بلدیاتی انتخابات اور ’’ نہ منم ‘‘ کی پالیسی

ایک بادشاہ کے اکلوتے بیٹے کی عمر جب مدرسے میں داخل ہونے کو پہنچی تو یہ سوچ کر با دشاہ بڑا فکر مند ہوا کہ اس کا چہیتا بیٹا روز روز پڑھائی کی جھنجھٹ سے کس طرح نبٹھے گا ؟ سو اس نے پورے ملک میں منا د ی کرا دی کہ ایک ایسے معلم کی ضرورت ہے جو شہزادے کو صرف ایک دن میں ایسا عا لم بنا دے کہ اسے مزید پڑھنے کی ضرورت نہ پڑے،ایسے معلم کو بیش بہا انعام و اکرام سے نوازنے کابھی اعلان کر دیا گیا۔یہ اعلان سن کر اگر چہ بہت سارے اسا تذہ کرام کے منہ میں پانی بھر آیا مگر ایک دن میں کسی کو عالم بنانا کسی کی بس کی بات نہ تھی ۔آخر ایک حضرت نے بادشاہ کی دربار میں حاضری دی اور بادشاہ سے کہا کہ وہ ان کے فر ذندِ ارجمند کو ایک دن میں نہیں، صرف ایک گھنٹہ میں عالم بنانے کا ہنر جانتے ہیں ۔ یہ سن کر باد شاہ بڑا خوش ہوا ۔ اور اپنے لاڈلے شہزادے کو اس عالمِ کمال کے شاگردی میں ایک کمرے میں بٹھا دیا۔اس معلم ِ با ہنر نے شہزادے سے کہا ’’ بیٹا ! غور سے سن،، آپ سے کو ئی بھی شخص کو ئی بھی سوال کرے تو یہ جواب دینا کہ ’’ نہ منم ‘‘ یعنی یہ میں نہیں مانتا، بس اسے یاد رکھنا، تمہیں مزید کسی پڑھائی کی ضرورت نہیں۔انشاﷲ ہر امتحان میں کامیاب رہو گے۔‘‘ معلم اور متعلم دونوں باہر نکلے اور بادشاہ سلامت کو خوشخبری سنا دی کہ تعلیم مکمل ہو گئی اور اب کو ئی بھی شہزادے کا امتحان لے سکتا ہے۔ بادشاہ خوش ہوا مگر حیران بھی ہوا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گھنٹہ سے بھی کم وقت میں شہزادے کو عالم بنا دیا گیا ۔بنا بر ایں تین اساتذہ کرام کو بلا یا گیا کہ وہ شہزادے کا امتحان لیں تا کہ پتہ چل سکے کہ کیا واقعی شہزادے کی تعلیم مکمل ہو گئی ہے ؟ممتحن باری باری شہزادے سے سوال کرتے تو شہزادہ جواب میں کہتا ’’ دا نہ منم ‘‘یعنی یہ میں نہیں مانتا‘‘ آ خر ممتحن زچ آگئے اور شہزادے کا امتحان میں کا میابی کا اعلان کر دیا گیا۔ یہی صورتِ حال اب صو بہ خیبر پختونخوا میں بھی در پیش ہے ْ 30مئی کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں جس کا جتنا بس چلا ، چلا لیا بد انتظا می یقینا تھی مگر اس بد انتظامی کا فا ئدہ صرف پی ٹی آئی نے ہی نہیں ، بلکہ تمام پارٹیوں نے اٹھا یا، جس پو لنگ سٹیشن پر جس پارٹی کے غنڈے، بد معاش زیادہ زور آور تھے وہاں اسی پارٹی نے زیادہ دھا ند لی کی ۔راقم الحروف نے انتخابات والے دن متعدد پو لنگ ستیشن کا جائزہ لیا تو یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ تر پو لنگ سٹیشن پر ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ والا معا ملہ چل رہا ہے۔یعنی جس پارٹی کے حامی زیادہ طاقت ور ہیں ،وہ زیادہ گڑ بڑ کر رہے تھے۔پولیس کی نفری اتنی کم تھی کہ کہیں دو، کہیں چار پولیس کے سپاہی بے بسی و لاچارگی کی تصویر بنے کھڑے تھے۔انتخابات گزر گئے تو ہر کسی نے واویلا مچانا شروع کر دیا کہ ، دھاندلی ہو گئی، دھاند لی ہو گئی، چو نکہ صوبہ میں حکومت پی ٹی آئی کی ہے اس لئے زیادہ دھاندلی کا الزام بھی پی ٹی آئی پر ہی لگا ۔سہ فرقی اتحاد ( اے این پی، جمیعت العلماء اسلام اور پیپلز پارٹی) نے اس مو قعہ سے فا ئدہ اٹھانے کا منصوبہ بنا یا اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومت کے خلاف شٹر ڈاون ہڑتال اور احتجاج کا اعلان کرتے ہو ئے شہزادے والا تکنیک استعمال کیا۔ پر ویز خٹک نے کہا ، آؤ، مذ اکرات کریں، سہ فریقی اتحاد نے جواب دیا ’’ نہ منم ‘‘ صوبائی حکومت نے جو ڈیشنل کمیشن بنانے کا کہا، سہ فریقی اتحاد نے کہا ’’ نہ منم ‘‘ عمران خان نے کہا فوج کے نگرانی میں دوبارہ انتخابات کراتے ہیں ، سہ فر یقی اتحاد نے جواب دیا ’’ نہ منم ‘‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ۱۰ جون کو سہ فریقی اتحاد کی طرف سے احتجاج کی کال بری طرح ناکا م ہو ئی اور زبر دستی د کانیں بند کرانے پر تاجر برادری سراپا احتجاج بن گئی۔

ہماری گزارش اتنی ہے کہ بے شک انتخابات والے دن صو بائی حکو مت کی طرف سے پو لنگ اسٹیشنوں پر انتخابات کے لئے تسلی بخش انتطامات مو جود نہیں تھے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ صوبائی حکومت نے کو ئی دھاندلی کا منصوبہ بنایا تھا، اس لئے اس کا حل مذاکرات ہیں، جس کے ذریعے کو ئی متفقہ حل نکالا جا سکتا ہے ۔ صوبے میں افرا تفری پھیلانا، کاروبار بند کرانا وغیرہ اس مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی صوبہ خیبر پختو نخوا اس قسم کے اختلافات ، انتشار اور سعی لا حاصل کا متحمل ہو سکتا ہے ۔ لہذا مناسب ہو گا کہ سہ فریقی اتحاد نہ منم کی پالیسی ترک کرتے ہو ئے مذاکرات کی پا لیسی اپنا لے اور صوبے کی ترقی و خو شحالی میں اپنا کردار ادا کرے۔۔۔۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 315618 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More