ایک طویل عرصے کے بعدجونہی پہلی
مرتبہ بھارتی وزیراعظم نریندرمودی نے پاکستان سے تعلقات بہتربنانے کی ''خواہش''
کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ دونوں ہمسایہ ممالک کو کرکٹ کے ذریعے سے ایک دوسرے
کے قریب آنے کی کوشش کرنی چاہئے مگر اس پیشکش کے دودن بعدکراچی
صفورادہشتگردی کا سانحہ رونما ہوگیا ۔ ابھی قوم اس صدمے سے باہرنہیں نکلی
تھی کہ نریندرمودی نے ایک مرتبہ پھرکرکٹ کی بحالی کی خواہش کااظہارکرتے
ہوئے تعلقات کومعمول پرلانے کی بات کی توہم سب کاماتھاٹھنکاکہ اس کی آڑمیں
پھر کوئی دہشتگردی کاکوئی واقعہ رونمانہ ہوجائے اورخدشہ بالکل درست نکلااور
مستونگ میں دو مسافر بسوں سے پشتونوں کونکال کرشہیدکردیاگیا۔ ہم سب جانتے
ہیں کہ نریندر مودی یاان کے دیگرساتھیوں کا اسپورٹس مین شپ کے قواعدسے کوئی
تعلق ہے اورنہ ان کے سیاسی اخلاق کودیکھ کراس پریقین کیاجاسکتاہے۔
ابھی مودی صاحب کی اس پیشکش کی گونج فضاؤں کامنہ چڑارہی تھی کہ بنگلہ دیش
کے دورے میں مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے روپ میں بھارتی افواج کی
مداخلت کاکھلے عام اعتراف بھی کرلیا۔اسی اعتراف سے چند دن قبل ان کے وزیر
دفاع منوہر پریکرنے کھلے بندوں دہشت گردی روکنے کے بہانے دہشت گردی کے
استعمال کی بات کرکے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں بھارت کے
ملوث ہونے کے بارے میں پاکستان کے الزامات کی تصدیق کر دی اورمزیدبرآں اب
برمامیں مداخلت کے فوری بعد ایسے ہی سلوک کی پاکستان کوبھی دہمکی دے ڈالی
اوریہ بھول گئے کہ ان خالی دہمکیوں کے جواب میں یہ خطہ صفحہ ہستی سے مٹ
سکتاہے۔اب معاملہ یہاں تک پہنچ چکاہے اب بھارتی نیتاء دونوں ملکوں کے
معاملات تنازع کے ذکرپر ہی سیخ پاہوجاتے ہیں۔تازہ ترین مثال آزادکشمیرمیں
ترقیاتی منصوبوں کی ہے جہان چین کی معاونت پرنہ صرف موصوف بلکہ ان کی
کابینہ کے تمام اہم ارکان ابھی تک انگاروں پرلوٹ رہے ہیں اورمن گھڑت خدشات
کااظہارکرکے اپنی عوام کوگمراہ کررہے ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہاہے کہ مسئلہ کشمیراب بھی ہمارے ایجنڈے پرموجودہے۔
کشمیرپراقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادیں اب بھی مؤثرہیں۔اس سلسلے
میں حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے پیشکش بھی کی ہے کہ وہ
بھارت اورپاکستان کے درمیان تنازع کشمیرکے حل کیلئے بطورثالث اپنی خدمات
پیش کرتے ہیں،اب یہ بھارت اورپاکستان پر منحصرہے کہ وہ یہ ثالثی قبول کرتے
ہیں یانہیں۔ان خیالات کااظہاراقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے
پولیٹیکل افیئرزژیاؤننگ ہوان نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرمیں ایک کشمیری
رہنماء سے تفصیلی ملاقات میں کیا۔ملاقات میں اس بات پرزور دیاگیاکہ اقوام
متحدہ کوچاہئے کہ وہ اپنی قراردادوں پرعمل درآمدکروائے۔ مقبوضہ کشمیرمیں
شروع ہونے والی تحریک آزادی اوربھارتی فوج کی طرف سے جاری انسانی حقوق کی
پامالی اورسنگین خلاف ورزیوں پرانہیں بریفنگ دی گئی اورکہاکہ اقوام متحدہ
کے پاس تنازع کشمیران ایشوزمیں سے ہے جو بالکل شروع میں پیش ہوئے تھے ،اس
