اقتدار کی ہوس

پاکستان میں الزامات در الزامات کی سیاست زوروں پر ہے۔پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عمران خان کے ہاتھوں پچھلے سال دھاندلی کے نام پر جو زک اٹھائی تھی اب اس کا بدلہ عمران خان سے لیا جا رہا ہے۔اس میں تو کوئی شک نہیں کہ بلدیاتی انتخابات میں خیبر پختونخواہ میں نتظامیہ اپنے فرائض ِمنصبی ادا کرنے میں ناکام رہی ہے لیکن اس کے معنی تو کہیں بھی یہ نہیں کہ تحریکِ انصاف نے انتخابات میں دھاندلی کی منصوبہ بندی کی ہے۔اگر وہ ایسا کرتی تو پھر عوامی نیشنل پارٹی نے جو چند سیٹیں جیتی ہیں وہ اس سے بھی محروم ہو جاتی۔اپوزیشن ان کمزور انتخابی انتظا مات کا بھر پور فائدہ اٹھا رہی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر انتخا بات کی شفافیت پر انگلیاں ا ٹھا رہی ہے ۔جمعیت العمائے اسلام، عوامی نیشنل پا رٹی اور پی پی پی وہ جماعتیں ہیں جن کی سیاسی دوکان پاکستان تحریکِ انصاف کے ہاتھوں بند ہوئی تھی ۔پی پی پی کی حمائت سے عوامی نیشنل پارٹی کو ۲۰۰۸؁ کے انتخابات کے نتیجے میں خیبر پختونخواہ کی وزارتِ اعلی نصیب ہو ئی تھی جو کہ اس کے لئے کسی معجزے سے کم نہیں تھی کیونکہ اسے اسمبلی میں اکثریت حاصل نہیں تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کے قائد خان عبدالولی خان کے بھائی خان صاحب کی وزارتِ اعلی کے کوئی چالیس سال بعد خیبر پختونخواہ کی وزارتِ اعلی ملنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔یہی وہ مقام تھا جہاں پر پی پی پی اور عوامی نیشنل پارٹی ایک دوسرے کے قریب آئیں حالانکہ ان دونوں جماعتوں میں جو تاریخی دوریاں تھیں اس سے ہر بندہ بخوبی واقف ہے۔نیپ پر پابندی ذولفقار علی بھٹو کے دور میں لگی تھی اور پھر لیاقت باغ میں نیپ کے جلسے میں پی پی پی کے دورِ حکومت میں جو فائرنگ کی گئی تھی اور جس طرح خان عبد الولی خان لاشیں اٹھا کر پشاور واپس گئے تھے اسے وہ زندگی بھر فراموش نہ کرسکے ۔ان خونی واقعات کے بعد ایک جمہوری جماعت ہونے کے با وجود خان عبد الولی خان نے جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء کی حمائت کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ ذولفقار علی بھٹو کے آہنی ہاتھوں سے بچنے کا اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں تھا ۔خان عبدا لولی خان ان دنوں حید آباد جیل میں غداری کے مقدمے میں سزا کاٹ رہے تھے اوران کی سزائے موت پر عملدار بھی جلدی ہونے والا تھا۔ان کی جماعت پر پابندی لگ چکی تھی اور ان کے لئے سیاست کے سارے باب ایک ایک کر کے بند ہوتے جا رہے تھے ۔ایک پٹھان سب کچھ بھول سکتا ہے لیکن ذاتی انتقام کبھی نہیں بھولتا اور یہی خان عبدا لولی خان نے بھی کیا تھا۔ ذولفقار علی بھٹو سے نیپ کے خلاف برخاش ذاتیات تک جا پہنچی تھی۔سرحد میں مفتی محمود کی حکومت اور بلوچستان میں عطا اﷲ مینگل کی حکومت کا خاتمہ بھی اسی سلسلے کی کڑیاں تھیں جس کے بعد پی پی پی اور نیپ کبھی ایک دوسرے کی حلیف نہ بن سکیں۔