نئی گریٹ گیم، ایک نئی امید

 جب تک یہ نہیں ہو تا، جب تک وہ نہیں ہو تا، یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔کرپشن ہے، بد امنی ہے، فلاں خرابی ہے، فلاں خرابی ہے، یہ ہونا چاہیے ، وہ ہونا چاہیے۔ یہ ہیں وہ باتیں جو میں اکثر سیمیناروں، کانفرنسوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات کے میٹینگ میں سنتا رہتا ہوں، ہر کوئی دوسروں کو ٹھیک دیکھنا چا ہتا ہے، بعض حضرات تو وطنِ عزیز سے متعلق ایسی ایسی باتیں کر جاتے ہیں جیسے خدا نخواستہ یہ ملک ٹوٹنے والا ہے۔حالانکہ ایسا با لکل نہیں ہے۔بے شک ہمارا ماضی ایسا نہیں، جس پر ہم فخر کر سکیں، ہماری قومی لیڈر شِپ ایسی نہیں ،جس پر عوام کا مکمل اعتماد ہو، ہم نے بحیثتِ قوم بہت کچھ کھو یا ہے ، پایا نہیں۔مگر اس کے باوجود مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی ذات اس ملکِ خداداد پر ہماری بے شمار غلطیوں کے باوجود نہایت مہربان ہے۔اﷲ تعالیٰ کی ذات نے نہ صرف اس ملک کو بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے بلکہ ہمیں بار بار ایسے مواقع عطا کر رہا ہے جس سے فا ئدہ اٹھا کر ہم اپنے ملک کو اوجِ ثرّیا تک پہنچا سکتے ہیں۔

ایسا ہی ایک موقعہ اب ہمارے سامنے ہے، دنیا میں جو گریٹ گیم چل رہی تھی، جس میں بڑا کھلاڑی امریکہ تھا۔ وہ گیم اب آ خری سسکیاں لے رہی ہے اور ختم ہو نے کو ہے اس کی جگہ ایک نئی گریٹ گیم معرض ِوجود میں میں آچکی ہے۔اگر ہماری قومی قیادت دور اندیشی، اخلاص اور ذہانت کا ثبوت دے تو یقینا یہ نئی گریٹ گیم پاکستانی قوم کے لئے بہت بڑی خوشخبری ثابت ہو سکتی ہے۔

یاد رہے انیسویں صدیمیں ایک انگریز مصنف ’کپلنگ ‘ نے ’ دی گریٹ گیم ‘ کی اصطلاح کو اپنی ایک کتاب میں متعارف کرایا تھا۔ بعد ازاں یہ اصطلاح دنیا بھر میں مشہور ہو ئی۔ دی گریٹ گیم سے مراد مشرقی ایشیائی ریاستوں پر قبضہ جمانے کے لئے ایسے حیلوں اور حربوں کا وہ کھیل تھا جو سلطنت بر طانیہ اور روس کے درمیان سیاسی اور سٹر یجک رقابت کے بعد شروع ہوا تھاْ اس وقت بر طانیہ کو یہ خطرہ تھا کہ روس کہیں زیرِ تسلط ہندوستان پر حملہ کر کے قبضہ نہ کر لے۔ آج متعدد دہائیوں کے بعد ایک مر تبہ پھر عالمی طاقتوں کی نظریں اسی خطے ُر مرکوز ہیں اور اس خطے میں سیاسی اثر و رسوخ اور معا ہدوں کا کھیل جاری ہے ۔یہ کھیل جغرافیائی وسعت کے بجائے قدرتی وسائل پر قبضے کا کھیل ہے ۔ عالمی طا قتوں کی نظر ایشیائی ریا ستوں میں پائے جانے والے پٹرولیم اور اور قدرتی گیس کے ذ خائر پر لگی ہو ئی ہے ، جن کو ابھی تک استعمال میں نہیں لایا گیا ۔پہلے پہل یہ گیم روس اور فر نگیوں کے درمیان کھیلا جا رہا تھا مگر بر صغیر کی تقسیم کے بعد اس گیم کے کھلاڑی بدل گئے اور بر طانیہ کی جگہ امریکہ نے لے لی ۔افغانستان میں ایک طویل عرصہ قیام کے باوجود ناکامی اس کا منہ چڑا رہی ہے -

اب ایک ’ نئی گریٹ گیم ‘ کی ابتداء ہو چکی ہے، چین اس کا بڑا کھلاڑی ہے مگر اس کھیل میں پاکستان ایک بہت بڑا beneficiaryہو سکتا ہے بشر طیکہ پاکستان کی قومی قیادت عقل کے ناخن لے ۔چین ہمارا دیرینہ اور قابلِ اعتماد دوست ہے۔

واضح رہے کہ اس کھیل میں چونکہ بھارت، ایران، افغانستان بھی سر گرم کھلاڑی ہیں اس لئے زیادہ احتیاط اور اور دور اندیشی کی ضرورت ہے۔ وسطی ایشیا میں چو نکہ تجارت کے بے پناہ مواقع موجود ہیں ، یہاں کے معدنی وسائل سے اب سارے کھلاڑی حصہ بہ قدرِ جثہ لینے کے متمنی ہیں۔افغانستان میں تانبے اور لیتھیئم کے ذخائر ہیں، روس سے آزاد ہو نے والے ریاستوں میں تیل اور گیس کے ذخائر ہیں اور بلو چستان میں معد نیات کے ذخائر پر لگی گریٹ گیم کے فریقین کی نظریں اب کو ئی پو شیدہ امر نہیں۔ ان ذخائر کو نکالنے، ان سے مصنوعات تیار کرنے، مصنوعات کو فروخت کرنے اور مال کمانے تک کے عمل کو ہم نئی گریٹ گیم کا نام ہی دیں گے،اس گریٹ گیم میں بھارت کی مکارانہ کردار کو نظر انداز نہیں کرنا چا ہیے۔ بھارت کی کو شش ہو گی کہ کسی طرح پاکستان کو اس گیم سے مستفید ہو نے کا مو قعہ نہ ملے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اطلاع کے مطابق بھارت نے اس نئی گریٹ گیم کے لئے باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا ہے۔

اس گریٹ گیم میں شامل دیگر کھلاڑیوں نے اپنی تیاریاں مکمل کر لی ہیں مگر خطے کے بعض ممالک ایسے بھی ہیں جن کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ انہوں نے کرنا کیا ہے اور کچھ کرنا بھی ہے تو کیسے کرنا ہے۔ گو مگو کی اس کیفیت میں مبتلا ممالک میں شاید سر فہرست پاکستان ہے جس کی خارجہ پالیسی بے یقینی کا شکار ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہماری قومی قیادت نہایت دور اندیشی، تدبر اور عقل و فہم سے کام لے کیو نکہ یہ گریٹ گیم قوموں کے درمیان تدبر، تحمل، دور اندیشی اور منا فقت سے بھر پور ایک ایسا کھیل ہے جس کی وجہ سے بعض ممالک کے جغرافیائی حدود بدلنے ، ملک سکڑنے یا پھیلنے کا امکان بھی ہے۔خوش قسمتی سے پاکستان کی جغرافیائی پو زیشن اس نئی گریٹ گیم میں بہت زیادہ اہمیّت کا حامل ہے ، جبکہ چین اس گریٹ گیم کا سب سے بڑا کھلاڑی ہے ،کاشغر، گوادر روٹ اس گریٹ گیم کی ابتداء ہے ، اگر ہماری قومی قیادت نے ذہانت اور تد بر کا ثبوت دیا تو اس سے پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315626 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More