شہروں میں ایک شہر دیکھا شہر کلکتہ

ہندوستان میں یوں تو بہت سارے شہر ہیں اور ہر ایک اپنی سوال آپ ، اپنا جواب اور اپنی مثال آپ۔مگر اشرف البلاد کلکتہ کے تو کہنے ہی کیا۔ خوبصورتی اور سادگی کاحسین سنگم کلکتہ بس دیکھتے ہی بنتا ہے۔
غالب نے کلکتہ کاسفر یاد دلانے پر کہا تھا:
کلکتہ کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
دل پہ لگا اک تیر بس ایسا کہ ہائے ہائے!!

کلکتہ کے اخبارو ں،آزاد ہند ،آبشار،راشٹریہ سہارا او راخبار مشرق میں میرے مضامین شائع ہونے کے بعد خدا نے مجھے بھی یہ دن دکھایا کہ میں کلکتہ دیکھوں اور اہلیان کلکتہ کی محبتو ں،نوازشوں ،عنایتوں اور اپنائیتوں کو قریب سے ملاحظہ کر وں ۔یوں تو وہ محض پانچ دن کا سفر تھا ۔آنے جانے کے دو دن چھوڑ کر بچے تین دن ۔مگر یقین جانیے! تین دن میں ‘میں نے کلکتہ اور اطراف کلکتہ سب دیکھ ڈالا۔وہاں کی روایات،رہن سہن،طرززندگی،معاشرت اور پہننے اوڑھنے نمونے سب دیکھ ڈالے ۔یہ سب میرے عزیز دوست صلاح الدین خان عرف عبد الوکیل جو میرے لیے دوست سے زیادہ بھائی کی حےثیت رکھتے ہیں،ان کی ہی نوازشیں تھی کہ میں کلکتہ پہنچا اور کلکتہ کو گھوم گھوم کر دیکھا۔گلی محلوں میں جا جا کر دیکھا ۔بازاروں اور قابل ذکر مقامات پر پہنچ پہنچ کر نظارہ کیا ۔

اب ملا حظہ کیجیے پانچ دنوں کی روداد:

پہلا دن -----
وہ ۴۱ دسمبر ۴۱۰۲ ءکی شام تھی جب میں نئی دہلی سے کلکتہ کے لیے ”یوا ایکسپریس “سے کلکتہ کے لیے روانہ ہوا۔وہ سردیوں بھرے دن تھے اور فضا میں دھند تہہ تہہ در چھا ئی ہو ئی تھی ،اس لیے ٹرین بجائے ۲۱ گھنٹے کے ۴۲گھنٹے میں ہوڑہ ا سٹیشن پہنچی ۔ اس وقت شام کے سات ۔ آٹھ بج رہے تھے جب میں اپنے ساتھی اور کانکی نارہ کے باشندے شاداب عالم کے ساتھ ہوڑہ اسٹیشن سے سیالدہ اسٹیشن جانے کے لیے بس میں سوار ہوا۔سیالدہ سے ذرا پہلے اوور برج کے پاس میں اترا اور وہیں مجھے اور شاداب عالم بھائی کو میرے بھائی عبد الوکیل کے نمائندے اور دوست محمد ممتاز عالم نے خوش آمد ید کہا اور پھر ہم تینوں وہاں سے سیالدہ اسٹیشن چلے جہاں عبد الوکیل بھائی سمیت دیگر احباب استقبال کے لیے موجود تھے ۔ملاقات ہو ئی اور بہت اچھی طرح ہوئی ۔عبد الوکیل بھائی نے میرے گلے پھولوں کا ہار ڈالا وہ منظر آج تک آنکھوں میں بسا ہے ۔اس کے بعد ابتدائے سفر لے کر اب تک کی باتیں ہو ئیں اور خوب ہو ئیں ۔پھرہم سب سیالدہ اسٹیشن سے جگتدل کے لیے لوکل ٹرین میں سوار ہوئے۔واضح رہے کہ کلکتہ شہر سے جگتدل قصبہ تقریبا ۰۳ کلومیٹر شمال میں واقع ہے عبد الوکیل بھائی وہیں کے باشندے اور بی اے کے طالب علم ہیں۔
باتوں کا سلسلہ دوران سفر بھی جاری رہا اور اس دوران ہم سب لوگ ایک دوسرے کے متعلق بہت کچھ جان گئے اور بہت کچھ سمجھ گئے۔ہم لوگ باتوں میں اتنے مگن تھے کہ سیالدہ سے جگتدل تک پونے گھنٹے کا سفر کتنی جلدی ختم ہو گیا ،اس کااحساس ہی نہ ہو سکا۔باتیں پھر بھی ختم نہ ہو ئیں ۔باتیں کہا ںختم ہوتی ہیں جناب ! ہاں کوئی ہو کر نے والا ۔