آصف علی زرداری کی پی پی پی کی کمان سنبھا لنے کے بعد سارا منظر نامہ بدل گیا ور نیشنل عوامی پارٹی کے ساتھ نئے رومانس کا آغاز ہوا جو پورے زورو شور سے جاری ہے۔اس رومانس کو عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف نے جس طرح تتر بتر کیا ہے اس سے یہ دونوں جماعتیں کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھیں اور خیبر پختونخواہ کے حالیہ انتخابات نے انھیں یہ موقعہ فراہم کر دیا ہے کہ وہ دھاندلی کا شور مچا کر عمران خان کی شخصیت کو داغدار کریں۔خان صا حب بھی اس معاملے میں بڑے فیاض ہیں کہ وہ اس طرح کے مواقع اپنے مخالفین کو اکثر دیتے رہتے ہیں تا کہ گلشن کا کارو بار چلتا رہے۔بلدیاتی انتخابات میں جو شور و غوغہ مچا ہوا ہے اور اس پر عمران کے بیان نے جس طرح مخا لفین کو جارحانہ انداز اپنانے کا موقعہ دیا ہے اسے عمران خان کی سیاسی کلچر سے عدمِ واقفیت کا شاحسانہ ہی کہا جا سکتا ہے۔وہ اپنے موقف کو بہتر انداز اور اسلوب میں بیان کر سکتے تھے لیکن انھوں نے اپنی بات کو واضح کرنے کیلئے جن الفاظ کا سہارا لیا وہ انتہائی مبہم اور غیر واضح تھے اور اس سے تحریکِ انصاف پر سہ فریقی اتحاد کا دباؤ بنتا تھا۔سہ فریقی اتحاد والے بڑے منجھے ہوئے سیاستدان ہیں اور ایسے نادر مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں لہذا انھوں نے حکومت کے خلاف دھاندلی کا الزام لگا کر اس کے استعفی کا مطالبہ کر دیا جس پر مسلم لیگ (ن ) نے ان کی پیٹھ تھپکی کہ ڈٹے رہو۔اس مطالبے پر سب سے زیادہ خوش ہونے والی شخصیت میاں محمد نواز شریف کی ہے ۔وہ دل ہی دل میں خوش بھی ہو رہے ہوگئے اور عمران خان سے یہ کہہ رہے ہوں گئے کہ دیکھا ہمارے خلاف دھاندلی کا شور مچانے کا نتیجہ۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ۲۰۱۳؁ کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی تھی اور جتنے حلقے بھی اب تک کھلے ہیں ان میں انگوٹھوں کے نشانات معدوم ہیں،فارم چودہ موجود نہیں ہیں،فارم پندرہ غائب ہیں ۔ بہت سے تھیلوں سے صرف ردی نکلی ہے لیکن پھر بھی اصرار ہے کہ مئی ۲۰۱۳؁ کے انتخابات شفاف تھے۔یہ واحد انتخابات ہیں جس پر تمام جماعتوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن تحریکِ انصاف کی حکومت ہٹاؤ مہم کا کسی نے بھی ساتھ نہ دیا تھا کیونکہ سب کے مفادات اسی میں تھے کہ حکومت چلتی رہے کیونکہ ساری اہم جماعتیں کسی نہ کسی انداز میں حکومت کا حصہ ہیں۔پی پی پی روائتی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے سے قاصر رہی ہے کیونکہ میثاقِ جمہوریت کی روح سے پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) اس بات پر متفق ہیں کہ دونوں ایک دوسرے کا احتساب نہیں کریں گی اور عدالتوں میں ا یک دوسرے کے خلاف مقدمات کی پیروی نہیں ہو گی۔اگر میں یہ کہوں کہ دونوں در پردہ ایک دوسرے کو تحفظ دے رہی ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ان کے اس طرزِ عمل سے عوام کے اذہان میں غم و غصہ کی کیفیت پائی جاتی ہے اور شائد یہ اسی مفاہمتی سیاست کا اثر ہے کہ پی پی پی کی مقبولیت دن بدن سکڑتی جا رہی ہے اور اگر اس نے اپنے موجودہ اندازِ سیاست کو نہ بدلا تو ذولفقار علی بھٹو کی پی پی پی آنے والے دنوں میں قصہِ ماضی بن جائیگی ۔ قوم پی پی پی جیسی ترقی پسند جماعت سے حقیقی اپوزیشن کا رول مانگ رہی ہے لیکن وہ مسلم لیگ (ن) کی بی ٹیم کا کردار ادا کر نے میں جٹی ہوئی جس سے عوام کے مسائل کے حل میں کوئی پیشرفت نہیں ہو رہی اور ملکی خزانے کو شیرِ مادر سمجھ کر لوٹا جا رہا ہے۔ کرپشن کی کہانیاں زبان زدہ خا ص و عام ہیں اور عوام کی حالتِ زار کو بہتر بنانے کے کی بجا ئے پی پی پی خاموشی کی چادر اوڑھے سو رہی ہے۔یہی وہ مقام تھا جہاں پر پاکستان تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ (ن) کے خلاف مورچہ لگایا اور اس کے طرزِ حکومت کے خلاف سینہ سپر ہو گئی۔دیکھتے ہی دیکھتے پی پی پی تحلیل ہوتی چلی گئی اور پاکستان تحریکِ انصاف اپنی بنیادیں وسیع کرتی چلی گئی اور اتنی چھوٹی سی بات کی سمجھ منجھے ہوئے سیاستدان آصف علی زرداری کو نہیں آ رہی اور یہی بات میری سمجھ سے بالا تر ہے۔،۔

اگر ہم سہ فریقی اتحاد کا گہری نظر سے جائزہ لیں تو اس میں عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت العلائے اسلام نے تحریکِ انصاف کے خلاف متحد ہو کر انتخابات میں حصہ لیا لیکن پھر بھی انھیں قابلِ ذکر کامیابی نہ مل سکی ۔مجھے جس بات نے سب سے زیادہ پریشان کیا وہ یہ تھی کہ عوامی نیشل پارٹی مذہبی جماعتوں کی سدا سے مخالف رہی ہے ۔وہ مذہبی بنیادوں پر سیاست کے خلاف ہے۔خان عبدالغفار خان (باچہ خان) کا بھی مسلم لیگ کی سیاست پر اسی نکتے پر اختلاف تھا کہ مسلم لیگ مذہب کی بنیاد پر ایک علیحدہ پاکستان کا مطالبہ کر رہی تھی اور باچہ خان مہاتما گاندھی کے ساتھ مل کر علیحدہ مملکت کی مخالفت کر ر ہے تھے۔باچہ خان اور ان کے حواری قائدِ اعظم کی کرشماتی شخصیت کے سامنے نہ ٹھہر سکے اور انھں تاریخی شکست سے دوچار ہونا پڑا۔خان عبد الولی خان اور ان کے ہونہار بیٹے اسی سوچ کے علمبردار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آئینِ پاکستان میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی جو ترمیم کی گئی ہے عوامی نیشنل پارٹی اس کی تنسیخ کا مطالہ کرتی رہتی ہے کیونکہ وہ ریاستی امور میں مذہب کی مداخلت نہیں چاہتی جبکہ جمعیت العلمائے اسلام کا نعرہ ملک کو اسلامی ریاست بنانا ہے۔سب سے اہم بات کہ جمعیت العلمائے اسلام ناموسںِ رسات کی علمبردار ہے لیکن احمدیو ں کے خلاف ترمیم کی تنسیخ کا مطالبہ کرنے والے توہینَ رسالت کے مرتکب ہو رہے ہیں اور آئین میں توہینِ رسالت کی سزا موت ہے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان توہینِ رسالت ی مرتکب جماعت سے ہی سیاسی اتحاد کئے ہوئے ہیں ۔ اسے ہی ذاتی مفاد اور اقتدار کی ہوس کہتے ہیں۔،۔
Tariq Hussain Butt
About the Author: Tariq Hussain Butt Read More Articles by Tariq Hussain Butt: 629 Articles with 516625 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.