انسان کے اردگردکا ماحول انسان
کی نفسیا ت اور اسکی ذندگی پر بڑا گہرا اثر انداز ہوتا ہے ۔ صاف ستھری آب و
ہوا ، خوشگوار فضاء اور سر سبز و شاداب نظارے انسان کو اچھی صحت اور خوشنما
تاثر دیتے ہیں ۔ وہ لوگ جو اچھے ماحول جیسی نعمت سے مالا مال ہوتے ہیں ان
کی نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی صحت بھی بہتر ہوتی ہے ۔ وہ لوگ ذیادہ تندہی کے
ساتھ جسمانی اور ذہنی کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اور مزید یہ کہ ان کی
حیات کا عرصہ بھی ذیادہ ہوتاہے۔اب اس کے برعکس وہ لوگ جنہیں آلودہ فضاء ،
آلودہ پانی اور شوروغل جیسا ماحول میسر ہو تو نتیجہ کے طور پر ان کی صحت کا
معیار بھی پست ہوتا ہے ۔کسی بھی ملک میں افراد کو حاصل شدہ معیاری خوراک
اور اچھی صحت معاشی ترقی میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہے۔لیکن موجودہ دور
میں نئی ٹیکنالوجی اور صنعتی ترقی کی وجہ سے ملک میں فضائی آلودگی بڑھتی جا
رہی ہے ۔
ماحول کا عالمی دن ہر سال 5 جون کو دنیا کے بیشتر ممالک میں منایا جاتا ہے
۔جس کا مقصد قدرت کی طرف سے انسان کو عطا ء کیے گئے خوبصورت عناصر کی حفاظت
کے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔ماحولیات کا عالمی دن دنیابھر میں پہلی مرتبہ
اقوام متحدہ کی طرف سے 1973ء میں منایا گیا ۔میڈیا اور مشہور شخصیات نے اس
دن کو منانے کی بڑی توثیق اور حوصلہ افزائی کی ۔اقوام متحدہ کا ماحولیاتی
پرگرام (UNEP) ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانے کے لئے آج بھی ہر طرح کی کاوش
میں سرگرم دکھائی دیتا ہے ۔ماحول کا یہ دن ہر سال مختلف Theme کے ساتھ
منایا جا تاہے ۔جیسے کسی سال ماحول کو سرسبز رکھنے میں درختوں کی حمایت میں
آواز اٹھائی جاتی ہے تو کسی سال جنگلات کی نوعیت اور اہمیت پر روشنی ڈالی
جاتی ہے کبھی اس دن کے تھیم میں پانی کے متعلق آگاہی اور اوزون لیئر ،صحراؤں
، آبادی ،گلوبل وارمنگ جیسے موضوعات پر کام کیا جاتا ہے۔گزشتہ سال خوراک کو
ضائع ہونے سے بچانے کے متعلق شعور بیدار کرنے کی کوشیش کی گئی تھی ۔
پاکستان کو ماحول کے حوالے سے جو درپیش مسائل ہیں ان میں سے سب سے بڑا
مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے ۔صحت کے معیا رکو برقرار رکھنے کے لئے صاف
پانی نہ ہونے کے برابر ہے ۔پانی کی آلودگی کی سب سے بڑی وجہ صنعتوں سے
نکلنے والے استعمال شدہ کیمیکلز کا پانی میں شامل ہونا ہے۔پانی کا مسئلہ تو
سالوں سے درپیش ہے اور ابھی بھی ہم پانی کی آلودگی کے حوالے سے کوئی تسلی
بخش حل تلاش کرنے کے قابل نہیں ہوئے۔Recycling کے عمل میں بہتری اس مسئلے
کا بہترین حل تو ہے لیکن اس کے ساتھ مقامی انتظامی اداروں کی طرف سے پانی
کو ضائع ہونے سے بچانے کے متعلق ہدایات پر سختی سے عمل درآمد کروانے کی
ضرورت ہے ۔
دوسرا بڑا مسئلہ فضاء کی آلودگی کا ہے فیکٹریوں ،کارخانوں ،چمنیوں اور
ٹریفک یا گاڑیوں سے اٹھنے والا ڈھوواں فضاء کو بری طرح متاثرکر رہا ہے۔ابھی
بھی تاحال بہت سے ایسے کارخانے ہیں جو تاحال رہائشی آبادیوں میں چل رہے
ہیں۔جو نہ صرف فضاء کی آلودگی بلکہ نوائس پلوشن کا موجب بھی بن رہے
ہیں۔کوڑا کرکٹ کو آگ لگانا قانونا جرم ہے لیکن پھر بھی بہت سی جگہوں پر
کچڑے کے ڈھیر کو آگ لگا دی جاتی ہے اور پلاسٹک بیگزاور اس کندگی کے جلنے سے
اٹھنے والا دھواں انسانی صحت کے لیے انتہائی مضرء ہے ۔
ایک اور مسئلہ درختوں کی کٹائی اور جنگلاتی ایریا کی ہر سال ہوتی ہوئی کمی
کا ہے ۔ناسا NASA کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پوری دنیا میں تقریبا
400 billion بلین درخت پائے جاتے ہے اور آج زمین کا 9.6 بلین ایکڑ حصہ
جنگلات پر مشتمل ہے یا جنگلاتی ہے ایک مستند اندازے کے مدنظر 1990ء میں
پاکستان کا جتنا حصہ جنگلاتی تھا ۔2008ء میں اس کا 25% کم ہو گیا ۔ یعنی
فرض کیا کہ جیسے پہلے ایک سو درخت تھے تو وہ کم ہوکر پچھتر رہ گئے۔اور اب