۴۲ گھنٹے کے سفر کی تکان کی تان اس وقت ٹوٹی جب میں اپنے بھائی عبد الوکیل کے ساتھ ان کے کمرے پر پہنچا اور وہاں شام کا کھانا کھانے کے بعد آرام کر نے کے لیے لیٹ گیا۔بھائی کے بہت سے احباب مجھ سے ملنے کے خواہش مند تھے ۔میں ان سے ملا اور پھر باتیں ہو ئیں ۔یہاں وہاں کی باتیں ۔سیاست کی سماج کی۔تعلیم کی دانشوری کی۔کچھ سیکھنے سمجھنے اور سننے بتانے کی باتیں ۔جب رات گھنی ہو ئی تو پھر سونے میں ہی عافیت سمجھی ۔ ہاں! سونے سے پہلے آنے والے دن میں گھومنے کا پورا منصوبہ بنا لیا گیا تھا۔

دوسرادن -----
دوسرے دن کا سورج نکلا اور سوتوں کو جگاگیا ۔جاگتوں کو عمل بھی کر نا ضروری ہوتا ہے جو کیا گیا اور منصوبے کے مطابق میں اور عبدالوکیل بھائی کلکتہ کی سیر کے لیے نکل پڑے۔پہلے دن صبح ہی صبح جگتدل قصبے کی گلیوں اور محلوں ،سرکاری اسپتال کے احاطوں سے نکل کر ہم کئی لوگ جگتدل اسٹیشن پہنچے اور سیالدہ کے ٹکٹ لیے۔کچھ دیر بعد ٹرین آئی اور اس نے وہی وقت معینہ یعنی پونے گھنٹے میں کلکتہ پہنچادیا۔یہاں پہنچ کر مجھے خیال آیا ،چو ںکہ میں کلکتہ گھومنے آیا ہوں ،پھر کیوں نہ اسے پیدل چل کر دیکھا جائے ۔گاڑی یا ٹرام میں بیٹھ کر کبھی پھر سفر کر لیا جائے گا”اگر خدالایا“ چنانچہ میں نے یہ تجویز عبد الوکیل بھائی کے سامنے رکھی اور انھوں نے فوراً اسے مان لیا۔بس پھر چل پڑے ہم دونوں کلکتہ گھومنے۔
اسٹیشن سے باہر آتے ہی سب سے پہلے جو چیز دیکھی وہ انگریزی عہد کی یادگاراور کلکتہ کی شان ”ٹرام“ریل گاڑی تھی ۔undividerسڑک کے بیچوں بیچ اس کی پٹریاں بچھی ہو ئیں تھیں ۔ وہ بجلی سے چلتی تھی اوراس کی رفتارضرورت کے وقت کم و زیادہ کی جاسکتی تھی ۔امرجنسی یا بوقت ضرورت بآسانی اسے روکا بھی جاسکتا تھا۔کئی نظارے تو ایسے دیکھنے میں آئے کہ پیچھے سے ٹرام آرہی ہے اور اس کے آگے سڑک پر گاڑی کھڑی ہو ئی ہے ۔چنانچہ ڈرائیور گھنٹی بجاکر یا آواز دے کر اس سے سائڈ مانگتا گاڑی کے سائڈ میں ہوتے ہی ٹرام پھرچل پڑتی۔ٹرام کے ٹکٹس اسی کے اندر ملتے تھے۔آرام بخش اور وقت بچانے والی ،کیا خوب گاڑی تھی ٹرام۔حسب دستور اس کے باہری اور اندرونی حصو ں پر کمپنیوں اور صنعتی اداروں کے اشتہارات چسپاں تھے ۔جن سے اس کی خوبصورتی دو چند ہو گئی تھی ۔ٹرام کسی بھی اسٹیشن پر بس دو منٹ رکتی تھی اور پھر چل پڑتی۔گاڑیوں اور بسوں کی دھواں دار آواز میں اس کی آواز بھی نہیں سنائی دیتی ۔ہاں! اس کا وجود تھا ۔ اس کا وجود کوئی کیسے ختم کرسکتا ہے۔

