''اے جذبہ دل گر میں چاہوں ! ' '
( اطہر مسعود وانی, Rawalpindi)
پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک
چیئرمین،سابق صد ر پاکستان آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں اپنی پارٹی کی
ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے فوج کے حوالے سے خلاف اور دھمکی پر مبنی سخت
ردعمل ظاہر کیا ۔مفاہمت کی سیاست پر چلنے والی پیپلز پارٹی قیادت کے اس
انداز نے ایک طرف ملک میں غیر ضروری طور پر ایک بحث شروع کرا دی ہے اور اس
کے ردعمل میں بھی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں جو صورتحال کو مزید خرابی کی
طرف لیجا سکتی ہیں۔' اگر وہ کیا تو یہ کر دوں گا،اگر یہ کیا تو وہ کر دوں
گا'' کے بیان سے واضح ہے کہ معاملہ سیاسی و مادی مفادات کا ہے،پالیمنٹ کی
بالادستی کا نہیں۔آصف زرداری کا لب و لہجہ دیکھ کر عمران خان کے دھرنے کے
وقت اعتزاز احسن کی قومی اسمبلی میں وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کے خلاف
کی گئی تقریر یاد آجاتی کہ' اگرمیں چاہوں تو اس کو اوپر اور اس کو نیچے کر
دوں'۔آصف زرداری کو اگر کسی بات پہ تشویش تھی تو وہ متعلقہ حکومتی،سرکاری
عہدیداران سے بات کر سکتے تھے،اس کے بجائے انہوں نے اپنے ساتھیوں کی کرپشن
میں ملوث ہونے پر ،ایک حساس معاملے کو غیر ضروری طور پر چھیڑتے ہوئے عوامی
بحث شروع کر دی ہے ،جسے موقع کی مناسبت کے حوالے سے بھی درست قرار نہیں دیا
جا سکتا۔کیا اس وقت پارلیمنٹ کی بالادستی کا کوئی معاملہ درپیش تھا کہ
انہوں نے ایسا انداز اپنایا کہ جس سے ملک کے اہم افراد کے درمیان تلخی کی
فضانظر آ رہی ہے۔یقینا معاملہ پارلیمنٹ کی بالا دستی کا نہیں بلکہ ان کے
قریبی افراد کے خلاف کرپشن کے الزامات کا ہے،جس پر آصف زرداری یوں آگ بگولا
ہوئے کہ ملک میں کئی خطرات پر مبنی ایک نئی تلخی پید کر دی ہے ۔اس'' میں''
نے پاکستان کو پہلے ہی ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کیا ہے،اسی طرح کا
انداز پھر اپنانا ملک و عوام کے لئے کوئی اچھا شگون نہیں ہے۔عوام جانتے ہیں
کہ ملک کے بااثر،طاقتور افراد ملک کو بہت نقصان پہنچا سکتے ہیں جبکہ ان کی
ذمہ داری ملک و عوام کے مفاد کا تحفظ ہے۔کاش ہمارے رہنما'' ہر فرد ہے ملت
کے مقدر کا ستارہ'' کے عزم کوسمجھیں تو کچھ ملک و عوام کا بھلا ہو جائے۔جب
وہ یہ کہتے ہیں کہ '' اگر میں چاہوں تو ''،عوام پریشان ہو جاتے ہیں کہ اب
نہ جانے کس مصیبت کا سامنا ہے۔
'بی بی سی' نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ '' پاکستان میں سابق صدر جنرل
مشرف کے طویل اقتدار، ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی فوجی
آپریشن اور میموگیٹ سکینڈل کے بعد ملک میں ایک ایسا وقت بھی آیا جب مسلح
افواج کی قیادت کو منتخب ایوانوں سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک میں کھلم کھلا
تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔پاکستان کے ذرائع ابلاغ کے لیے ماضی میں مقدس