لیے اقوام متحدہ اپنی ترجیحات پر پہلے آنے والے مسائل کوحل کرنے کیلئے اپنا
مؤثر کرداراداکرے اورتنازع کشمیر میں سلامتی کونسل میں منظورکی گئی
قراردادوں پرعمل درآمد کرائے۔
اقوام متحدہ کے ذمہ داراس حقیقت سے بے خبرنہیں کہ بعض مسائل ایسے ہی حل
کرلئے گئے کہ ''ہلدی لگے نہ پھٹکری رنگ بھی چوکھاآئے'' کامصداق ثابت ہوئے۔
اگرکوئی فریق جارحیت کاارتکاب کرتاہے تومحض طاقتور وارننگ ہی کافی ثابت
ہوتی ہے،اس کے علاوہ بڑی طاقتوں کی طرف سے پابندیاں لگانے کی دہمکی بھی
کارگر ثابت ہوجاتی ہے۔ماضی میں اس قسم کے واقعات بھی سامنے آئے کہ
بغیرقراردادوں کے جنگ مسلط کردی گئی ۔جہاں تک تنازعہ کشمیرکاتعلق ہے جنگ
تودورکی بات ہے ابھی تک بھارت پر پابندیاں بھی نہیں لگائی جاسکیں ہیں، اس
کاواضح مطلب ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کااصول کار فرماوکار گزار ہے
۔اقوام متحدہ اگراپنی ذمہ داریوں کااحساس کرے تو کوئی بعیدنہیںکہ اس کی یہ
سعی جہاں اس خطے کی تقدیر بدل دے گی بلکہ علمی امن کودرپیش خطرات بھی ٹل
جائیں گے۔بھارت ایک طرف اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کارکن بنناچاہتاہے
دوسری طرف وہ اس ادارے کی کشمیرپرقراردادوں پرعمل درآمدسے گریزاں ہے۔یہ
بھارت کا دہرامعیارہے لیکن اگربھارت تنازع کشمیرپراقوام متحدہ کی قراردادوں
پرعمل کرے توپھرشایدکسی کواس کے سیکیورٹی کونسل کاممبربننے پر اعتراض نہ
ہواورپھروہ اس کامستقل رکن بھی بن جائے۔
واضح رہے تنازع کشمیر١٩٤٨ء میں اس وقت کے بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہرلال
نہروخوداقوام متحدہ لیکرگئے تھے اوراس تنازعہ کے حل کے لیے استصواب رائے
بھی انہی کی پیش کردہ تجویزتھی جس پراقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ٣جون
١٩٤٩ء کواقوام متحدہ کے چارٹرکی شق٦کے تحت ایک قراردادمنظورکی جس میں طے
پایاکہ بھارت اورپاکستان مل کر کشمیری عوام کوحق خودارادیت دیں اور استصواب
رائے کے ذریعے سے کشمیری عوام کی مرضی معلوم کریں کہ وہ بھارت اورپاکستان
میں کس کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں،اس ضمن میں کشمیری جورائے دیں بھارت
اورپاکستان کشمیری عوام کی رائے کااحترام اوراس کے مطابق عمل کرتے ہوئے یہ
تنازع حل کریں۔
پنڈت نہرونے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی اس قراردادکوبخوشی قبول
کیالیکن وہاں سے واپسی کے بعداس پرعمل کرنے سے گریزاں رہے اور مختلف حیلوں
بہانوں سے کام لیتے ہوئے کشمیری عوام کوحق خوارادیت دینے کے معاملے
کوالتواء کاشکارکرتے رہے۔اس تنازع کی بنیادپربھارت اور پاکستان کے درمیان
تین مسلح جنگیں بھی ہوچکی ہیں جبکہ سر د جنگ اور کشیدگی ایک تسلسل کے ساتھ
جاری وساری ہے۔کشمیری ہرسال ایک جلوس کی صورت میں اقوام متحدہ کے
دفترمیںتنازع کشمیرکے حل سے متعلق ایک یادداشت جمع کرواتے ہیں جس میں انہوں
نے اقوام متحدہ کے اربابِ اختیار سے یہی مطالبہ ہوتاہے کہ اقوام متحدہ
کشمیرکے حوالے سے اپنی قراردادوں پرعمل کرائے لیکن دوسری طرف بھارت کایہ
رویہ ہے کہ پہلے تو اس نے اقوام متحدہ کی قراردادپر عمل درآمدپرٹال مٹول سے
کام لیابعدازاں جب کشمیری عوام نے آزادی کی جدوجہدشروع کی توبھارت نے
