ائے رے یہ بڑبولا پن!
(Suhail Anjum, New Delhi)
مرکز کی نریندر مودی حکومت
بڑبولے پن کے جس مرض میں مبتلا ہے اگر اس نے اس کا علاج نہیں کروایا تو وہ
مرض الموت میں بھی بدل سکتا ہے۔ ۶۵ انچ سینے کی نمائش کی دیوانگی یہاں تک
پہنچ گئی کہ اب محرم اور غیر محرم کی بھی کوئی تمیز باقی نہیں رہی۔ اس
سفارتی اخلاقیات کا بھی جنازہ نکل گیا کہ کس بات کو عام کرنا ہے اور کس کو
نہیں۔ کسے پردہ راز میں رکھنا ہے اور کس کا ڈھنڈورا پیٹنا ہے، یہ تمیز بھی
ختم ہو گئی۔ ہر چیز کی مارکیٹنگ اور برانڈنگ کا جذبہ اگر یوں ہی سودے کی
مانند سر میں سمایا رہا تو اس کے خطرناک اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور اس سے
زبردست نقصانات اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی حلف
برداری کی تقریب میں پاکستان سمیت تمام سارک ملکوں کے سربراہوں کو مدعو
کرکے جو نیک نامی کمائی تھی اس کے اثرات تقریباً زائل ہو چکے ہیں۔ بلکہ ایک
تازہ معاملے میں تو نیک نامی کی جگہ پر بدنامی کا ٹھپہ لگتا نظر آرہا ہے۔
سب سے پہلے یہ وضاحت ضروری ہے کہ اپنی علاقائی سا لمیت اور اقتدار اعلیٰ کا
تحفظ کرنا ہر ملک اور ہر حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر اسے کوئی بیرونی خطرات
لاحق ہیں تو اسے اس کا پورا اختیار ہے کہ وہ اس خطرے کا قلع قمع کرے۔ اگر
دوسرے ممالک کی سرزمین سے خطرات پیدا کیے جاتے ہیں تو ان سے بھی نمٹنے کا
اختیار ہر ملک کو ہے۔ لیکن کوئی بھی ملک اگر کسی دوسرے ملک کی سرحد کے اندر
داخل ہو کر اپنے دشمنوں کا صفایا کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ
اس ملک کے ساتھ اس کا ایسا معاہدہ ہوا ہو۔ ابھی چند روز قبل میانمار کے
اندر داخل ہو کر ہندوستان کی اسپیشل فورسز نے جو کارروائی کی ہے وہ حق
بجانب ہے اور ایسی ہر کارروائی کی حمایت کی جانی چاہیے۔ پورا ملک اس
کارروائی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسپیشل فورسز نے رپورٹوں کے مطابق کئی کلومیٹر
میانمار کے اندر داخل ہو کر اور وہاں کی افواج کے تعاون سے این ایس سی این
کے، کے دو کیمپوں کو تباہ کر دیا اور متعدد دہشت گردوں کو ہلاک اور کئی کو
زخمی کر دیا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سرجیکل آپریشن میں ایک بھی
ہندوستانی فوجی زخمی نہیں ہوا۔ سب صحیح سلامت واپس آگئے۔ اس کارروائی سے
قبل قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے منی پور میں قیام کر کے انٹلی جنس
ایجنسیوں کی رپورٹوں کا مطالعہ کیا، ان کا جائزہ لیا اور انٹلی جنس
ایجنسیوں اور اسپیشل فورسز کے مابین رابطہ کاری کی۔ تاکہ یہ آپریشن کامیابی
کے ساتھ پایہ تکمل تک پہنچ جائے۔ اس کی وجہ سے وہ وزیر اعظم کے ہمراہ بنگلہ
دیش کے دورے پر نہیں گئے۔ وزارت خارجہ نے بھی اس معاملے میں اہم رول ادا
کیا۔ وزیر خارجہ سشما سوراج نے گزشتہ سال دورہ میانمار کے موقع پر وہاں
روپوش شورش پسندوں کا مسئلہ اٹھایا تھا اور ان کے خلاف کارروائی میں وہاں
کی فوج سے تعاون مانگا تھا۔ انھیں تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ اجیت
ڈوبھال ایک بار پھر میانمار جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔
لیکن اس کارروائی کے بعد جس انداز میں اسے پیش کیا گیا یا کیا جا رہا ہے وہ
قابل خیر مقدم نہیں ہے۔ پہلے وزیر اطلاعات و نشریات راجیہ وردھن سنگھ
راٹھور نے اور اس کے بعد وزیر دفاع منوہر پریکر نے جو بیانات دیے وہ غیر
دانشمندانہ تھے۔ راٹھور نے کہا کہ یہ واقعہ پاکستان سمیت ان تمام ملکوں اور
گروہوں کے لیے ایک پیغام ہے جہا ںہند مخالف دہشت گردانہ خیالات رکھنے والے
موجود ہوں۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک پیغام تو تھا لیکن پاکستان کا نام لینے کی
کوئی ضرورت نہیں تھی۔ گویا وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہم چاہیں تو پاکستان
کے اندر بھی گھس کر ایسی کارروائی کر سکتے ہیں۔ اس بیان پر پاکستان میں
شدید رد عمل ہوا اور جہاں سیاست دانوں نے ہندوستان کے خلاف سخت زبان اور لب
و لہجے میں بات کی وہیں وہاں کے صحافیوں اور دوسرے قلم کاروں نے بھی
ہندوستان کے خلاف زہر افشانی کی۔ کسی نے کہا کہ ہندوستان اس لائق نہیں ہے
کہ اس کے ساتھ دوستانہ رشتے قائم کیے جائیں۔ کسی نے کہا کہ ہندوستان کسی
غلط فہمی میں نہ رہے۔ پاکستان میانمار نہیں ہے۔ کسی نے کہا کہ ہم بھی ایٹمی
قوت کے مالک ہیں اور ہم منہ توڑ جواب دینا جانتے ہیں۔ کسی نے کہا کہ
پاکستان نے ایٹم بم شب برات میں پھلجھڑیاں چھوڑنے کے لیے نہیں بنائے ہیں۔
کسی نے نریندر مودی کو ”نریندر موذی“ لکھا اور کسی نے حکومت پر دو دو ہاتھ
کرنے کا دباؤ ڈالا۔ اس طرح اس انتہائی کامیاب آپریشن کے بعد ہندوستان اور
پاکستان کے رشتوں میں ایک بار پھر تلخی پیدا ہو گئی اور میانمار بھی جزبز
ہو رہا ہے۔ رپورٹوں کے مطابق ہندوستان نے میانمار کے اندر جا کر کارروائی
کی جبکہ میانمار نے اس کی تردید کی ہے۔ اس نے کہا کہ ہندوستانی افواج نے
اپنی سرحد کے اندر ہی کارروائی کی اس کی سرحد کے اندر نہیں۔ اس طرح یہ ایک
اچھا آپریشن متنازعہ بن گیا۔ یہاں ہندوستان میں بھی شدید رد عمل دیکھنے کو
مل رہا ہے۔ کانگریس نے ان بیانات پر سخت نکتہ چینی کی ہے اور کہا ہے کہ یہ
بیانات شیخی بگھارنے والے اور جنگجویانہ ہیں۔ کانگریس کے ترجمان اور سابق
وزیر آنند شرما نے وزیر اعظم سے اپیل کی کہ وہ اپنے وزرا کو سنبھالیں اور
ان کی کونسلنگ کریں تاکہ وہ ا س قسم کے بیانات نہ دیں۔ انھوں نے تو یہاں تک
کہا کہ ’منوہر پریکر منہ کی کھانے کی بیماری میں مبتلا ہیں اور متنازعہ
بیان دینا ان کی عادت ہے۔ اس سے ماحول خراب ہوگا‘۔ انھوں نے پاکستان کی
جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہماری کارروائی سے خوف زدہ ہونے والے رد
عمل ظاہر کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس قسم کے بیانات اور تقریروں
سے ماحول خراب ہوتا ہے۔ اس سے قبل بھی ہندوستانی افواج نے دوسرے ملکوں
میںکارروائی کی ہے لیکن کبھی ایسا ڈھنڈھورا نہیں پیٹا گیا جیسا کہ اس بار
پیٹا جا رہا ہے۔
در اصل یہ سب کچھ ہر چیز کا ضرورت سے زیادہ پروپیگنڈہ کرنے کی ذہنیت کا
نتیجہ ہے۔ شاید حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اپنے کاموں کی خوب تشہیر کرنے سے
انتخابات کے وقت اس کی جو امیج بنی ہوئی تھی وہ قائم رہے گی۔ اس کا ایک
مقصد یہ بھی ہے کہ عوام کو یہ باور کرایا جاتا رہے کہ یہ حکومت بہت کام
کرتی ہے۔ وزیر اعظم خود اپنی تقریروں میں یہاں تک کہ غیر ملکی سرزمین پر
بھی یہ بات کہنے سے نہیں چوکتے کہ وہ کام کرنے والے وزیر اعظم ہیں اور وہ
چوبیس گھنٹے میں اٹھارہ بیس گھنٹے کام کرتے ہیں جس کی وجہ سے انھیں تنقید
کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ کام کرنے کی وجہ سے کسی نے ان پر نکتہ
چینی نہیں کی۔ واقعہ یہ ہے کہ کام کرنے والے پرچار نہیں کرتے۔ ان کا کام
خود ہی گواہی دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ مشک خود خوشبو دیتا ہے وہ
عطار کی تشہیر کا محتاج نہیں ہوتا۔ بہرحال حکومت کے اس رویے سے جہاں اندرون
ملک اس کی سبکی ہو رہی ہے وہیں بیرون ممالک بھی اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھا
جا رہا ہے۔ بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال
ہے کہ اس سے عالمی سطح پر ہندوستان کی امیج کو دھچکہ لگا ہے اور میانمار کے
ساتھ اس کے رشتے پر برا اثر پڑا ہے۔ یہ روایت رہی ہے کہ ہر ملک اپنے دوست
ملک کی مدد کرتا ہے لیکن وہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ اس کی سرزمین پر دوسرے
ملک کے ذریعے کی جانے والی کارروائی کا پروپیگنڈہ کیا جائے۔ اس سے اس ملک
کی بدنامی ہوتی ہے۔ ہندوستان نے اس نزاکت کو نہیں سمجھا اور محض پاکستان کو
زچ کرنے کی خاطر دو دو وزرا نے ایسے بیانات دیے جو ان کی پوزیشنوں کے مطابق
نہیں تھے۔ ان بیانات کے بعد کنٹرول لائن پر سرگرمیاں بڑھ گئی ہیں اور
پاکستان کی جانب سے سیز فائر کی خلاف ورزی کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ وہ سیز
فائر کی خلاف ورزی بھی کر رہا ہے اور اس کا الزام ہندوستان پر عاید بھی کر
رہا ہے۔ ہند مخالف بیانات کے تسلسل میں کشمیر کا مسئلہ بھی پاکستان نے چھیڑ
دیا ہے اور ان معاملات کو بین الاقوامی پلیٹ فارموں پر اٹھانے کی بات بھی
کی جا رہی ہے۔پاکستان کے چراغ پا ہونے کی ایک وجہ وزیر اعظم کے بنگلہ دیش
دورے کے دوسرے روز کی جانے والی تقریر بھی ہے۔ جس میں انھوں نے ۱۷۹۱ کی جنگ
میں پاکستان کی نوے لاکھ فوجوں کے ہتھیار ڈالنے کا حوالہ بھی دیا۔ پاکستان
اب اس معاملے کو یہ کہہ کر بین الاقوامی فورموں پر اٹھانے کی بات کر رہا ہے
کہ ہندوستان نے پاکستان کو توڑنے کا اعتراف کر لیا ہے۔ اس طرح موجودہ حکومت
نے اپنے تشہیری مزاج کی وجہ سے اپنی پوزیشن خراب کر لی ہے۔ اس کو سدھارنے
میں اب کافی وقت لگے گا۔ |
|