گائے تصور کی جانے والی فوج کے کاروباری مفاد سے لے کر جرنیلوں کی مبینہ
بدعنوانیوں کے قصے بھی منظرِ عام پر آنے لگے۔ملکی کی سیاسی روایت میں
مبصرین کے خیال میں یہ تبدیلی کئی اعتبار سے بہت مثبت تھی لیکن عارضی ثابت
ہوئی۔گذشتہ سال عمران خان کے دھرنے اور ایمپائر کی انگلی کی جانب بارہا
اشاروں اور پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے جیسے واقعات سے سیاسی
منظرنامہ مکمل طور پر تبدیل ہو گیا ہے۔مبصرین کے خیال میں آپریشن ضرب عضب
اور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سے ملکی سکیورٹی کے ساتھ ساتھ پالیسی
سازی میں فوج کا کردار بہت سے معاملات میں کھل کر سامنا آیا ہے۔ میڈیا نے
بھی فوج کی بالادستی کو نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ ان کے دعووں اور بیانات
کو زور و شور سے شائع بھی کیا گیا''۔
یوں تو پاکستان کے قیام سے پہلے ہی پاکستان کے خلاف سازشوں کا سلسلہ شروع
ہو گیا تھا جس کی وجہ سے نوزائیدہ ملک کو شدید مسائل ،مشکلات اور سنگین
صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔یعنی قیام کے وقت سے ہی پاکستان کو سنگین
صورتحال کا سامنا رہا ہے۔اس سنگین صورتحال کے جاری رکھنے کی صورتحال یوں
سامنے آئی کہ کئی سیاسی سازشوں کے بعد پاکستان کو مارشل لاء کی بھینٹ چڑ ہا
دیا گیا۔ملک کو سنگین صورتحال کی بھینٹ چڑہائے رکھنے کا ایک اقدام مادر ملت
محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف دھونس ،دھاندلی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ ثابت
ہوا،جو ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کر رہی تھیں۔ملک کی بدقسمتی کا
ایک بھیانک نتیجہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی صورت سامنے آیا۔باقی پاکستان
میں اتحاد و یکجہتی کی تلقین میں متفقہ آئین تیار ہوا ،لیکن یہ ملکی اتحاد
و یکجہتی کی فضا محض چند ہی سال جاری رہ سکی کہ سیاسی جماعتیں باہمی
ٹکرائوں میں مبتلا ہو گئیں اور ایک بار پھر ملک میں مارشل لاء لگ گیا اور
فوج کا اقتدار تقریبا گیارہ سال جاری رہا۔اس کے بعد کبھی پیپلز
پارٹی(بینظیر بھٹو) اور کبھی مسلم لیگ(نواز شریف) کی حکومت رہی اور اس
سلسلے کی تان بھی جنرل مشرف کے مارشل لاء پر آ کر ٹوٹی۔سابق آمر جنرل ایوب
نے ملک سے حقیقی سیاسی جماعتوں کو خاتمے کی راہ دکھائی اور اس کے بعد جنرل
ضیاء الحق اور پھر جنرل مشرف نے جنرل ایوب کے'' ملٹری ڈیموکریسی''کی ترویج
کے طور پر مفاداتی، تابعدار سیاسی گروپ تشکیل دیئے۔
حالیہ ملکی صورتحال یہ ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں،مسلم لیگ(ن) اور
پیپلز پارٹی ملک کے لئے جمہوریت کا ہدف حاصل کرنے کی دعویدار تو ہیں لیکن
ان پارٹیوں کے رہنما بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ خاندانی،شخصی سیاست کے
انداز کو جاری رکھتے ہوئے ملک میں پارلیمنٹ کی حقیقی بالادستی قائم نہیں کی
