ایم شفیع میر،گْول
ضلع رام بن سے 53کلو میٹر دور واقع گْول نامی قصبہ اپنی خوبصورتی کی بدولت
کشمیر،جِسے جنت بے نظیرکہاگیا ہے، کی ہی طرح ،بلکہ اس سے بھی زیادہ،
خوبصورت ہے۔حالانکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس علاقے کی جانب جیسے کبھی کسی
کی نظر گئی ہی نہیں ہے سو یہ علاقہ ہے کہ جیسے کہیں موجود بھی نہیں ہے۔
گْول……باغِ جنتِ کشمیر کا ایک ایسا پھول ہے کہ جو متعلقین کی بے اعتنائی کی
وجہ سے مْرجھایا ہوا سا ہے۔
گْول کی خوبصورتی کوچارچاندلگانے میں یہاں کے سرسبزجنگلات اہمیت کے حامل
ہیں جنہوں نے اس خوبصورت قصبے کو یوں اپنی بانہوں میں لپیٹ رکھا ہے کہ جیسے
کوئی ماں اپنے بچے کو اپنی گودمیں سنبھالے ہوئے ہو۔ سیاحتی اعتبار سے گْول
کی اہمیت کونظرانداز کرنا کِسی سازش کاحصہ نہیں تو اورکیا ہوسکتا ہے کیونکہ
اس خوبصورتی کانظارہ ایک نابینا بھی محسوس کرسکتا ہے لیکن یہاں کے’’ عوامی
نمائندے‘‘ اس احساس سے محروم ہیں……کیوں یہ ایک ایسا سوال ہے کہ جو اہلیانِ
گْول کے اندر ایک خاموش درد کی طرح اْنہیں جان لیوا مایوسی کا شکار کئے
ہوئے ہے!
جموں-سرینگر شاہراہ سے ایک شاخ رام بن سے نکل کر دھرم کْنڈ کو پار کرنے کے
بعد پہاڑوں کا سینہ چیرتی ہوئی سنگلدان سے گذرتی ہے تو گْول کی مد مست اور
رومانوی خوبصورتی کا نظارہ ہوتاہے۔گْول سے ایک سڑک کلی مستہ گاگرہ کے لئے
ہے جس پر تعمیری کام ایک عرصہ سے یوں سْست روی سے جاری ہے کہ نہ جانے کب تک
بس جاری ہی رہے گا۔اِسی سڑک کے کنارے گْول سے تقریباً 5 کلو میٹر کی دوری
پر ایک جگہ ’’کْوٹ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے یہ جگہ ایک پہاڑی پر واقعی ہے۔
پتھروں کے گھوڑے اور گھوڑوں پر سواراپنے ہاتھوں میں مختلف قسم کے ہتھیار
اْٹھائے ہوئے مجسمے خاموشی کے ساتھ اْس وقت کے لوگوں کی تاریخ کا سبق
پڑھاتے ہیں کوٹ مقامی سیاحت کااہم مرکز ہے جو اگرچہ ’’مذہبی سیاحت‘‘کے بطور
ترقی پانے کی صلاحیت اور حق بھی رکھتی ہے مگر اربابِ حل و عقد کی نظروں سے
اوجھل۔اِس جگہ پر زمانہ قدیم کے فنِ سنگ تراشی کے نمونے یوں موجود ہیں کہ
آج کے ترقی یافتہ دور کے فنکار بھی دیکھیں تو اش اش کر اْٹھیں اور اپنے فن
کو ہیچ ماننے لگیں……پتھروں کے گھوڑے اور گھوڑوں پر سواراپنے ہاتھوں میں
مختلف قسم کے ہتھیار اْٹھائے ہوئے مجسمے خاموشی کے ساتھ اْس وقت کے لوگوں
کی تاریخ کا سبق پڑھاتے ہیں۔
پانڈووں نے پتھروں کے بنائے ہوئے مٹکوں پر مختلف قسم کی دِل لْبھانے والی
