ملک دشمن این جی اوز کے خلاف راست اقدام
(عابد محمود عزام, karachi)
ان دنوں پاکستان میں این جی اوز
کا معاملہ زیر بحث ہے۔ حکومت پاکستان ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے والی
این جی اوز کی بیخ کنی کا ارادہ کرچکی ہے۔ گزشتہ روز اسی ضمن میں ایک غیر
سرکاری تنظیم ”سیو دی چلڈرن“ پر پابندی بھی لگائی جاچکی ہے ، جبکہ دیگر کے
لیے نئی پالیسی کا اعلان متوقع ہے۔
بہت سی این جی اوز جہاں ایک طرف فلاح و بہبود اور انسانی خدمات سرانجام
دیتی ہیں، وہیں پس پردہ ان کے دیگر گھناﺅنے محرکات بھی ہوتے ہیں اور ملک
میں چیک اینڈ بیلنس اور این جی اوز پر حکومتی کنٹرول نہ ہونے کے باعث ان کے
ذریعے بہت سے سیاسی، سماجی اور مذہبی مقاصد بھی باآسانی حاصل کرلیے جاتے
ہیں۔ ملک میں این جی اوز کی سرگرمیوں پر باقاعدہ نظر رکھنے اور ان کو ملنے
والی ملکی و غیر ملکی رقوم کا آڈٹ کرنے کا کوئی نظام وضع نہیں ہے، جس سے یہ
معلوم نہیں ہوپاتا کہ این جی اوز کو غیر ملکی امدادی اداروں یا حکومتوں سے
امدادی رقوم کہاں سے مل رہی ہیں؟ اور پس پردہ کیا محرکات ہیں؟ یہ این جی
اوز اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں خود کو ہر طرح آزاد سمجھتی ہیں۔ میاں
محمد شہباز شریف کی وزارت علیا کے پہلے دور میں گھناﺅنی سرگرمیوں کی وجہ سے
بعض این جی اوز کو بلیک لسٹ کیا گیا تو حکومت کے اس اقدام کے بعد پاکستان
میں این جی اوز کے ایک وفد نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ببانگ دہل کہا تھا
”ہم حکومت پاکستان کی کسی بھی وزارت یا ادارے کو غیر ممالک سے ملنے والی
ڈونیشنز کا حساب کتاب پیش نہیں کریں گے اور حکومت پاکستان یا ا ±س کا کوئی
ادارہ ہمارا آڈٹ کرنے کا مجاز نہیں۔ یہ اختیار ہمیں ڈونیشنز دینے والی
انٹرنیشنل ڈونر ایجنسیوں ہی کو حاصل ہے۔“
حقائق یہ ہیں کہ ملک میں این جی اوز کو امداد فراہم کر نے والے ادارے ان سے
اپنے مطلوبہ مقاصد کے لیے کام لیتے ہیں۔ این جی اوز کی خاصی تعداد ریسرچ
بیس پروجیکٹس پر بھی کام کرتی ہے، جن کے نتائج امداد دینے والے اداروں
کوفراہم کرتی ہیں، اگر کوئی بھی ادارہ، ملک یا حکومت پاکستان سے متعلق کوئی
ڈیٹا یا کوئی اور معلومات یا اعداد و شمار حاصل کرناچاہتا ہے تو اس کا سب
سے موثر ذریعہ یہ این جی اوز ہوسکتی ہیں، جن کو وہ امداد دے کر بہت سے
اہداف باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔ ملک میں بعض این جی اوز کے کردار سے یہ بات
قطعی واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایک خاص ایجنڈے کے تحت کام کررہی ہیں۔ ایسے نان
ایشوز کو بڑے ایشوز کے طور پر ظاہر کرکے ساری دنیا میں واویلا مچادیتی ہیں
جن سے پاکستانی معاشرہ اور مذہب بدنام ہو یا پھر کسی خاص سیاسی یا قانونی
معاملے پر پروپیگنڈے کے ذریعے غلط تاثر دے کر اس کے حق میں رائے عامہ کو