جا سکتی۔ان دونوں سیاسی جماعتوں کے اخلاص کا یہی ثبوت ہوتا کہ وہ ملک کی
بربادی کو دیکھتے ہوئے اپنی اپنی جماعتوں میں جمہوری تقاضوں اور اصولوں کو
مضبوط بنانے پر توجہ دیتے،لیکن افسوس کہ خاندانی،شخصی سیاست کا چلن ختم
کرنا ہماری ''سیاسی قیادتوں'' کے پروگرام میں شامل نہیں ہے۔یوں پاکستان کی
بڑی سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوری عمل کو مضبوط بنانے کے لئے اپنے
خاندانی،شخصی انداز سیاست کو محدود کرتے ہوئے اپنی سیاسی جماعتوں کو حقیقی
طور پر سیاسی جماعت بنانے میں دلچسپی لیتے نظر نہیں آتیں اور نا ہی اس طرح
کے سیاسی کردار سے ملک میںبالا دست پارلیمنٹ کا قیام ممکن ہے۔ملک میں
جمہوری حکومت ہے لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی قوتوں کو شکست فاش ہو گئی
ہے۔سیاسی جماعتوں کے نام پر شخصی،خاندانی،علاقائی،فرقہ وارانہ گروپوں کے
اسی چلن نے مختلف ملکی اداروں کو ''گاڈ فادر'' بنا دیا ہے۔اور اسی چلن کی
وجہ سے سیاسی محکمے ،عدلیہ،انتظامیہ ،الغرض ملکی نظام عوام کے حق میں کام
کرنے کے بجائے ملک میں طبقاتی تقسیم کو مستحکم کئے ہوئے ہے۔ملک میں اس
سیاسی تباہی کا یہ مطلب نہیں کہ ملک پر مکمل اختیار و اقدار کے دعویدار کسی
ملکی ادارے کے '' دعوے'' کو مبنی بر حق تسلیم کر لیا جائے۔ملک میں سیاسی
تباہی کی درپیش صورتحال کے ذمہ دار بھی ان کے '' خالق '' ہیں جن مارشل لاء
حکومتوں نے حقیقی سیاسی جماعتوں کو خاتمے کی راہ دکھائی اور بد کردار
مفاداتی گروپوں کی تشکیل کی۔یوں اپنے قیام کے وقت سے ہی سنگین صورتحال کا
سامنا کرنے والے ملک کو اس وقت حقیقی طور پر فیصلہ کن خطرات کا سامنا ہے۔
لیکن ملک میں عوام اور ملکی اداروں کے درمیان نہ تو یکجہتی نظر آتی ہے اور
نہ ہی اتحاد ! تاہم پاکستان کو کمزور سے کمزور تر کرنے کے لئے ملک میں مزید
انتشار اور تقسیم کا رجحان ضرور نظر آ رہا ہے۔
مسلمانوں کا ماہ رمضان شروع ہو گیا ہے۔دنیا بھر کے مسلمانوں کی طرح اس ماہ
مقدس کے دوران ملک بھر میں خصوصی عبادات اور دعائیں کی جاتی ہیں۔ہم جانتے
ہیں کہ دعائوںسے دشمن کی توپوں میں کیڑے نہیں پڑتے اور ناہی اپنی غلطیوں کو
تسلیم کئے بغیر اصلاح کی کوئی گنجائش ہوتی ہے، لیکن پاکستان کے محب وطن
،نظریاتی لوگوں کے پاس دعائیں مانگنے کے سوا ،اور کوئی چارہ بھی تو میسر
نہیں؟ لہذا ماہ رمضان کے مقدس مہینے میںصدق دل سے مملکت پاکستان کی سلامتی
اور خیر کی دعا مانگیں(جس پاکستان میں عوام و ادارے سب آ جاتے ہیں)،ملک میں
عوام کے حقوق کے احترام کو اہمیت دیئے جانے اور ملک میں معاشی ،سیاسی اور
سماجی عدم مساوات کے خاتمے کی دعائیں مانگیں۔اس ملک کی قدر اسی کو ہے جس نے
اس کے حصول کے لئے قربانیاں دی ہیں،''رات کو سوئے ہندوستانی،صبح اٹھے تو
پاکستانی'' اور مفادپرستی و طبقاتی بالادستی میں مبتلا افراد اس مملکت
خداداد پاکستان کی قدر و منزلت کے احساس سے عاری نظر آتے ہیں۔ |
|