کشمیری عوام کو بزورقوت دبانے اورتحریک آزادی کوکچلنے کے لیے وہاں طاقت کا
ناجائز استعمال شروع کردیااورکشمیری عوام پر مقامی فورسزکے علاوہ فوج مسلط
کردی اوراس وقت ١١لاکھ٩٠ہزارفوجی نہتے کشمیری عوام پر ظلم وستم کے
پہاڑتوڑنے میں مصروف ہیں۔
اقوام متحدہ سے کشمیرکے تنازع میں مداخلت کامطالبہ کیاجائے تووہاں سے ایک
ہی جواب ملتاہے کہ کشمیرکے حوالے سے سلامتی کونسل میں جو قرار دادمنظورکی
گئی تھی وہ اقوام متحدہ کے چارٹرکی شق٦کے تحت منظورکی گئی تھی۔اس شق کے تحت
منظورکی جانے والی قراردادوں کے فریقین کو خودسے عمل کرناہوتاہے اورکسی
فریق کے عمل نہ کرنے کی صورت میں اقوام متحدہ کوطاقت یادباؤ کے ذریعے اپنی
قراردادپرعمل کرانے کاحق حاصل نہیں ہے البتہ جوقراردادیں اقوام متحدہ کے
چارٹرشق٧کے تحت منظورکی جاتی ہیں اگرکوئی فریق عمل نہ کرے تو اقوام متحدہ
کے پاس طاقت استعمال کرکے اپنی قرارداد پر عملدرآمد کرانے کاحق حاصل ہے۔اس
صورت میں وہ عالمی فوج کے ذریعے سے اپنی قراردادپرعمل کرانے کیلئے کچھ بھی
کاروائی کرسکتی ہے جیساکہ امریکانے عراق کے خلاف قراردادپیش کی تھی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس امرکافیصلہ کون کرتاہے کہ اقوام متحدہ میں پیش کیاگیا
مسئلہ چارٹرکی شق ٦کے تحت سنا جائے یاشق ٧ کے تحت۔ اگریہ صوابدیدی
اختیاربھی اقوام متحدہ کے پاس ہے تواس ضمن میں کوئی تو پیمانہ مقررکیاہوگا
کہ ان موضاعات کے کیس شق٦اوران موضوعات کے شق٧کے تحت سماعت کیے جائیں
گے۔اگر اس مفروضے ہی کوپیمانہ بنالیاجائے تو بھی یہ امر واضح ہوتاہے کہ پھر
اقوام متحدہ کی نظر میں انسانی مسائل اہم ترین ہونے چاہئیں اور ایسے تمام
مسائل جن میں انسانی حقوق غصب کیے جاتے ہوں،انسانی جانیں تلف ہوتی ہوں،
عوام پرمصائب کے پہاڑ توڑے جاتے ہوں،ایسے مسائل کو فوری طور پرنہ صرف شق
٧کے تحت سماعت کیاجاناچاہئے بلکہ ان پر فوری طورپرعملدرآمدکاحکم بھی
دیناچاہئے کیونکہ انسانی حقوق اور مسائل سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی مسئلہ
اہم نہیں ہوسکتااور کشمیر خالصتاً ایک انسانی مسئلہ ہے جس میں لاکھوں کی
تعدادمیں لوگ اپنی جانیں قربان کر چکے ہیں ۔ بچے یتیم ،سہاگنیں بیوہ،ضعیف
ماں باپ بے سہاراہوچکے ہیں بلکہ ہزاروں دوشیزاؤں کی چادر عصمت تاتارکی
جاچکی ہے۔ماورائے عدالت قتل ہونے والوں اورلاپتہ کیے جانے والے نوجوانوں
کابھی کوئی شمارنہیں جبکہ بھارت کی جانب سے کشمیری عوام کو دبانے کیلئے
ہرروزکوئی نئی قیامت توڑدی جاتی ہے۔حریت رہنماؤں کوآئے دن نظر بند کرنا،
قیدوبند کی صعوبتوں میں گرفتار کرنا اوربپھرے ہوئے عوام پرلاٹھی چارج،
شیلنگ اورآنسوگیس کا استعمال اوراورفائرنگ کرنایہ سب کیاہے؟ کیایہ اقوام
متحدہ کے انسانی حقوق سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی نہیں؟اقوام متحدہ کی
جانب سے جس رائے شماری کامطالبہ کیاگیاتھاگووہ رائے شماری بھارت نے نہیں
کروائی لیکن کشمیری عوام نے دنیاکے سامنے اپنی رائے ظاہرکردی جب گزشتہ کئی
جلوسوں میں کشمیری عوام نے پاکستان کے جھنڈے لہراکر''پاکستان زندہ باد،
کشمیربنے گا پاکستان ،تیری جان میری جان، پاکستان پاکستان''کے نعرے لگائے