مختلف راستوں،گلیوں اور چوراہوں سے گزرتے اور باتیں کر تے ہوئے ہم لوگ کلکتہ کی شاندار وراثت”مسلم انسٹی ٹیوٹ“دیکھنے پہنچے ۔مسلم انسٹی ٹیوٹ کے بارے میں اتناہی معلوم ہوا کہ یہ ماضی میں مسلمانان کلکتہ کا تعلیم و تربیت کے حوالے سے اوران کی شناخت کے حوالے سے معتمد اور قابل بھروسہ ادارہ تھا مگر آج کل اس کے بیشتر حصو ں میں اُلّو بولتے ہیں اور اس کی فیض رسانیوں کا سلسلہ بند ہے۔عبد الوکیل بھائی اس کی زبوں حالی پر بہت افسردہ تھے ۔

اسی سے ملحقہ شہرہ آفاق ”کلکتہ مدرسہ کالج یا جامعہ عالیہ کلکتہ“ دیکھا جو اَب عالیہ یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہے۔اب تو اس کے لیے چھے منزلہ خوبصورت نئی عمارت بھی بن گئی جس میں اس کے دفاتر اور کلاسیں منتقل ہو گئیں تا ہم قدیم عمارت بھی ابھی استعمال میں ہے۔جامعہ عالیہ دیکھ کر آنکھوں میں وہ تمام ماضی کی عظمتیں سمٹ آئیں جو اس سے منسوب اور وابستہ ہیں ۔وہ کیا دور تھا جب لوگ جامعہ عالیہ کلکتہ سے فیض یاب ہو کر دنیا کے کونے کونے کو منور کرتے تھے۔مختصر یہ کہ ادیبوں ،شاعروں ،قلم کارو ںاور مفکرین و دانشور وں کا ایک بڑا طبقہ جامعہ عالیہ سے فیض یاب ہوا۔

مسلم انسٹی ٹیوٹ اور جامعہ عالیہ کے بعد”مغربی بنگا ل اردو اکیڈمی “ہماری منزل تھی۔مغربی بنگال اردو اکیڈمی کئی منزلہ عمارت سابق وزیر اعلا مغربی بنگال جیوتی باسوکے ذریعے 1997 میںافتتاح کنندہ ہے۔اس عمارت میں اکیڈمی کے دفاتر کے علاوہ طلبا اور شائقین کے لیے لائبریر ی قائم ہے ،جہاں مختلف موضوعات پر مشتمل کتابوں کے علاوہ دنیا جہان سے آنے والے ادبی و علمی رسائل بھی موجود ہیں ۔خود اکادمی اپنا دوماہی رسالہ”روح ادب “نکالتی ہے۔جس کی دنیا میں بھر شہرت ہے۔

اکیڈمی پہنچتے اور دیکھتے شام کے دھندلکے سے ہونے لگے اور سورج اپنی تماز ت سی کھونے لگا ۔ہلکی سردی بھی بڑھنے لگی جس نے موسم کو بہت ہی خوبصورت بنا دیا۔ان دنوں اکیڈمی اور” اخبار مشرق“ کی جانب سے کتاب میلے کی تیاریاں ہو رہی تھیں ،اس لیے اکیڈمی کے سامنے کے تالابی میدان میں تنبو وغیرہ لگائے جارہے تھے۔اکیڈمی دیکھنے کے بعد ہم لوگ پھر کلکتہ کی سڑکیں نانپنے لگے ۔وہاں کی روایات،ثقافت اور رہن سہن دیکھنے لگے۔اسی دوران انسانوں کے ذریعے کھینچے جانے والے چھکڑے اور رکشے بھی دکھا ئی دیے۔ا ب اسے کیا کہا جائے۔پیٹ کی آگ یا پرانی روایت کا چلن ۔بہر حال یہ کلکتہ کا اپنا مسئلہ ہے میں کیا کہہ سکتا ہوں۔

ان ہی راستوں سے گزرتے ہو ئے ہم لوگ ”کلکتہ میونسپل کارپوریشن“ کی لال بلڈنگ پہنچے ۔اس کے سامنے بلند و بالاچرچ کی عمارت واقع تھی جس کے سامنے کر سمس کے سامان اور پھولوں سے سجی دکا نیں لگی تھیں۔کلکتہ میونسپل کارپوریشن ،دو حصوں میں تقسیم ہے ۔ایک سڑک کے مشرقی جانب اور دوسرا مغربی اور ان دونوں کو جوڑنے کے دلکش لوہے کا پل بنا رکھا ہے ۔بہت اچھا لگایہ دیکھ کر ۔ کے ایم سی سمیت آس پاس کی تمام عمارتیں قدیم طرز کی اور پر شکوہ تھیں۔نہ ممبئی جیسی دیو ہیکل اور آسمان سے باتیں کر تی ہو ئیں اور نہ گوڑگاﺅں،دہلی،نوئیڈا اور بنگلور کی طرح بے سمت پھیلی ہو ئیں بلکہ سلیقے اور قرینے سے دلکش تعمیر کا عمدہ نمونہ،ہاتھوں کا شاہ کار بنی ہوئی ایستادہ تھیں۔آس پاس خریدداری کر نے والوں کا جم غفیرتھا ۔اگر چھتوں سے دیکھا جاتا تو سر ہی سر نظر آتے ۔

