برے خیالات ۔۔۔۔۔چھوڑ جائیں ساتھ

خیالات وہ چیز ہیں جو کہ ہر ایک کے پاس وافر موجود ہوتے ہیں خواہ آپ کا تعلق کسی بھی رنگ و شعبہ سے کیوں نہ ہو۔۔۔خیالات کا دماغ میں آنا در حقیقت کوئی بری بات بالکل نہیں ہے۔۔۔ خیالات دو اقسام کے ہوتے ہیں اچھے بھی اور برے بھی۔

بات یہ ہے کہ آپکے دماغ کو پتہ نہیں ہوتا کہ اچھے ونسے والے ہیں جنکو سنبھال کر رکھنا ہے اور برے کون سے ہیں جنکو آ کر دماغ سے گزر جانے دیں۔ زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے بھی خیالات کا ساتھ نبھائے بغیر گزارا ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ آج جو بہت سی ایجادات ہیں جن سے ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں وہ پہلے کبھی نہ کبھی کسی کاخیال ہی تھیں۔
۱۔ دماغ ایک نییوٹرل فرد ہے یہ کبھی بھی بزات خود یہ جانچ نہیں سکتا کہ جو خیال اسکے اندر آرہا ہے یہ اچھا ہے یا برا ہے اسکو سوچنا جاری رکھنا ہے یا نہیں ہے۔
انسان خود جانچتا اور جانتا ہے کہ خیال اچھا ہے یا نہیں ہے اسسکو اپنے اندر سے نکالنا ہے یا نہیں ۔ سو اگر ایک خیال آپکو خوشی دے رہا ہے کام کرنے کی ہمت بندھا رہا ہے۔ آپکو زنگی میں کار آمد بنا رہا ہے تو ظاہر ہے خیال اچھا ہے اسکو جاری رکھنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اسکو مستقل دماغ میں رکھنا آپکے حق میں اچھا اور بہترین رہے گا۔
اگر ایک خیال تکلیف دہ ہے زندگی تنگ اور مسسائل بڑھانے کا سبب ہے تو یہ خیال برا ہے اور اسکو دماغ میں نہ رکھنا یقینی طور پر ضروری ہے۔
۲۔ انسان کے دماغ سے خیالات کبھی بھی نکلتے نہیں ہیں۔ یہ خیالات خود بخود ہی دماغ میں وارد ہوتے رہتے ہیں اور بنتے، مٹتے، الجھتے، سمٹتے رہتے ہیں۔ خیالات کو نہ روکا جا سکتا ہے نہ ٹوکا جا سکتا ہے ۔ انکو صرف بدلا جا سکتاہے۔ خیالات اپنی جگہ موجود رہیں گے اور اپنا کردار نبھاتے رہیں گے۔ خیالات ا آنا ہی انسان میں زندگی کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔
وہ خیالات جو اچھے محسوسات نہیں دیتے انکو بدل کر انکی جگہ نئے خیالات کو جگی دینے کا وقت ہے جو کہ اپنے ساتھ اچھے محسوسات بھی لا سکیں۔
۳۔ جس طرح کے خیالات پر آپ فوکس اور دماغی انرجی لگاتے ہیں اسی طرح کے خیالات آپکےدماغ میں آنے لگتے ہیں ۔ آپ سوچیں شہر کے حالات کس قدر برے ہیں۔۔۔۔۔ایک ایک کر کے شہر کے خراب حالات کے حوالے سے خبریں آپکے دماغ میں قدم رکھنے لگیں گی۔
آپ سوچیں ملک میں کرپشن بڑھتی جارہی ہے ایک ایک کر کے کرپشن کے واقعات آپکے دماغ میں سمانے لگیں گے۔
آپ سوچیں لوگ کتنے بے وفا ہیں بے وفائیوں کے لاتعداد قصے آپکو سنائی دینے لگیں گے۔
ایک خیال جب آتا ہے تو اکیلا نہیں آتا اپنے ساتھ خیالات کا ایک جھرمٹ بھی لے کر آتا ہے۔
ہمیشہ یہ سسوچیں کہ آج ملک میں کتنے لوگ صیح سلامت اپنے گھروں کو پہنچے مطلب جزوی خراب حالات کے ساتھ امن بھی تو ہے۔ ملک میں کہیں نہ کہیں ترقی کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔
جب اچھا سوچ سکیں گے تو اچھے خیالات کا جھرمٹ چلا آئے گا۔
۴۔ انسان کا دماغ کبھی بھی لفظ نہی کو پروسیسی نہیں کر سکتا اسکی وجہ یہ ہے کہ دماغ الفاظ پر غور کرتا ہے اور الفاظ کے مطابق عمل کرتا ہے۔

اسی لئے اگر کہا جائے نیلے رنگ کے بارے میں نہ سوچیں تو انسان نیلے رنگ کے بارے میں سب سے پہلے سوچتا ہے۔ اگر کہا جائے جنک فوڈ نہ کھائیں تو سب سے پہلے جنک فوڈ کی تصویر اور اسکے ساتھ جڑا مزہ ذہن میں در آتا ہے۔