ہموار کرکے دباؤ کے ذریعے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرسکیں۔ لال مسجد آپریشن،
مختاراں مائی کیس، برقعہ بردار خواتین پر تشدد کی جعلی ویڈیو، شمالی علاقہ
جات میں خواتین کے اغوا اور قتل کا جھوٹ پر مبنی پروپیگنڈہ، تیزاب پھینکنے
کے واقعات پر ڈاکومینٹری فلم اور اس پر آسکر ایوارڈ اور ملالہ یوسف زئی
جیسے لاتعداد واقعات اس کی مثالیں ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ این جی اوز کی ابتدا دوسری جنگ عظیم کے بعد ہوئی، جب دنیا
تباہ حال ہو چکی تھی۔ پاکستان میں این جی اوز کی ابتدا اس وقت ہوئی جب اپنے
قیام کے بعد اسے لاکھوں مہاجرین کو سنبھالنا پڑا اور بہت سے خیراتی ادارے
وجود میں آئے۔جبکہ 1985 کے بعد سے پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں غیر
ملکی فنڈز سے ایسی این جی اوز قائم کی گئیں جن کا ایجنڈا فنڈ اور عطیہ
فراہم کرنے والے ممالک کے ایجنڈے کو محض آگے بڑھاتے ہوئے قومی سلامتی،
اتحاد اور استحکام کی دیواروں میں رخنے پیدا کرنا تھا۔ ایسی این جی اوز
بارے باخبر اور باشعور حلقے برسوں سے انتباہ کرتے چلے آ رہے ہیں کہ پاکستان
میں غیر ملکی این جی اوز کا وجود اور ان کی سرگرمیاں دین مخالف اور وطن
دشمن عزائم و اہداف کی آئینہ دار ہیں۔
آج جب پاکستانی حکومت نے ملک کے مفادات کے پیش نظر این جی اوز پر کڑی نظر
رکھتے ہوئے ان کے خلاف آپریشن کی ٹھانی ہے تو امریکا اور دیگر ممالک کو یہ
برداشت نہیں ہوپارہا اور این جی اوز کے خلاف کارروائی پر امریکا کو تشویش
لاحق ہوگئی ہے، حالانکہ امریکا کو یہ بات مدنظررکھنی چاہیے کہ غیر ملکی این
جی اوز پر نظر رکھنا اور ملک کے مفادات کے خلاف کام کرنے پر ان پر پابندی
لگادینا ساری دنیا کا اصول ہے۔ ابھی چار روز قبل ہی قانون کی خلاف ورزی
کرنے پر بھارت نے 4770 این جی اوز کے لائسنس منسوخ کیے ہیں، جبکہ اس سے قبل
اپریل میں بھی بھارتی حکام نے 8975 این جی اوز کے لائسنس اس لیے منسوخ کر
دیے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ ماہ روسی صدر ولادی میر پوتن نے غیر ملکی
تنظیموں سے متعلق ایک بل پر دستخط کیے ہیں، جس کے بعد ملک کے اندر کام کرنے
والی غیر ملکی تنظیموں اور اداروں پر پابندی لگائی جا سکے گی۔ اس قانون کے
تحت غیر ملکی این جی او کے لیے کام کر نے والے افراد پر جرمانہ لگایا جا
سکتا ہے یا انھیں چھ سال کی قید ہو سکتی ہے، جس پر نہ تو کسی نے تشویش کا
اظہار کیا ہے اور نہ ہی ایسے قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جب
دوسرے ممالک ایسے قوانین بنانے میں آزاد ہیں تو پاکستان کیوں آزاد نہیں ہے؟
پاکستان ایک خود مختار ملک ہے، جسے آزادی کے ساتھ اپنے ملک کے مفاد میں
قوانین بنانے اور ان پر عمل کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔ |
|