اعداد وشمار کا گورکھ دھندا نمبر68
(عابد محمود عزام, karachi)
حکومت نے پہلے سے بے پناہ مصائب
کی دلدل میں گردن تک دھنسے عوام پر ٹیکسوں سے بھرپور بجٹ کا ”بم“ گرا دیاہے۔
ائیر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھے معاشی ماہرین کہلوانے والوںکی جمع تفریق سے
بننے والا بجٹ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ نہیںہے۔ ملکی تاریخ
کے اس 68ویں بجٹ میں بھی ہر بار کی طرح قوم کو جھوٹی تسلیاں دی گئی ہیں۔
وزیر خزانہ کہتے ہیں بجٹ میں غریبوں کو خصوصی مرعات دی ہیں۔ عوام کا کہنا
ہے کہ بجٹ خواص کے تعیشات کو مد نظر رکھ کر بنایا گیا ہے، جس میں بے تحاشا
ٹیکسز لگا کر عوام کی سانسوں کو بھی کنٹرول کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ویسے
تو حکمران طبقہ گزشتہ 68سال سے عوام کا خون چوس رہا ہے، لیکن اب تو شاید یہ
طبقہ عوام کی ہڈیوں کا گودا تک نکالنا چاہتا ہے۔ حکمرانوں کی جانب سے ہر
بار بجٹ میں دل کھول کر جھوٹ بولا جاتا ہے اور عوام کی خواہشات کا قتل کیا
جاتا ہے۔ معروف ادیب مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں: ”جھوٹ تین قسم کے ہوتے
ہیں۔ جھوٹ، سفید جھوٹ اور سرکاری اعداد و شمار۔“ سرکاری اعدادوشمار کی
وضاحت بجٹ کے روز پارلیمنٹ میں ہوتی ہے، جہاں ریکارڈ جھوٹ بولا جاتا ہے۔
کسی دور میں عوام بجٹ کی ”رسم“ کو کسی حد تک سنجیدہ لیتے تھے۔ اس وقت بجٹ
میں کچھ حصہ عوام کا بھی رکھا جاتا تھا اور بجٹ میں کیے گئے اعلانات میں
تھوڑی بہت سچائی بھی ہوتی تھی، لیکن اب وہ سنجیدگی ختم ہو چکی ہے اور بجٹ
صرف جھوٹ اور فریب کا ایک پلندا بن کر رہ گیا ہے۔ بجٹ میں عوام کو کوئی
سہولت نہیں دی جاتی اور اگر کسی سہولت کا اعلان ہوتا بھی ہے، تو اس پر عمل
نہیں کیا جاتا اور عالمی مالیاتی اداروں کے احکامات پر عمل درآمد کرتے ہوئے
آئے دن چھوٹے بجٹ بم گرا کر عوام کے جذبات کو مزید مجروح کردیا جاتا ہے۔
چند روز ہی گزرتے ہیں کہ قیمتوں میں اضافے اور نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے
اعلانات کے ساتھ عوام پر مہنگائی کا ایک نیا حملہ کر دیا جا تا ہے۔ اس طرح
اب بجٹ سوائے دھوکے، فریب اور جعلسازی کے کچھ نہیں ہوتا۔ حکومت اعداد و
شمار کو مسخ کر کے اپنی ”لوٹ مار“ کو عوام کی فلاح کے طور پر پیش کرتی ہے
اور حکومت سے ملی بھگت کرنے والی اپوزیشن عوام کو مزید بے وقوف بنانے کے
لیے میڈیا کے سامنے اودھم مچاتی ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں پہلے تو عوام پر لگائے
گئے ٹیکسز کی مخالفت کرتی ہیں، لیکن بعد ازاں نا معلوم وجوہ کی بنیاد پر
خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔
بجٹ کسی بھی حکومت کی مالی پالیسیوں کی سمت کا تعین کرتا ہے اور ملک و قوم
کی ترقی و خوشحالی کا آئینہ دار بھی ہوتا ہے۔ بجٹ عوام دوست اسی وقت ہی
کہلا سکتا ہے، جب عام آدمی کو بجٹ میں زیادہ سے زیادہ ریلیف ملے، لیکن یہاں
تو ریلیف عام آدمی سے کوسوں دور ہے۔ مزدور کی تنخواہ 12ہزار سے ”بڑھا کر“
13ہزار کردی گئی ہے، لیکن کوئی یہ تو بتادے کہ اسے یہ تنخواہ دے گا کون؟
حیرت کی بات ہے کہ بجٹ میں امیروں کے لیے حکومت نے ٹیکسوں میں چھوٹ اور
نوازشات کی بارش کردی ہے، جبکہ غربت و افلاس کی چکی میں پسنے والے عوام پر
ایک ہزار 2سو 53ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں، جس سے یقینی طور پر
عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا، لیکن حکمرانوں کو ان کی مشکلات سے کیا
لینا دینا، ان کا کام تو محض حکمران چننا ہے۔
دراصل عوام پر لگائے گئے ٹیکسز بھی حکمرانوں کی بداعمالیوں کو نتیجہ ہوتے
ہیں، کیونکہ یہ ان قرضوں کے بدلے میں لگائے جاتے ہیں، جن کی واپسی حکمرانوں
کے ذمے ہوتی ہے، لیکن ادا عوام کرتے ہیں۔ چونکہ ہماری حکومتیں قرضے عالمی
مالیاتی اداروں سے لیتے ہیں، اس لیے بجٹ بھی انہیں کے اشاروں پر بنائے جاتے
ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کو تو اپنے قرضے واپس لینے ہوتے ہیں،جس کی
آسان صورت ان کے سامنے یہی ہوتی ہے کہ عوام پر ٹیکس لگا دیا جائے۔ حالانکہ
ان قرضوں سے بھی صرف اورصرف بڑی کرسیوں پر بیٹھے افراد کو فائدہ ہوتا ہے،
عوام کو کچھ بھی نہیں ملتا۔ یہ قرضے جہاں سے آتے ہیں، وہاں ہی واپس چلے
جاتے ہیں۔ فرق صرف یہ پڑتا ہے عام شہری پر قرضوں اور ٹیکس کا بوجھ بڑھ جاتا
ہے، جس سے اس کی حالت پہلے سے ابتر ہو جاتی ہے۔
قرضے دیتے وقت عالمی استحصالی اداروں آئی ایم ایف اورورلڈ بینک وغیرہ کی
شرائط میں نجکاری، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے ”ساز گار“ ماحول کی فراہمی
اور ٹیکسوں میں اضافہ شامل ہوتا ہے۔ اس طرح ہر ایک ڈالر جو قرض کی شکل میں
دیا جاتا ہے، اپنے ساتھ کئی ڈالر واپس لے جاتے ہوئے ریاست کو مزید قرضے
لینے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک اینٹی گلوبلائزیشن تنظیم کے مستند اندازے کے
مطابق تیسری دنیا کے ممالک کو قرضوں یا امداد کی مد میں ملنے والا ہر ایک
ڈالر اپنے ساتھ 25ڈالر واپس لے کر جاتا ہے۔ قرضوں کی مد میں ملنے والی رقم
کا بڑا حصہ کرپٹ حکمرانوں کی کرپشن کی بھینٹ چڑھ کر واپس انہی بینکوں میں
چلا جاتا ہے ،جہاں سے قرضے لیے جاتے ہیں۔ باقی بچنے والی رقم ریاستی مشینری
کی شاہ خرچیوں اور عیاشی کی نذر ہو جاتی ہے۔
پاکستان کو دیے جانے والے قرضوں کا مقصد یہاں غربت یا بیروزگاری کا خاتمہ
نہیں اور نہ ہی عوام کو علاج، تعلیم کی سہولت دے کر ملک کو ترقی کی راہ پر
گامزن کرنا ہے، بلکہ ان کا مقصد بے تحاشا منافع (سود) کمانا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ پاکستانی عوام کی حالت یہ ہو گئی ہے کہ لوگ غربت سے تنگ آ کر خود کشیاں
کر رہے ہیں۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر
مجبور ہے۔
|
|