وجہ صرف یہی ہے کہ جس بارے میں انسان کو راغب کرنا ہو انسٹرکشن بھی وہی دی جانی چاہیئیں۔ اب ہم خود کو برا اور منفی سوچنے سے بچانے کے لئے یہی کہتے ہیں کہ برا نہ سوچو جبکہ انسان کو جو خیالات اچھے ہوں انکو سوچنا شروع کر دینا چاہئے برے خیالات خود بخود دم توڑ دیتے ہیں۔
۵۔ مسئلہ یہ ہے کہ آج کی زندگی اتنی افرا تفری سے بھرپور ہے کہ انسان کے لئے یہ سوچنا اب ممکن نہیں رہا کہ وہ سوچ کو ہمیشہ اچھی رکھ سکے۔ اسکا کلیہ یہ ہے کہ تنگی اور ٹینشن دینے والی سوچوں کو سوچنے کے لئے باقاعدہ ایک وقت مقرر کر لیا جائے اور صرف اسی مخصوص وقت پر ٹینشن زدہ سوچوں کو خوب اچھی طرح سے غورو فکر ے ساتھ سوچ لیا جائے اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ باقی کام کاج کے اوقات میں یہ سوچیں آپکو تنگ نہیں کریں گی اور آپ کا دماغ دوسری باتوں پر فوکس کرنے کے قابل ہو جائے گا۔
رات کو سونے سے پہلے اچھی طرح ٹہل ٹہل کر، صبح سویرے واک کے لئے جاتے ہوئے، تنہائی میں کچھ دیر کے لئے لوگوں سے کٹ کر انسان ایک دفعہ تنگ کرنے والی سوچوں کو خوب اچھی طرح تنگ کر لے تو تسلی ہو جاتی ہے۔
۶۔ جو سوچیں بہت ذیادہ تنگ کریں انکو کا غز پر لکھ کر پہلے ایک دفعہ پھر دوسری دفعہ پڑھ لیا جائے تو انسان کو بے حد تسلی ہو جاتی ہے اور انسان کے لئے ان سے جان چھڑانا ممکن ہو جاتا ہے۔ کاغز پر لکھی سوچ دماغ سے باہر کاغز پر جو آجاتی ہے۔
۷- ہمارا معاشرہ اور اس میں رہنے والے لوگ بہت کم اچھے الفاظ اور روِیے کی اہمیت کو جانتے ہیں سو دوسروں کو تنگ کرنا ذیادہ محبوب مشغلہ ٹھہرتا ہے۔ اسی لئے اکثر برے رویوں کو دیکھتے ہوئے اپنا رویہ بھی رد عمل کے طور پر برا ہونے لگتا ہے۔
سب سے پہلے تو اپنا رویہ اچھا رکھنے کے لئے اپنے اندر چلنے والی بات چیت جو کہ اکثر غصیلی اور بہت تنگی دینے والی ہوتی ہے اسکو روکئے اور جب بھی اندر چلتی جنگ شروع ہو تنہائی میں جاکر اسکو لڑ کر کر ختم کریں اور بعد میں جب وقفے وقفے سے اندر سر ابھارے تو اس کو بطور مشغلہ اور غصہ جاری رکھنے کی بجائے سکون سے کچھ اچھا سوچیے۔
۸۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ دماغ آپکو سوچ کی صورت میں لوٹا تا وہی کچھ ہے جو کہ آپ اسکے اندر ہمیشہ ڈالتے آتے ہیں۔ ہمارے ہاں اب بزرگوں کی صحبت میں بیٹھنے ٹیچرز کے پاس بیٹھنے کا کلچر قریب ختم ہے اسی طرح اب اچھی کتابیں پڑھنے کا لوگوں کے پاس وقت نہِں۔ اچھی سبق آموز ویڈیوز یا لیکچرز کا رواج بھی کم ہو رہا ہے۔
اسی وجہ سے دماغ کے پاس بھی پروسیسینگ کے لئے تکلیف دہ اور تنگی والے خیالات ہی ہوتے ہیں۔ دماغ کو خالی چھوڑا جائے اور کام کاج بھی نہ کیا جائے پھر شکایت کی جائے کہ محسوسات اچھے نہیں وجہ ظاہر ہے کیونکہ خیالات اچھے نہیں۔
۹۔ ایکسرسائز کا سب کو یقین ہوتا ہے کہ جسمانی فٹنس کے لئے بنائی گئی ہے جبکہ ایکسرسائز جسم سے بھی ذیادہ دماغی فٹنس کے لئے کام کرتی ہے سو اکسرسائز اور واک ضرور کریں تو آُپکو خود بھی اچھا محسوس ہوگا بلکہ دماغ کو آپ سے ذیادہ اچھا لگے گا۔
کیونکہ ہمارے دماغ میں نئے خلیات پیدا ہوتے رہتے ہیں انکو استعمال میں لانے اور ایکٹو رکھنے کے لئے ایکسرسائز ضروری ہوتی ہے۔
۱۰۔ برا سوچنا آسان ہے اور ہمارے معاشرے میں عادت بھی اسی کی ڈالی جاتی ہے۔

اچھا سوچنا مشکل کام ہے اور اسکو پریکٹس کرنا بھی چیلنجنگ ہوتا ہے۔

اچھی سوچ کو پریکٹس کے بعد لگاتار کوششوں سے جاری رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

سوچیں اور خیالات مل کر محسوسات کو جنم دیتی ہیں اور محسوسات رویے میں جھلکتے ہیں۔ رویہ آُپکے عمل کو اور آپکا عمل آپکی شخصیت کو بناتا ہے اگر سوچ اچھی تو شخصیت بھی یقینی اچھی۔
sana
About the Author: sana Read More Articles by sana: 231 Articles with 293076 views An enthusiastic writer to guide others about basic knowledge and skills for improving communication. mental leverage, techniques for living life livel.. View More