چیئرمین کشمیر کونسل یورپی یونین سے ایک عشائیے میں ملاقات

کشمیر کونسل یورپی یونین کے چیئرمین علی رضا سید نے مسئلہ کشمیر سے متعلق ایک ایسی حقیقت بیان کی ہے جس پر ریاست جموں و کشمیر کے ان افراد کی طرف سے یقین کرنا ذرا مشکل ہو گا جو بھارتی مقبوضہ کشمیر نہیں گئے اور نہ ہی وہ کشمیریوں کے عزم آزادی سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ایک صحافی دوست عامر محبوب اکثر بیرون ملک سے آنے والی، آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والی مختلف شخصیات کے اعزاز میں دعوت کرتے ہوئے چند صحافی دوستوں کی محفل بھی سجا لیتے ہیں۔ان محفلوں میں مسئلہ کشمیر کے مختلف پہلوئوں،حالات حاضرہ، آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کے حالات و واقعات اور دیگر موضوعات پر بات ہوتی ہے۔چند روز قبل کشمیر کونسل یورپی یونین کے چیئرمین علی رضا سید کے اعزاز میں عامر محبوب نے دعوت دی تومسئلہ کشمیر کے مختلف حوالوں پر اہم گفتگو کا ایک موقع میسر آ گیا۔
کشمیر کونسل یورپی یونین کے چیئرمین علی رضا سیدکا کہنا تھا کہ کسی بھی کاز کا کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ مالی طور پر خود مختار ہوں،ورنہ آپ کی رائے اور کوششیں کسی کے تابع ہو جاتی ہیں۔آزاد کشمیر کے ضلع میر پور سے تعلق رکھنے والے علی رضا سید چیئرمین کشمیر کونسل یورپی یونین نے یہ اہم انکشاف کیا کہ عالمی سطح پر یہ بات سمجھی جا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کسی صورت ختم ہونے والی نہیں ہے ،بھارت کسی بھی طریقے سے کشمیریوں کی اس جدوجہد کو ختم نہیں کر سکتا اور مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی جاری رہے گی۔ علی رضا سید نے بتایا کہ خود بھارت بھی مغربی ملکوں میں یہ تسلیم کر رہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی بھارت کے خلاف آزادی کی جدوجہد کو ختم نہیں کیا جا سکتا،یہ جاری رہے گی۔

علی رضا سید سے چند روز قبل شائع اس خبر کے بارے میں استفسار کیا گیاجس میں بتایا گیا تھا کہ امریکہ نے ان کے امریکہ کا سفر کرنے پر پابندی عائید کر دی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اصل میں یہ پابندی دو سال قبل اس وقت لگائی گئی جب وہ کینڈا سے امریکہ جانے والے تھے۔کینڈا سے امریکہ جانے والوں کی امیگریشن کینڈا ایئر پورٹ پر ہی ہو جاتی ہے، وہ جہا ز پر سوار ہوئے تھے کہ انہیں جہاز سے اتار کر کافی دیر سوالات کرنے کے بعد امیگریشن افسر کے ذریعے یہ پابندی لگا دی گئی۔ علی رضا سید نے بتایا کہ انہوں نے متعلقہ حکام کو خطوط بھی لکھے اور ایسی ہی کوششوں میں امریکی رکن پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ ایسا ایک دوست ملک کی درخواست پر کیا گیا ہے،جبکہ علی رضا سید کو اس پابندی کی کسی وجہ سے آگاہ نہیں کیا گیا۔یوں یہ بات واضح ہے کہ امریکہ کا وہ کون سا دوست ملک ہے جسے علی رضا سید کی کشمیر کاز کے لئے کوششوں پر تکلیف ہے۔یہ واقعہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ چیئرمین کشمیر کونسل یورپی یونین علی رضا سید کی مسئلہ کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے لئے کی جانے والی کوششیں بھارت کے لئے پریشانی کا باعث ہیں اور یہی بات علی رضا سید کے کشمیر کاز سے اخلاص کا ایک بڑا ثبوت ہے۔اس سوال کہ حکومت پاکستان نے بھارت کے خلاف سفارتی سطح پہ سرگرمیوں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے ،کیا اس حوالے سے یورپ میں کوئی سفارتی سرگرمی نظر آ رہی ہے؟ انہوں نے اس کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہا کہ ہاں سفارتی سرگرمیاں کچھ تیز ہو ئی ہیں۔

اس محفل میں میزبان عامر محبوب کے علاوہ چند صحافی دوست اعجاز عباسی،راجہ کفیل ، امتیاز بٹ ،شہزاد راٹھور،خالد گردیزی ،جاوید چودھری،سردار حمید اور راقم شریک ہوئے۔اعجاز عباسی نے گلگت بلتستان کے نئے آئین/انتظامی آرڈر اور گلگت بلتستان کو باقاعدہ طور پر پاکستان میں شامل کرنے کی کوشش کا نکتہ اٹھایا۔اسی حوالے سے انہوں نے اس بات کی وکالت بھی کی کہ آزاد کشمیر کو بھی پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی ملنی چاہئے۔یہ رائے بھی سامنے آئی کہ اس سے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف اور پوزیشن کو سخت نقصان پہنچے گا اور ان متنازعہ خطوں کی حیثیت کا تحفظ کرتے ہوئے بھی انہیں پاکستان کے صوبوں کے متوازی اختیارات دیئے جا سکتے ہیں۔یہ بات بھی سامنے آئی کہ وفاقی حکمرانوں نے پہلے آزاد کشمیر کی کون سی خواہش پوری کی ہے جو یہ فرمائش پوری ہو جائے گی۔سید علی رضا گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے مستقبل کے بارے میں ہونے والی صحافیوں کی اس گفتگو کو دلچسپی سے سنتے رہے۔ایک رائے یہ بھی سامنے آئی کہ ایسا کرنے سے آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں علیحدہ خود مختار ریاست کے حامیوں کی قوت اور آواز مضبوط ہوگی۔اسی حوالے سے آزاد کشمیر کی انحطاط پذیر ی کی بات بھی کی گئی۔راجہ کفیل نے رائے دی کہ چین کی اقتصادی راہداری کی تعمیر کی وجہ سے بھارت گلگت بلتستان پر متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے چڑھ دوڑنے کو تیار ہے اور اسی لئے گلگت بلتستان پر پاکستان کے اقتدار کو مضبوط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔میز بان عامر محبوب نے کہا کہ اس طرح کی محفلوں میں ہونے والی بات چیت کشمیر کاز کے مختلف عنوانات اور پہلوئوں کے حوالے سے نہایت اہم ہے اور یہ مشق غیر محسوس انداز میں ایک '' تھنک ٹینک'' کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔اچھے کھانے اور اچھے ذائقے کے شوقین شہزاد راٹھور کی نگرانی میں تیار ہونے والا کھانا بھی لذیذ تھا۔اگر آزاد کشمیر،کشمیر سے متعلق صحافیوں،دانشوروں کی ایسی محفلوں کو کوئی باقاعدہ شکل دی جا سکے تو کشمیر کاز کے علاوہ آزاد کشمیر کے مقامی حقوق پر مبنی امور کو بھی تقویت پہنچائی جا سکتی ہے اور آزاد کشمیر کے اضلاع کے درمیان پائی جانے والی مخالفت اور بیزاری کو کم کرنے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 777 Articles with 699299 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More