بدترین یو ٹرن

سیاست بھی عجب کھیل ہے جس میں دوستیاں اور دشمنیاں ذاتی مفادات کے تابع ہوتی ہیں۔آج کے دوست کل کے دشمن اور کل کے دشمن آج کے دوست ہونا ہی پاکستانی سیاست کا بنیادی جزوہے۔شہباز شریف ۱۱ مئی ۲۰۱۳ء کے انتخابات سے قبل اپنے ہرجلسے اور ہر تقریر میں پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری کو آڑے ہاتھوں لیتے اور اکژ کہتے کہ اگر وہ اقتدار میں آگئے تو آصف علی زرداری کو لاہور کی سٹرکوں پر گھسٹیں گے اور چوراہوں پرالٹا لٹکائیں گے اوران سے لوٹی گئی ملک کی پائی پائی وصول کرکے چھوڑیں گے اور اگرمیں ایسا نہ کر سکا تو میرا نام شہباز شریف نہیں لیکن اقتدار ملنے کے بعد آصف زرداری کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نواز شریف اور شہباز شریف نے مفاہمت کی سیاست شروع کر دی اورلٹو اور لوٹنے دو کی پالیسی پر عمل پیرا ہو گئے۔اور یوں آصف زرداری ہم نوالہ ہم پیالہ اور ہم رکاب ہو گئے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کیا آصف زرداری کو الٹا لٹکانا محض انتخابی ڈھونگ اور عوام کو بیوقوف بنا کر اقتدار حاصل کرنا تھا؟

ابھی گذشتہ دنوں میاں شہبازشریف وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کو میٹرو کے افتتاح کے موقع پر مدعو کرنے کراچی پہنچے جہاں میڈیا کے استسفار پر کے وہ تو آصف علی زرداری کو الٹا لٹکانے کی بات کرتے تھے اور اب ان کی پارٹی کو مدعو کرنے کس منہ سے آئے ہیں ؟جس پر شہباز شریف کا چہرہ مرجھا گیا اور ٹالنے کے انداز میں گویا ہوئے کہ وہ پہلے بھی معافی مانگ چکے ہیں اور اب پھر مانگتے ہیں۔واہ میرے ملک کے بد عہد سیاست دانوں تمہاری کون سی بات سچی ہے اور کون سی جھوٹی ،عوام اب تمہاری کسی بات کو اسی لیے سنجیدگی سے نہیں لیتے کہ تم بد عہد اور منافقین کے طرز عمل پر عمل پیرا ہو۔اور تمہارے قول وفعل میں جو تضاد نظر آتا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تم کسی وقت بھی اپنی کہی ہوئی بات سے ڈھٹائی کے ساتھ مکر سکتے ہو۔ جیسے کہ6 ماہ میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کرنے کی نوید سنا کر عوام کے ساتھ بدترین دھوکہ کیا گیا۔

قارئیںؔ ۔ قرآن اس سلسلے میں کہتا ہے﴿جو عہد پورا نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں﴾لیڈر کی ایک زبان ہوتی ہے اس کا ہر عمل اسکی اطاعت کرنے والوں کے لیے حکم کا درجہ رکھتا ہے اور لوگ اپنے لیڈر کو فالو کرتے ہیں۔جس لیڈر کے قول وفعل میں تضاد ہو کیا ؟وہ لیڈر کہلانے کے قابل ہے۔ہمارے سیاستدان اقتدار کو گھر کی لونڈی سمجھتے ہیں اور اس لونڈی کے لیے یہ اپنے ضمیر کو بھی بیچ ڈالتے ہیں۔ ان کا دین ایمان صرف کرپشن اور لوٹ مار ہوتی ہے چاہے حرام ہو یا حلال ان کے لیے سب جائز ہے۔ایک بات تو طے ہے کہ اس ملک میں احتساب محض ایک دکھاوا ہے۔اس ملک میں چوروں اور لٹیروں نے آپس میں ایکا کیا ہوا ہے سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دینے کے لیے باریاں لگائی ہوئی ہیں-