جس کوپوری دنیاکے ابلاغ نے ان مناظر کوکیمرے کی آنکھ میں محفوط کیابلکہ
اپنے عوام کوبھی دکھایاجواس امرکابین ثبوت ہے کہ بھارت سرکار کچھ بھی کیوں
نہ کہتی رہے لیکن کشمیری عوام کی رائے کیاہے؟
اب جبکہ بھارت اورپاکستان دونوں ایٹمی قوت کے حامل ملک ہیں اورخاص
طورپربھارت میں ایسے انتہاپسندوں کی حکومت ہے جودین و مذہب کی بنیادپر
دہشتگردی کی حدتک انتہا پسندہیں۔وہ کبھی گرجاگھروں پرحملہ کرتی ہیں، کبھی
مساجدکوشہیدکرتے ہیں،کبھی مسیحیوں کاقتل عام کرتے ہیں،کبھی مسلمانوں کوزندہ
جلاتے ہیں۔ایسے تنازعات کوحل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جوکسی جنگ پرمنتج
ہوسکتے ہیں۔اس ضمن میں پہلے امریکا،چین نے مصالحت کارکی حیثیت سے اپنی
خدمات پیش کی تھیں اور اب آسٹریلوی وزیر خارجہ نے بھی مسئلہ کشمیر کے حل
کیلئے پاکستان اوربھارت کومددکی پیش کش کی ہے جس سے ایسامعلوم ہوتاہے کہ
طویل عرصے سے جاری جدوجہد کے بعد کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لارہی ہیں
اورعالمی برادری میں اقوام متحدہ کے اس فراموش کردہ مسئلے کے حل کیلئے
خواہش بڑھتی جارہی ہے۔
اب بھارت کوچاہئے کہ وہ بھی عالمی برادری کی اپیلوں پرکان دھرے۔بھارت
کشمیرپراپناغاصبانہ قبضہ برقراررکھنے کیلئے بہیمانہ مظالم ڈھا رہاہے۔حریت
کانفرنس جوکشمیرکی مسلمہ نمائندہ تنظیم ہے،کے رہنماؤں کوحراست میں یا گھروں
میں نظربندرکھاجارہاہے۔انسانی حقوق اور عوامی آزادیاں سلب ہیں اور آئے
روزکشمیریوں کی ہلاکتوں کے ساتھ ان کے مال واسباب کی تباہی کی داستانیں
سامنے آتی رہتی ہیں۔ان حالات میں حکومت پاکستان کوچاہئے کہ وہ مسئلہ
کشمیرکے حل کیلئے اپنی سفارتی سرگرمیاں تیز کرے اورعالمی سطح پرتمام بڑی
طاقتوں اور بااثر ممالک کو رضا مندکرے کہ وہ مسئلہ کشمیرکے حوالے سے اقوام
متحدہ کی منظورشدہ قراردادوں پرعملدرآمدیقینی بنائیں تاکہ کشمیری عوام اپنے
مستقبل کافیصلہ خود کر سکیں اوربرصغیرمیں قیام امن کی راہ ہموارہواوریہ
نہائت امیدافزا تبدیلی ہے کہ اب اقوام متحدہ نے بھی اس امر کااقرارکرلیاہے
کہ مسئلہ کشمیراب بھی ان کے ایجنڈے پرموجودہے اورکشمیر پراقوام متحدہ کی
قراردادیں اب بھی مؤثرہیں۔
اس ضمن میں یہ توکہاجاسکتاہے کہ کفرٹوٹاخداخداکرکے لیکن بہرحال جب اقوام
متحدہ تسلیم کررہی ہے کہ کشمیر ان کے ایجنڈے پرموجود اورمنظورکردہ
قراردادیں مؤثر ہیں توپاکستان کواپنی سفارتی کوششوں میں بہتری لانی چاہئے
اوراقوام متحدہ کی قراردادوں پرعمل درآمدکی کوششوں کے ساتھ ایک یہ کوشش بھی
کرنی چاہئے کہ کشمیر کے حوالے سے ایک نئی قرارداداقوام متحدہ کے چارٹرشق ٧
کے تحت منظور کرائے جس پرعملدرآمدکیلئے اقوام متحدہ طاقت کے استعمال کاحق
محفوظ رکھتی ہے تاکہ اب ٦٨سال بعدتوکم ازکم اس مسئلے کاحل نکلنے کی امید
پیدا ہو۔ کیاہمارے دفترخارجہ کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ مسئلہ کشمیرپرایک
نئی قراردادمنظوقرارکرانے کی سنجیدہ کوشش کرے نہ کہ ہرمرتبہ قومی اسمبلی
میں اپنی تائیدبڑھانے کیلئے ایک نام نہادکشمیرکمیٹی کونوازنے کیلئے قوم کے
کروڑوں روپے ضائع کرے۔
ان سہمے ہوئے شہروں کی فضا کچھ کہتی ہے
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے |