گلگت بلتستان قانون سازاسمبلی کے
انتخابات کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں اور انتخابی مہم بھی انتہائی جوش
وخروش کے ساتھ آخری مرحلے میں داخل ہے8جون کو پولنگ ہوگی۔ انتخابی مہم کے
دوران پیپلزپارٹی کے سید خورشید احمد شاہ ، قمرالزمان کائرہ ، ندیم افضل
چن،زمرد خان ،سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا،تحریک انصاف کے سربراہ
عمران خان اور ان کی اہلیہ ریحام خان اور مسلم لیگ(ن) کی ماروی میمن ،
وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف، سنیٹر چوہدری تنویر، سنیٹر نہال
ہاشمی ، اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی ، جمعیت علماء
اسلام کے رہنما سنیٹر طلحہ محمود اور مجلس وحدت المسلمین کے سربراہ علامہ
ناصر عباس جعفری ،علامہ امین شہیدی ،پیپلزپارٹی کے سابق سینیٹر فیصل رضا
عابدی ،سنی اتحاد کونسل کے حامد رضاسمیت مختلف جماعتوں کے رہنما اور قائدین
مہم میں مصروف ہیں۔
31مئی تک انتخابی مہم ماضی کے مقابلے میں بہتر انداز میں جاری تھی لیکن
بدقسمتی سے 31مئی کو گلگت میں ایک مذہبی تقریب کے دوران پیپلزپارٹی، مجلس
وحدت المسلمین ، اسلامی تحریک،سنی اتحاد کونسل اور بعض دیگر رہنماوں کی
جانب سے جو تقاریراور اعلانات سامنے آئے اس سے ایک مرتبہ پھر انتخابی عمل
میں فرقہ وارانہ رنگ غالب آ گیا ہے،اگرچہ مجموعی طور عوامی سطح پر اس میں
ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس اجتماع میں ایک مکتبہ فکر اور مسلم
لیگ(ن) کے صوبائی صدر حافظ حفیظ الرحمن کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا
اور یہاں تک کہ انہیں ناکام بنانے کیلئے انتخابی مفاہمت کا بھی کا اعلان
بھی کیاگیا۔حافظ حفیظ الرحمان سے سیاسی اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر منافرت
انگیز الزامات افسوسناک ہیں کیونکہ کسی فرد کو صرف اس وجہ سے نشانہ بنانا
کہ وہ اپنی اہلیت اور قابلیت کے بل بوتے پر قوم کی بہتر نمائندگی کرسکتاہے
،یہ اس فرد کے ساتھ نہیں بلکہ پوری قو م کے ساتھ زیادتی ہے ۔حافظ حفیظ
الرحمن کا اگر مقابلہ ہی کرناہے تو سیاسی انداز میں کیا جائے اس کو مذہبی
رنگ دینے کی کوشش نہ کی جائے یہ وہ خاندان نے جس نے فرقہ وارانہ فسادات کے
خاتمے کیلئے قربانی کا آغاز اپنے گھر سے کیا ہے ۔حافظ حفیظ الرحمن کے بھائی
سیف الرحمن اپنے قریبی عزیز کے ہاتھوں صرف اس لئے قتل ہوئے کہ وہ فرقہ
واریت کی راہ میں روکاوٹ تھے۔مذہبی تقاریب میں استعمال کیے جانے والے لب
ولہجے اور فتوؤں سے وقتی طور پر تو کسی کو فائدہ ہوسکتا ہے مگر قوم کی
تباہی ہے ۔اﷲ کا شکر ہے کہ تادم تحریر (3جون)دوسری جانب سے کوئی سخت رد عمل
سامنے نہیں آیابلکہ تنظیم اہلسنت والجماعت کے مرکزی امیر اور خطیب جامع
مسجد قاضی نثار احمد کا2جون کو اخبارات میں شائع ہونے والا بیان انتہائی
مثبت ہے۔
گلگت بلتستان کے عوام کو سوچنا ہوگا کہ شہلا رضا، فیصل رضا عابدی ،حامد
رضااور دیگر نفرت انگیزسرگرمیوں میں مصروف لوگ آگ لگاکر یہاں سے چلے جائیں
گے اور پھر عذاب پوری قوم کو سہنا ہوگا۔اس لئے الیکشن کمیشن آف گلگت
بلتستان بھی شہلا رضا، فیصل رضا عابدی ، حامد رضااور دیگرکی نفرت انگیز
اوردھمکی امیز سرگرمیوں کا سختی سے نوٹس لے اور پیپلزپارٹی کی قیادت بھی
قوم کو بتائے کہ وہ کیا چاہتی ہے،کیا اپنی حکومت کی 5سالہ ناکامی کی سزا
قوم کو فرقہ وارانہ فسادات کی شکل میں دینا چاہتی ہے؟؟ اسلامی تحریک
پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد نقوی انتخابات میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم
کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حسب معمول گلگت بلتستان میں بھی
دھاندلی کی رٹ جاری رکھی اور کو ئی بڑا پروگرام دینے کی بجائے نواز شریف
حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے اس لئے عوام میں زیادہ پذیرائی ملنے کا
امکان نہیں ہے ۔ پیپلزپارٹی کے قائدین نے اپنی گزشتہ پانچ سالہ پالیسیوں
اور کارکردگی کا دفاع کرنے کے بجائے آیندہ کے وعدوں پر انحصار کیا، یہی
صورتحال دیگر جماعتوں کے قائدین کی بھی رہی ہے۔دوسری جانب جمعیت علماء
اسلام نے بھی کوئی مناسب منشور دینے کی بجائے حافظ حفیظ الرحمن کی مخالفت
پر انحصار کیا۔مجلس وحدت مسلمین کے منشور سے فرقہ وارانہ سوچ کو الگ کیا
جائے تو بہتر ہے ،بالخصوص بلدیاتی انتخابات فوری کرانے کی بات اہم ہے ۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے 24حلقوں کیلئے مجموعی طور پر 268امیدوار
میدان میں ہیں اب تک کے جائزوں کے مطابق۔ جی بی ایل اے حلقہ نمبر1گلگت 1میں
مجموعی طور پر 24امیدوار میدان میں تاہم بالترتیب پیپلزپارٹی کے امجد حسین
مسلم لیگ( ن) کے جعفراﷲ ، تحریک انصاف کے میر عالم ، آزاد امیدوار سید نظام
الدین اور مجلس وحدت مسلمین کے محمد الیاس صدیقی کی پوزیشن بہتر ہے۔جی بی
ایل اے حلقہ نمبر2گلگت 2میں 21امیدوار میدان میں ہیں تاہم بالترتیب مسلم
لیگ (ن ) کے حافظ حفیظ الرحمن ،پیپلزپارٹی کے جمیل احمد ، تحریک انصاف کے
فتح اﷲ اور مجلس وحدت مسلمین کے مطاہر عباس کے کی پوزیشن بہترہے ۔جی بی ایل
اے حلقہ نمبر3گلگت 3میں 11امیدوار ہیں تاہم بالترتیب مسلم لیگ (ن) کے ڈاکٹر
محمد اقبال ، ، مجلس وحدت المسلمین کے شیخ نیئر عباس مصطفوی ،پیپلزپارٹی کے
آفتاب حیدراور اسلامی تحریک کے محمد شفیع کی پوزیشن بہتر ہے۔
جی بی ایل اے حلقہ نمبر4ہنزہ نگر 1میں 8امیدوار میدان میں ہیں تاہم
بالترتیب اسلامی تحریک کے شیخ محمدعلی ،پیپلزپارٹی کے جاوید حسین ،مجلس
وحدت مسلمین کے علی محمد ،آزاد امیدوار محمدعلی اختر اور مسلم لیگ (ن) کے
فدا حسین کی پوزیشن بہتر ہے ۔جی بی ایل اے حلقہ نمبر5 ہنزہ نگر 2میں
20امیدوار میدان میں تاہم بالترتیب تحریک انصاف کے مرزا حسین ،مجلس وحدت
مسلمین کے رضوان علی ، مسلم لیگ(ن) کے کلب علی اور اسلامی تحریک کے مرزاعلی
کی پوزیشن بہتر ہے۔جی بی ایل اے حلقہ نمبر6ہنزہ نگر 3میں 11امیدوار ہیں
تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے میر غضفر علی خان ، عوامی وطن پارٹی کے
باباجان اور پیپلزپارٹی کے ظفر اقبال کے مابین ہے۔
جی بی ایل اے حلقہ نمبر7سکردو 1میں 8امیدوار ہیں اصل مقابلہ پیپلزپارٹی کے
سید مہدی شاہ ، مسلم لیگ (ن) کے محمد اکبر تابان ، تحریک انصاف کے راجہ
جلال حسین خان اور اسلامی تحریک کے غلام شہزاد آغٖا کے مابین ہے۔جی بی ایل
اے حلقہ نمبر8سکردو حلقہ نمبر 2میں 7امیداور میدان میں تاہم بالترتیب
اسلامی تحریک کے سید محمد عباس رضوی ، مجلس وحدت مسلمین کے امتیازحیدر خان
، مسلم لیگ (ن) کے سید محمد علی شاہ اور پیپلزپارٹی کے نثار حسین بہتر
پوزیشن میں ہیں۔جی بی ایل اے حلقہ نمبر9سکردو 3میں 6امیدوار میدان میں ہیں
تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن ) کے فدا محمد ناشاد اور مجلس وحدت مسلمین کے
وزیر محمدسلیم کے مابین ہے۔جی بی ایل اے حلقہ نمبر10 سکردو4میں مجموعی طور
پر 9امیدوار ہیں تاہم بالترتیب اسلامی تحریک کے کیپٹن(ر) سکندرعلی ، مجلس
وحدت مسلمین کے ناصر علی خان ،مسلم لیگ (ن) کے غلام عباس اور پیپلزپارٹی کے
وزیر حسن کی پوزیشن بہتر ہے۔جی بی ایل اے حلقہ نمبر11 سکردو 5میں 9امیدوار
میدان میں ہیں تاہم بالترتیب تحریک انصاف کے سید امجد زیدی ، مسلم لیگ(ن)
کے اقبال حسن اور مجلس وحدت کے شجاعت حسین کی پوزیشن بہتر ہے۔جی بی ایل اے
حلقہ نمبر12سکردو6 میں 4امیداور ہیں تاہم اصل مقابلہ پیپلزپارٹی کے عمران
ندیم اور مسلم لیگ (ن) کے راجہ محمد اعظم خان کے مابین ہے۔
جی بی ایل اے حلقہ نمبر13استور 1میں مجموعی طور پر 11امیدوار ہیں بالترتیب
مسلم لیگ (ن) کے رانا فرمان علی ، پیپلزپارٹی کے عبدالحمید خان ، آزاد
امیدوار محمد خالد خورشیداور ڈاکٹر غلام عباس مقابلے میں ہیں۔جی بی ایل اے
حلقہ نمبر14استور2میں 28امیدوار میدان میں تاہم بالترتیب مسلم لیگ(ن) کے
برکت جمیل آزاد امیدوار ڈاکٹر مظفر علی ریلے، محبو ب علی خان ،پیپلزپارٹی
کے محمدنصیر خان ، آزادامیدوار محمد شفا و جماعت اسلامی کی مولانا
عبدالسمیع کی پوزیشن بہتر میں ہیں۔
جی بی ایل اے حلقہ نمبر15 دیامر 1میں 8امیدوار ہیں تاہم اصل مقابلہ
پیپلزپارٹی کے فداء اﷲ ایڈوکیٹ،مسلم لیگ(ن) کے حاجی غندل شاہ اور جمعیت
علماء اسلام کے حاجی شاہ بیگ کے مابین ہے۔جی بی ایل اے حلقہ نمبر16 دیا مر
2میں 13امیدوار میدان میں تاہم بالترتیب آزاد امیدوار حاجی عبدلعزیز ، مسلم
لیگ (ن) کے جانباز خان اور آزاد امیدوار عطاء اﷲ کی پوزیشن مستحکم ہے۔جی بی
ایل اے حلقہ نمبر17 دیامر 3میں 10 امیدوار میدان ہیں تاہم اصل مقابلہ جمعیت
علماء اسلام کے حاجی رحمت خالق اور مسلم لیگ(ن) کے حیدر خان کے مابین ون ٹو
ون متوقع ہے اور تحریک انصاف کے ڈاکٹر محمد زمان بھی کوشاں ہیں۔جی بی ایل
اے حلقہ نمبر18دیا مر 4میں 7امیدوار ہیں تاہم ون ٹو ون مقابلہ جمعیت علماء
اسلام کے حاجی گلبر خان اور مسلم لیگ (ن) کے محمد وکیل کے مابین ہے۔
جی بی ایل اے حلقہ نمبر19غذر 1میں 9امیدوار میدان میں ہیں تاہم اصل مقابلہ
بالاورستان نیشنل فرنٹ کے نواز خان ناجی اور مسلم لیگ(ن) کے شکیل احمد خان
کے مابین ہے۔جی بی ایل اے حلقہ نمبر20غذر 2میں 17امیدوار میدان میں ہیں
تاہم اصل مقابلہ بالترتیب مسلم لیگ(ن) کے سلطان مدد، پیپلزپارٹی کے علی مدد
شیر اور آل پاکستان مسلم لیگ کے نور ولی خان کے مابین ہے ۔ جی بی ایل اے
حلقہ نمبر21غذر 3میں 15امیدوار میدان میں ہیں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے
غلام محمد، تحریک انصاف کے جہانزیب اور پیپلزپارٹی کے محمد ایوب شاہ کے
مابین ہے۔
جی بی ایل اے حلقہ نمبر22گانچھے 1 میں مسلم لیگ(ن) کے محمد ابراہیم ثنائی
اور تحریک انصاف کی امینہ انصاری کے درمیان ون ٹو ون مقابلہ ہے۔جی بی ایل
اے حلقہ نمبر23گانچھے 2میں7امیدوار ہیں تاہم اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کے
غلام حسین اور تحریک انصاف کی آمنہ انصاری کے مابین ہے۔جی بی ایل اے حلقہ
نمبر24گانچھے 3میں 3امیدوار ہیں تاہم ون ٹو ون مقابلہ پیپلزپارٹی کے محمد
اسماعیل اور مسلم لیگ (ن) محمد شفیق کے مابین ہے۔
مختلف جائزوں کے مطابق مسلم لیگ(ن) کو 7سے 12پیپلزپارٹی کو 5سے 8تحریک
انصاف کو 2سے 4 مجلس وحدت مسلمین کو 2سے 4 ، اسلامی تحریک پاکستان کو 2سے
4، جمعیت علماء اسلام کو 1سے 3بالاورستان نیشنل فرنٹ کو 1اور آزاد
امیدواروں کو 1 سے 3نشستیں ملنے کا امکان ہے تاہم پیپلزپارٹی ، مجلس وحد ت
مسلمین اور اسلامی تحریک پاکستان کی انتخابی مفاہمت کی صورت میں مجموعی
نتائج میں تبدیل آسکتی ہے۔
|