2013 کے عام انتخابات میں
پاکستان مسلم لیگ ن نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور تقریباً اس
پوزیشن میں آ گئی کہ بغیر کسی اور سیاسی جماعت کو ساتھ ملائے حکومت بنا
سکتی تھی ، تحریک انصاف نے بظاہر ان انتخابات کو قبول تو کر لیا مگر یہ بات
بھی کہی کہ ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کو جتوانے کیلئے منظم دھاندلی کی
گئی ہے اور اس سلسلے میں انہوں نے بہت سے لوگوں کے نام لے کر رکھا کہ انہوں
نے مسلم لیگ ن کے کہنے پردھاندلی بلکہ منظم دھاندلی کی ہے اور تحریک انصاف
مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے ۔ تحریک تحریک انصاف نے دھاندلی کے حوالے سے پنجاب
کے چار حلقے پیش کئے اور کہا کہ پہلے ان چار حلقوں کو کھولیں اور پھر اگر
ان چار حلقوں میں دھاندلی ثابت ہو گئی تو پھر پورے 2013ء کے انتخابات کا
دوبارہ سے جائزہ لیا جائے اور پھر تمام حلقے کھولے جائیں اس سلسلے میں
انہوں نے کئی جگہوں پر مظاہرے بھی کئے مگر حکومت نے ان کی بات نہ مانی اس
طرح سے یہ سلسلہ چلتا رہا بالآخر تحریک انصاف نے آخری ڈیڈلائن دے دی اور
کہا کہ اب اگر حکومت نے ان کی بات نہ مانی اور پھر تحریک انصاف اسلام آباد
کی طرف لانگ مارچ کرے گی مگر حکومت نے ان کے مطالبات تسلیم نہیں کیے اور
پھر بالآخر تحریک انصاف نے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ شروع کر دیا پھر اس
کے بعد جو واقعات ہوئے وہ تو سب کو پتہ ہیں اس کے بعد جوڈیشل کمیشن بھی بن
گیا اور وہ اپنا کام کر رہی ہے اور شاید آنے والے چند دنوں میں اپنا کام
مکمل کر کے ایسی رپورٹ پیش کر دے جس سے شاید بہت سی چیزیں واضح ہو جائیں گی
مگر ان انتخابات میں دھاندلی منظم ہوئی یا نہیں ہوئی اس حوالے سے ہمیں بہت
سی باتوں کو دیکھنا ہو گا سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اس الیکشن میں حصہ
لینے کیلئے مکمل طور پر تیار تھی؟ کیا انہوں نے سارے حلقوں سے اپنے امیدوار
کھڑے کیے ؟ کیا ان کے پاس دیہی حلقوں میں اتنے ایسے مضبوط امیدوار تھے کہ
جو بآسانی جیت سکتے تھے۔
ان سارے سوالوں کے جوابات کیلئے ہم تھوڑی سی نظر قومی اسمبلی کے کل
272حلقوں پر ڈالتے ہیں۔
ہم دیکھتے ہیں کہ قومی اسمبلی کیلئے کتنے حلقوں سے تحریک انصاف نے اپنے
امیدوار کھڑے کیے اور کتنے حلقوں میں ان کا صحیح طرح سے مقابلہ مسلم لیگ ن
کے امیدوار سے ہوا ، سب سے پہلے ہم بات کرتے ہیں پنجاب کی ، پنجاب میں کل
قومی اسمبلی کے کل 148حلقے ہیں یہ حلقے حلقہ نمبر50 سے شروع ہو کر حلقہ
نمبر 197تک جاتے ہیں۔ یہاں پر حیران کن بات یہ ہے کہ کل 148نشستوں میں ۲ایسے
حلقے تھے جہاں پر تحریک انصاف نے اپنے امیدوار کھڑے ہی نہیں کیے تھے اس کے
علاوہ دس ایسے حلقے تھے جہاں سے آزاد امیدوار جیتے تھے اور 76ایسے حلقے ہیں
جہاں پر مسلم لیگ نواز سے امیدوار اور تحریک انصاف کے امیدوار کا دور دور
تک مقابلہ نہیں تھا کیونکہ ان حلقوں میں تحریک انصاف کا امیدوار تیسرے ،
چوتھے سے لے کر آٹھویں اور دسویں نمبر پر تھا۔ اس کے بعد ہم بات کرتے ہیں
سندھ کی یہاں حلقہ نمبر 198- سے لے کر 258تک کل 61نشستیں ہیں ان میں سے
22ایسے حلقے تھے جہاں پر تحریک انصاف نے اپنے امیدوار کھڑے ہی نہیں کیے تھے
اور 19ایسے حلقے تھے جہاں پر تحریک انصاف کے امیدوار اور جیتنے والے
امیدوار کا کوئی مقابلہ نہیں تھا کیونکہ تحریک انصاف کے امیدوار ان حلقوں
میں تیسرے ، چوتھے سے لے کر دسویں نمبر تک آتے تھے اور دو ایسے حلقے تھے