نقاشی کیا کی ہے اور پتھروں پرلکڑی کی طرح کی کشیدہ کاری کا کام کیا منفرِد
ہے کہ دیکھنے والا بس دیکھتا ہی رہ جاتا ہے۔قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ آثارِ
قدیمہ کی موجودگی کے اعتبار سے بھی اہم ہونے کے باوجود وقت کے تھپیڑوں نے
یہاں کی حالت کچھ یوں بنا دی ہے کہ جیسے جنگل کا بھی جنگل ہو……!ایسا نہیں
ہے کہ آثارِ قدیمہ کے اس بیش بہا سرمایہ کے بارے میں اربابِ اقتدار جانتے
نہیں ہیں بلکہ معاملہ یوں ہے کہ اپنے دیگر انتخابی وعدوں کی ہی طرح اس
علاقے کی سیاحت اہمیت سے متعلق وعدوں کو بھی بس بھلا دیا جاتا رہا ہے۔کتنے
ہی حکمراں ہوئے کہ جنہوں نے یا جنکے نمائندوں نے گْول کی جانب توجہ کر کے
اس علاقے کو ریاست کے سیاحتی نقشے پر لے آنے کے بہت بڑے وعدے تو کئے لیکن
نہیں کیا تو بس ان وعدوں سے وفا۔مختلف سرکاروں کی اِس نظر اندازی اور عدم
توجہی کی وجہ سے پتھروں کی بنائی ہوئی مورتیاں ،گھوڑے، مٹکے اور پتھروں پر
دِل لْبھانے والی کشیدہ کاری والے پتھر زمین میں دب گئے ہیں۔ بس چند ہی
نمونے ہیں جو کہ نظر آ رہے ہیں۔مقامی آبادی کو گِلہ ہے کہ متعلقہ ’’عوامی
نمائندے ‘‘و دیگرسیاسی لیڈر علاقے کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں۔
مقامی لوگوں کا موجودہ حکومت کے وزیرِ اعلیٰ مفتی سعید سے بھی شکوہ ہے کہ
نہ صرف یہ کہ وہ گْول والوں سے اس علاقے کو سیاحتی نقشے پر لانے کا وعدے کر
گئے تھے بلکہ وہ وزیرِ اعلیٰ ہونے کے ساتھ ساتھ وزیرِ سیاحت بھی ہیں مگر
گْول اور اہلیانِ گْول کو کہیں سے کوئی خوشخبری سنائی نہیں دے رہی ہے۔پھر
ان لوگوں کو شکوہ بھی کیوں نہ ہوگا کہ قدرت کی جانب سے نوازے جانے کے
باوجود بھی اس علاقے میں غربت اور بے روزگاری کا دور دورہ ہے۔حالانکہ یہاں
کے قدرتی نظاروں،رومانوی مناظر،مذہبی اہمیت کے مقامات،خوبصورت جنگلوں اور
قدرت کی دی ہوئی دیگر نعمتوں کی ایک ضابطے کے تحت ’’مارکٹنگ‘‘کی جاتی تو
علاقے کو اْس سب کا ثمرہ مل جاتا کہ جس سے اسے قدرت نے نوازا ہوا ہے۔اہلِ
گْول کا اندازہ ہے کہ اگر اس علاقے میں بنیادی سہولیات کو بہتر کرتے اور
ضروری ڈھانچہ کی تعمیر کرتے ہوئے سیاحت کو فروغ دیا جائے تو یہاں کے بیشتر
بے روزگاروں کو کسی نہ کسی طرح مصروف کیا جا سکتا ہے۔لیکن کیا کوئی سرکار
اس پچھڑے ہوئے علاقہ اور یہاں کے باسیوں کی ایک ووٹ سے آگے اہمیت سمجھے گی
بھی،کیایہ علاقہ اگلے انتخابات سے قبل کسی’’عوامی نمائندے‘‘کو یاد بھی آئے
گا……؟ |