ملکی اداروں کی استعدادکار یہ ہے کہ ایگزیکٹ سکینڈل کے منظرعام پر آنے کے بعداب اسکے افسران کو پکڑ پکڑ کر یہ پوچھ رہے ہیں کہ کروڑوں روپے کی جو مشینری درآمد کی ہے اس کی تفصیلات بتائیں۔میں بحثیت پاکستانی یہ پوچھنے میں حق بجانب ہوں کہ جس وقت یہ مشینری اور دیگر آلات درآمد کیے گئے اس وقت حکومتی ادارے کہاں تھے؟یہ مشینری اور آلات آخرکسی ائیرپورٹ یا بندگاہ سے ہی آئے ہوں گے تو اس وقت کسٹم کلیرنس کیسے ہوئی؟ کیااس وقت یہ ریاستی ادارے سو رہے تھے؟یا اس وقت انکی جیبیں گرم کر دی گئیں تھیں۔اب توانکم ٹیکس اور ٹیکس ریٹرن والے بھی جاگ گئے ہیں۔سب سے پہلے تو ان افسران کی انکوائیریاں ہونی چاہیں جو سرکار کا کھا کر بھی غفلت اور لاپرواہی کے مرتکب ہوئے ہیں پہلے انہیں پکڑیں پھر مانیں گے کہ آپ ملک انصاف پر مبنی فیصلے صادر کر رہے ہیں۔ملک بھر کی باڑہ مارکیٹوں میں اربوں روپے کا غیرملکی سامان دکانوں میں سرعام پڑا ہے کیا کسٹم حکام ان سے بھی غیرملک سمگل شدہ سامان کی قانونی اور غیر قانونی حیثیت کی جانچ پٹرتال کرنا گوارہ کریں گے یا پھر اس کے لیے بھی نیویارک ٹائمز میں آرٹیکل لکھوانا پٹرے گا۔تاکہ ہمارے ارباب اختیارخواب غفلت سے بیدار ہو سکیں۔

جس ادارے کے سربراہ کا تقرر ہی سیاسی بنیادوں پر میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کیا جائے توکیا وہ ادارہ ملکی دولت لوٹنے والوں کااحتساب کر پائیں گے۔اگر زرداری صاحب کے گھوڑے سیب کے مربے کھاتے تھے تون لیگ کے مراعات یافتہ مخصوص ٹھیکیدارآج میگاپروجیکٹوں میں کرپشن کر کے کمیشن در کمیشن سونے کے کشتے کھا رہے ہیں اور میاں برادران کو بھی سری پائے کے تحفے رائیونڈ محل میں پہنچائے جا رہے ہیں۔ایک میٹرو بنا دینے سے ملک سے غربت ختم نہیں ہو گئی۔ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں کراچی میں ٹینکر مافیا ناسور کی طرح لوگوں کی جیبوں کا صفایا کر رہا ہے۔ سب کو پتا ہے کہ وہ کون ہیں؟ لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوتی کیونکہ چوکیدار چوروں کے ساتھ مل جائے تو پھراس گھر کا اﷲ ہی حافظ ہو گا۔ہسپتالوں میں ادویات نہیں ہیں ایک ایک بستر پر دو دو مریض پٹرے ہیں ۔چوہے اور بلیاں معصوموں کو ہیپتالوں میں نوچ رہی ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔بے روزگاری کے ہاتھوں لوگ خودکشیاں کر رہے ہیں اور ہمارے حکمران موٹر وے اور میٹرو جیسے بڑی لاگت کے پروجیکٹوں سے بھاری کمیشن لے کراپنے خرانے تو بھر رہے ہیں لیکن عوام دو وقت تو دور کی بات ایک وقت کی روٹی سے بھی لاچار ہو چکے ہیں۔میاں برادران یہ بتائیں کہ انہوں نے ملک میں ا ب تک روزگار کے کتنے ذرائع پیدا کیے ہیں اور عام آدمی کے لیے سوائے کھوکھلے نعروں کے کیا دیاگیا۔حال ہی میں حکومت نے سی این جی نام کی حد تک صارفین کے لیے کھول تو دی گئی ہے لیکن صرف ان سی این جی مالکان کے لیے جہنوں نے ۲۰ لاکھ بطور ایڈوانس جمع کروائے ہیں۔ایک اور ڈرامہ جو سرکار نے سی این جی صارفین کے ساتھ کیا ہے وہ یہ ہے کہ پہلے سی این جی فی کلو فروخت ہوتی تھی اب فی لیٹر کر دی گئی ہے جس سے سی این جی کا ریٹ کم ہوا ہے تاکہ صارفین کو یہ محسوس ہو کہ سی این جی کم نرخوں پر فروخت ہو رہی ہے جبکہ حقیت میں گیس کی ترسیل میں پیمانے کی ہیرپھیرکا ڈھونگ رچاکر صارفین کے ساتھ دھوکہ کیا جا رہا ہے۔ حال یہ ہے کہ گوجر خان سے راولپنڈی تک صرف دو سی این جی پمپ کھولے گئے ہیں جہاں گاڑیوں کی قطاریں ہی ختم نہیں ہو رہیں۔ رمضان کی آمد آمد ہے مہنگائی کا جن حسب سابق بوتل سے باہر نکل آیا ہے۔منافع خور تاجر بھی اس رمضان کے مہینے کی نسبت خوب منافع کما رہے ہیں۔ اس ملک کی بدقسمتی کہ اقتدار کی لونڈی ہمیشہ ڈاکووں اور لٹیروں کے ہاتھ ہی رہی جو بھی آیا اس نے عوام کو سنہرے سپنے دکھائے اور ملک کو لوٹ کر بیرون ملک اپنے اثاثوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا یہ پاکستان کی بدنصیبی ہے کہ اس کہ معاشی حالت روز بروز ابتر ہوتی جا رہی ہے جبکہ حکمرانوں کے اثاثے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں ہماری بیوروکریسی میں سے فرض شناس اور ایمان دار افسران کوخریدنے کی کوشش کی جاتی ہے جو ۳۵ پنکچر لگا دے وہ نواز دیا جاتا ہے جبکہ جو نہ بکے اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔

ابھی کل ہی ایک افسوس ناک خبر سنی کہ منی لانڈرنگ سکینڈل میں ملوث ماڈل ایان علی کوگرفتار کرانے اور اس کے قبضے سے لاکھوں ڈالر برآمد کرانے والے ایماندار اور فرض شناس کسٹم انسپکٹر چوہدری اعجاز کو راولپنڈی میں انکے گھر میں گھس کر قتل کر دیا گیا ہمارے حکمران ایمان دار افسران کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ کچھ کریں جو ان کو اوپر سے حکم صادر کیا جاتا ہے ورنہ وہ زندگی سے بھی محروم کر دیے جائیں گے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پشتر واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر آج تک مقتول کے قاتلوں کا سراغ تک نہ مل سکا۔ اب کی بار بھی حسب روائیت ہوتا رہے گا۔ اور ہم چند دن ماتم کر کے خاموش ہو جائیں گے اور ہمارے حکمران ایک نیا ایشو کھٹرا کر کے میڈیا کی توجہ دوسری طرف کر دیں گے جس طرح صولت مرزا کیس میں اہم انکشافات کے بعد نہ کسی کو پکڑا گیا اور نہ کسی کا احتساب ہوا۔ اسی طرح کراچی بلدیہ ٹاون کا واقعہ بھی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا۔ بدقسمتی سے ہماری قوم کا حافظہ اتنا کمزور ہے کہ وہ ہر واقعہ کو جلدہی بھلا دیتی ہے جسکا فائدہ حکمران بھرپور طریقے سے اٹھاتے ہیں۔ان بھول بھلیوں میں عوام کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ حکمران کس طرح یوٹرن لے کردوبارہ منظم طریقے سے عوام کو بیوقوف بنا لیتے ہیں۔
Shahzad Hussain Bhatti
About the Author: Shahzad Hussain Bhatti Read More Articles by Shahzad Hussain Bhatti: 180 Articles with 151299 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.