بھی پاکستان میں ہر سال لاکھوں درخت ٹمبر مافیا کے ہاتھوں کا شکار ہو کربے
دردی سے کاٹے جا رہے ہیں ۔ ایک درخت ہر سال تقریبا 48 پاؤنڈ کا ربن ڈائی
آکسائیڈ ختم کرتا ہے ۔ نارتھ ویسٹ فارسٹ مینجمنٹ کے مطابق درختوں کا ایک
ایکڑ حصہ 18 افراد کے لئے آکسیجن مہیا کرتا ہے ۔اس سے بخوبی اندازہ کیا جا
سکتا ہے کہ درختوں کی انسان کی ذندگی میں کیا اہمیت ہے۔
زمین پر مٹی ایک بڑی اہم قدرتی وسائل ہے پودوں ،فصلوں ،درختوں کی نشونما
میں اور پھر ان سے خوراک حاصل کرنے میں یہ بڑی کام آتی ہے۔لیکن مٹی کی
قدرتی ساخت کو بھی اب خطرہ لاحق ہے کیونکہ آج کے دور میں کیمیائی کھاد کے
استعمال سے مٹی کو بھی آلودہ کیا جا رہا ہے اور یہاں تک کے جو کیمیکلز
وٖغیرہ خوراک کے حصول کی خاطر قدرتی مٹی میں شامل کئے جاتے ہیں تو ان
کیمیکلز کی تھوڑی بہت مقدار کا اثر خوراک میں بھی آجاتا ہے جو انسان کی صحت
کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے ۔اس وقت قدرتی مٹی کی دیکھ بال اور اس کی
آلودگی سے نمٹے جانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اچھی مٹی ہی انسان کو اچھی
خوراک دے سکتی ہے۔ اور ذندہ رہنے کے لئے خوراک کتنی ضروری ہے یہ بات تو آپ
بھی جانتے ہی ہیں۔ وہ ایک بڑی خوبصورت کہاوت ہے کہ ــ’’ جو قوم اپنی مٹی کو
تباہ کرتی ہے وہ در حقیقت اپنے آپ کو تباہ کر رہی ہوتی ہے۔اور جنگلات تو
ہماری سرزمیں کے پھیپھڑے ہوتے ہیں جو ہمیں تازہ آکسیجن فراہم کرتے ہیں۔‘‘
ماحول کو متاثر کرنے والی ایک اور آلودگی جسے شور کی آلودگی کہا جاتا ہے ۔اس
میں بھی روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے متعلق شور کی
آلودگی صحت اور روئیے دونوں پر بڑی گہری اثر انداز ہوتی ہے ۔ناپسندیدہ آواز
( شور) نفسیاتی صحت کو بہت نقصان پہنچاتا ہے ۔ صنعتی شعبے میں استعمال ہونے
والی بڑی بڑی مشینوں کی آوازیں اور خاص کر چلنے والی گاڑیوں یا ویہاکلز سے
اٹھنے والی آوازیں شور کا سبب بنتی ہیں۔اور شور کی آلودگی ہائی بلڈ پریشر،
ہائپر ٹینشن ، نیند کی خرابی ، سماعت کو نقصان اور دیگر مسائل کو پیدا کرتی
ہے ۔مزید برآں کہ کشیدگی اور ہائی بلڈ پریشر جیسے مسائل انسان کی صحت کو
تباہ کرتے جا رہے ہیں۔
ایک اور وجہ جو انسانی صحت کو متاثر کرنے کا زریعہ بن رہی ہے وہ یہ کہ گندے
نالوں سے اٹھنے والے ذہریلے فیو مز ہیں ۔ہمارے ہاں گندے نالوں کو عموما
مکمل cover نہیں کیا جاتا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ ان نالوں کے ساتھ ہی
آبادی رہائش پذیر ہوتی ہے ۔وہاں کے مکین نالے کی بدبو کے تو عادی ہو جا تے
ہیں لیکن وہ ان نالوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسوں کے اثرات سے تو محفوظ
نہیں رہتے۔یہاں تک کے ان لوگوں کی گھریلو اشیاء خاص طور پر الیکٹرونکس کی
اشیاء جیسے اے سی ، فریج وغیرہ آئے روز ہی خراب رہتی ہیں اور ذیادہ دیر تک
چل بھی نہیں پاتی۔اور اس کے علاوہ ان کھلے گندے نالوں پر رہنے والے اکثر
لوگ سکن پرابلم کا شکار رہتے ہیں۔
شہری آبادی میں رہنے والے لوگوں کو تو ماحول کی آلودگی کا روذانہ ہی سامنا
کرنا پڑتاہے۔کیونہ شہروں میں ذیادہ تر وہ تمام عناصر پائے جاتے ہیں جو
ماحول کو آلودہ کرنے کا کام کرتے ہیں۔اگر شہر میں رہنے والا انسان کسی صاف
ستھرے یا پہاڑی علاقے کا دورہ کرے اور کچھ دن وہا ں پر قیام بھی کرے اور
پھر وہاں کے ماحول اور اپنی شہر میں گزارنے والی ذندگی کے ساتھ موازنہ کرے
تو شاید اس کا واپس آنے پر دل نہیں کر ے گا۔قدرت نے انسان کو بے شمار قیمتی
اور صاف ستھری حالت میں نعمتیں عطا کی ہیں اور یہ اب انسان کی زمہ داری ہے
کہ وہ ان کی قدر کرے کیونکہ ان بنیادی عناصر سے ہی انسانی ذندگی کی بقاء
ہے۔اور اپنے ماحول کو صاف رکھنے میں ہر ممکن اقدام کرے کیونکہ صرف مال و
دولت سے ہی نہیں بلکہ انسان کے اردگرد کے شاداب ماحول سے بھی اس کی ذندگی
خوشگوار ہو سکتی ہے۔ |