جہاں سے آزاد امیدوار جیتے تھے۔ اب ذکر کرتے ہیں کے پی کے کی جہاں پر کل
حلقوں کی تعداد 35ہے حلقہ نمبر1 سے لے کر 35تک کے پی کے کے حلقے ہیں۔
اگر کے پی کے دیکھیں تو یہاں سے تحریک انصاف نے زیادہ نشستیں جیت کر حکومت
بنائی ہے مگر یہاں پر بھی تحریک انصاف تحریک نے کل چار حلقوں سے اپنے
امیدوار کھڑے نہیں کیے ایک پر آزاد امیدوار جیتا اور پانچ ایسے حلقے تھے
جہاں تحریک انصاف کا کوئی مقابلہ جیتنے والے امیدوار سے دور دور تک نہیں
تھا، اب بات کرتے ہیں ہم بلوچستان کی ، یہاں پر حلقہ نمبر259سے لے کر 272تک
بلوچستان کے حلقے ہیں یہاں پر کل 14نشستیں ہیں اگر یہاں دیکھا جائے تو
تحریک انصاف نے کل پانچ حلقوں سے امیدوار ہی کھڑے نہیں کیے تھے اور چھ
حلقوں میں آزاد امیدوار جیتے تھے اس کے علاوہ تین حلقوں میں تحریک انصاف کے
امیدوار کا جیتنے والے امیدوار سے کوئی مقابلہ نہیں تھا اور اب بات کرتے
ہیں فاٹا کی تو یہاں پر کل جماعتوں کی تعداد 12ہے حلقہ نمبر36 سے بلکہ حلقہ
نمبر47تک اس کے حلقے ہیں یہاں پر دیکھیں تو یہاں سے کل سات حلقوں سے آزاد
امیدوار جیتے ہیں اور پانچ ایسے حلقے ہیں جہاں پر تحریک انصاف کے امیدوار
اور دوسرے جیتنے والے امیدوار کا مقابلہ نہیں ہے۔ اور آخر میں اسلام آباد
کے دو حلقے 48-49ان میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف دونوں ہی ایک ایک سیٹ
جیتی ہے یہاں پر دونوں کا پلڑا بھاری رہا ہے اگر ہم مجموعی طور پر دیکھیں
تو تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی کل 272حلقوں میں سے کل 43حلقوں میں اپنے
امیدوار کھڑے نہیں کیے اور کل 25ایسے حلقے تھے جہاں پر آزاد امیدوار جیتے
اور کل 108 ایسے حلقے تھے جہاں پر انصاف کے امیدوار تیسرے چوتھے سے لے کر
آٹھویں دسویں نمبر پر تھا یعنی کہ انصاف کے امیدوار اور جیتنے والے امیدوار
کے درمیان کوئی مقابلہ نہیں تھا اور اب کچھ بات کرتے ہیں جوڈیشل کمیشن کی
تو جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں بننے والا جوڈیشل کمیشن اپنا کام کر رہی
رہا ہے جسٹس ناصرالملک کی ایمانداری پر کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے اور
دونوں جماعتیں بھی اس بات پر اتفاق رکھتی ہیں کہ کمیشن کا نتیجہ جس طرف بھی
آئے گا دونوں جماعتیں اس کو قبول کریں گی مگر ابھی تک ہونیوالی کارروائی
میں کوئی بھی ایسا بڑا ثبوت نہیں ملا جس میں منظم دھاندلی ثابت ہوئی ہو
بہرحال اب ہمیں اس کے نتیجے کا انتظار کرنا ہو گا ، اگر ہم عام انتخابات
میں مسلم لیگ ن نواز کی کامیابی کی بات کریں تو بظاہر مسلم لیگ ن کی پنجاب
میں کوئی اتنی خاص کارکردگی نہیں تھی یہ تو پیپلزپارٹی کی مہربانی تھی کہ
ان کے پانچ سالہ دور اقتدار میں کرپشن اور بیڈ گورننس کا بازار گرم رہا جس
کا فائدہ مسلم لیگ ن نے اٹھایا اور چند ایسے منصوبے جیسے میٹرو، لیپ ٹاپ
اور چند فلائی اوورز بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ان کی حکومت سب
سے اعلیٰ ہے اور اگر ان کو ملک میں حکومت کرنے کا موقع ملا تو وہ ملک کو
ترقی کی راہ پر گامزن کر دینگے۔ اس کے علاوہ بجلی کی لوڈشیڈنگ پر انہوں نے
عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ اگر ان کوموقع ملا تو وہ عوام کو
چند سلاخوں میں بجلی کے بحران سے نجات دلا دیں گے اور ان کے اس بیان کو
عوام میں پذیرائی ملی اور یہی وجہ تھی کہ پیپلزپارٹی عام انتخابات میں بری
طرح سے شکست کھا کر سندھ تک محدود ہو گئی ، بجلی کے بحران کی وجہ سے زندگی
کا ہر طبقہ متاثر ہوا تھا ہر ایک شخص انفرادی طور پر اس سے متاثر ہوا تھا
کارخانے بند ہو گئے تھے ، بیروزگاری بڑھ گئی تھی اور اب مسلم لیگ ن کی
حکومت کیلئے سب سے بڑا خطرہ بجلی کے بحران کا ہے ، 2013ء کے انتخابات بھی
توانائی کے بحران پر لڑے گئے تھے اور اب آنے والا 2018کے انتخابات بھی شاید
بجلی کے بحران اور سستی بجلی کے حصول پر لڑے جائیں گے کیونکہ اس وقت بجلی
کا بحران 2018ء تک مکمل حل ہوتا نظر نہیں آ رہا اگرچہ حکومت اس کیلئے مسلسل
محنت کر رہی ہے ہر ہفتے وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت توانائی کے حوالے
سے اجلاس ہوتا ہے اور حکومت اس وقت اپنی تمام تر توجہ اس بحران کے حل کیلئے
دیئے ہوئے ہے اور حکومت کی طرف سے اس بحران کے حل کیلئے کئے گئے اقدامات
بھی قابل ستائش ہیں مگر یہ بحران حکومت حل نہ کر سکی تو حکومت کو اس سے آنے
والے انتخابات میں بہت مشکل ہو سکتی ہے اب بات کرتے ہیں تحریک انصاف کی اب
تحریک انصاف اور اس کی قیادت کوچاہیے کہ وہ اپنی تمام تر توجہ
خیبرپختونخواہ کی حکومت کی طرف دے ، اگرچہ صوبائی حکومت کی طرف سے دعوے کیے
جا رہے ہیں کہ صوبے میں تعلیم ، صحت اور پولیس کا نظام ٹھیک ہو چکا ہے مگر
ہم اس وقت صوبے میں تعلیم کی صورتحال دیکھیں تو صوبائی حکومت تعلیم کے شعبے
کو بہتر بنانے کیلئے مصروف عمل ہے مگر اس وقت بھی صوبے کے اکثر سکولوں میں
بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے کہیں چھت نہیں تو کہیں پینے کا صاف پانی نہیں
اور اکثر سکولوں میں اساتذہ کی کمی کا مسئلہ ہے۔ بظاہر صوبے میں صحت کے
نظام کو ٹھیک کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں مگر اس وقت بھی سرکاری ہسپتالوں
میں دوائیاں نہیں مل رہی ہیں ڈاکٹروں کی کمی کا مسئلہ ہے اس کے علاوہ پولیس
کو غیرسیاسی کرنے اور اس کے نظام کو ٹھیک کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں مگر
معذرت کے ساتھ خیبرپختونخواہ کی پولیس تو پہلے سے غیرسیاسی ہے کبھی ہم نے
یہ نہیں سنا کہ بلوچستان، کشمیر ، گلگت بلتستان کی پولیس بھی سیاسی ہو سکتی
ہے ، اصل بات یہ ہے خیبرپختوانخوہ کی پولیس شروع سے ہی غیرسیاسی ہے پنجاب
اور سندھ کی پولیس دیکھیں تو یہ پہلے سے ہی اس کو سیاست میں استعمال کیا
جاتا رہا ہے جو کہ ان چند دنوں میں ٹھیک نہیں ہو سکتی توانائی کے بحران کے
حوالے سے خان صاحب نے کہا ہے کہ ہم صوبے میں بجلی کے تین سو پچاس ڈیم
بنائیں گے پہلے تو اس صحیح کرو کہ یہ ڈیم نہیں بلکہ پن بجلی کے چھوٹے بجلی
گھر ہیں جن کے صلاحیت 50کلو واٹ سے لے کر 800کلو واٹ تک ہے خان صاحب کا
کہنا ہے کہ ہم مقامی کمیونٹی کو فنڈ دیں گے وہ خود یہ بجلی گھر بنائیں گے
مگر اس میں ضروری ہے کہ یہ منصوبے کرپشن کی نظر ہو جائیں اور بننے کے بعد
حکومت اس کو اپنی تحویل میں لے کیونکہ مقامی کمیونٹی کیلئے ایسے منصوبوں کی
دیکھ بحال مشکل ہو جاتی ہے اور اس غیر ضروری بات یہ ہے کہ سردیوں میں جب
پانی کم ہو جائے تو اس کی پیداوار بالکل ختم ہو جاتی ہے اس وجہ سے خان صاحب
کو چاہیے کہ صوبے میں بڑے بجلی کے منصوبوں کا آغاز کیا جائے اور ان کو صاف
شفاف انداز میں بغیر کرپشن کے وقت پر مکمل کر لیا جائے تا کہ یہ دوسرے
صوبوں کیلئے مثال بن جائے کیونکہ 2018 کے جو الیکشن ہے وہ توانائی کے بحران
پر ہی لڑی جائے گی اور اس کے علاوہ صوبائی حکومتوں کی مجموعی کارکردگی بھی
الیکشن کے نتائج پر اثر انداز ہو گی۔ |