیخ حسینہ سیکولرجمہوریت کی چیمپئن نہیں ہیں ،درحقیقت اپنے مفادپرستانہ اور خودغرضانہ کوششوںکے ذریعے سے کہ ہرصورت میں اقتدارمیں رہا جائے،وہ ملک کوخطرات کی طرف لے جارہی ہیں۔

انہوں نے چاہاکہ بنگلہ دیش کے پرچم سے خودکوڈھانپ لیں،اپنی جماعت سے وفاداری کوہی اپنے ملک سے وفاداری سمجھ لیں،ان کی ملک سے وفاداری کااس امرسے اندازہ کیا جا سکتاہے کہ انہوں نے امن کے نوبل انعام یافتہ محمدیونس کوملک سے نکال باہرکیااورآئین میں اس ترمیم کوختم کردیاجس کے مطابق انتخابات کے انتظام کے لیے نگران حکومت کی گنجائش موجود تھی۔اس وقت میڈیابھی حکومتی نشانے پر ہے اورصحافی دھڑادھڑگرفتار کیے جارہے ہیں۔گزشتہ ماہ بی این پی کے ایک سابق وزیرصلاح الدین جواغواء کر لیا گیااور اس کے بعدآج تک ان کوئی پتہ نہیں چلاکہ وہ کہاں اورکس حال میں ہیں۔اب ہیومن رائٹس واچ کی جانب سے بدنام زمانہ ’’ریپڈایکشن بیٹالک‘‘کے متعلق اعتراضات اٹھائے جارہے ہیں جس پر ایک ہزارسے زائدمخالفین افراد کوہلاک کرنے کاالزام عائدکیاجارہاہے ۔

اس وقت حقیقت یہ ہے کہ بنگلہ دیشیوں کی نصف ملین تعدادبرطانیہ میں رہائش پذیرہے،اب یہ ممکن ہے کہ
ڈھاکہ کاکاسلیٹ کے ایک گاؤں میں پیدا ہونے والابحران لندن یابرمنگھم میں بحران پیدا کر دے ۔ خالدہ ضیاء پرحملوں کانیاسلسلہ بنگلہ دیش کی جمہوریت کیلئے ایک نیاخطرہ ہے۔ایسااتفاق ہرگزممکن نہیں کہ خالدہ ضیاء پر تسلسل کے ساتھ تین الگ الگ مواقع پرحملے کیے جائیں ،ان حملوں سے صاف ظاہرہوتاہے کہ ملک اب نئے بحران کی طرف گامزن ہے ۔وقت ہاتھ سے نکلتاجارہاہے اوراب یہ لازم ہے کہ بنگلہ دیش بحران پیداہونے سے قبل ہی امن کے راستے پرچل پڑے ۔اب ہمارے مغربی دوستوں کافرض ہے کہ وہ موجودہ حکومت کومذاکرات پر قائل کریں تاکہ ملک ایک حقیقی جمہوریت کی راہ پر گامزن ہوسکے۔ملک میں جواس وقت صورتحال موجود ہے ہمارے عوام اس کے مستحق نہیں ۔اگربنگلہ دیش کے ایک بیٹے اور جمہوریت پسندنوجوان کے ساتھ اس قسم کی صورت حال پیش آرہی ہے تواس میں کون شک ظاہرکرسکتاہے کہ میرے ملک میں جمہوریت کی بقا سنگین خطرات سے دوچارہے۔

بی این پی سے زیادہ جماعت اسلامی حسینہ واجد کی جمہوریت کشی بلکہ انسانیت سوزی کاشکارہے۔حسینہ کے ہلاکت آفریں حسن کاشکار اصلاًبھارتی آشیرآبادکاکیادھراہے،اس کے اقدامات سے ظاہرہوتاہے کہ وہ بنگلہ دیش کی وزیراعظم نہیں بلکہ ڈھاکہ میں دہلی کی وائسرائے کا کرداراداکررہی ہیں اور انہوں نے عملاًبنگلہ دیش کوبھارت کی کالونی بنادیاہے۔اس پر طرہ یہ کہ انہیں بنگلہ دیش کی انتہاپسندہندو تنظیموں، سیکولرحلقوں اورغیرملکی فنڈزپر چلنے والی تنظیموں کی حمائت حاصل ہے حالانکہ ان کاعہدحکومت جمہوریت کی بجائے بدترین قسم کی فسطائیت کا مظہر ہے۔حسینہ واجداپنی حکومت کی مخالف سیاسی جماعتوں اوران کے سربراہوں کے ساتھ نازیانہ مظالم روارکھے ہوئے ہے ۔ان کے کے اقتدارمیں بنگلہ دیش میں بدترین قسم کی سفاکیت اوربہیمت کوروارکھے ہوئے ہزاروں کی تعدادمیں سیاسی کارکنوں کوجرم اختلاف رائے میں پابندسلاسل کیاگیااوریہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔اس کے فسطائی طرزِ سیاست کے مخالف شہری آج بھی ڈھاکہ سمیت کئی شہروں میں سزائے موت کے غیرمنصفانہ اورقتلِ عدل کے آئینہ دارفیصلوں کے خلاف سراپااحتجاج ہیں۔ جماعت اسلامی،بی این پی اوردیگر اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے زبردست احتجاجی مظاہروں نے حسینہ کے مذموم عزائم کی قلعی کھول کررکھ دی ہے مگرافسوس کہ استعماراوراس کے بغل بچوں کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان نے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مجرمانہ غفلت کامظاہرہ کیاہے۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.