کلکتہ میونسپل کارپوریشن کی عمارت دیکھنے کے بعد کلکتہ کے مشہور اور تاریخی میدان” شہید مینار “جانا ہوا ۔شہیدمینار میدان ایک بہت ہی وسیع و عریض میدان ہے۔یہ میدان سیاسی ،ثقاقتی اور مذہبی پروگراموں کے کام آتا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ وہاں مینار تو آج بھی قائم ہے مگر شہید کوئی نہیں ملا۔

اس وقت شہید میدان میں سی پی آئی( ایم) کا ہنگامی جلسہ ہو رہا تھا جس کی کال ترنمول کانگریس کے ایم ایل اے اور کابینی وزیر” مدن مترا “کی شاردا گھوٹالے میں گر فتاری کے بعد کی گئی تھی۔مقررین بنگلہ زبان میں جانے کیا کیا کہہ رہے تھے ،ہاں ! اتنا ضرور ہے کہ وہی سیاسی گالیاں،لعن طعن اور الزام تراشیاں ہوں گی جو ادھر بھی رائج ہیں اور ساری دنیا میں سیاسی سماج یکساں ہی ہوتا ہے۔جلسہ ہو تا رہا اور ہم دونوں وہاں سے گزرتے ہو ئے ہندوستان کے سب سے بڑے کرکٹ اسٹڈیم ایڈن گارڈن کی جانب نکل گئے۔ایڈن گارڈن کے راستے میں ایک میدان ملا جس کے بارے میں عبد الوکیل بھائی نے بتایا کہ اسے نماز عید کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ایڈن گارڈ ن سے پہلے ہی کلکتہ اولمپک ایسوسی ایشن کا” محمڈن اسپور ٹس کلب “کا تاریخی میدان بھی واقع ہے۔چنانچہ ہم دونوں پہلے وہاں گئے اور دیر تک اسٹڈیم کی بنچوں پر بیٹھے رہے ۔شام اب پوری طرح چھانے کو بے قرار تھی اور شہر کے کچھ حصوں پر تو چھا بھی چکی تھی۔محمڈن اسپورٹس کلب کے اسٹڈیم سے ایڈن گارڈن صاف نظر آرہا تھا ۔دل چاہا کہ اسے بھی دیکھاجائے اور ہم دونوں چل پڑے۔ہاﺅڑہ یونین اسپورٹس کمپلکس کے گیٹ سے نکل کر ہم دونوں ایڈن گارڈ کے گیٹ نمبر ایک پر پہنچے مگر وہ بند ملا تو آگے بڑھ گئے۔مشرق میں چلتے ہوئے آکاش وانی کلکتہ، کی عمارت دیکھی اور پھر اسٹڈیم کے چکر لگاکر گیٹ نمبر ۲۱ پر پہنچے جو اتفاق سے کھلا ہوا تھا اور اس میں سے لوگ نکل رہے تھے۔میں نے عبدالوکیل بھائی سے کہا چلیے چل کر دیکھتے ہیں ،ہو سکتا ہے ہمیں انٹری کا موقع مل جائے ۔ایسا ہی ہوا اور ہم لوگ کھیل میدان میں چلے گئے۔پتا چلا کہ ابھی کچھ ہی دیر پہلے لوکل ٹیموں کا میچ ختم ہوا ہے ۔چلو کوئی بات نہیں ہاں ! ایڈن گارڈن میں بیٹھنے،اسے قریب سے دیکھنے اور اس میں فوٹو کھینچنے اور کھنچوانے کا خوب موقع ملا۔میں نے زندگی میں پہلی بار کوئی اسٹڈیم اتنی قریب سے دیکھا تھا۔بہت اچھا لگا۔اسٹڈیم کی سکیورٹی اور حفاظتی اقدامات بہت خوب تھے ۔نشستوں کے قریب قدم آدم تک لوہے کی جالیاں لگی تھیں۔ان سے دس قدم کے فاصلے پر کرسیاں لگی تھیں اور سی سی ٹی وی کیمرے پورے میدا ن میں نصب تھے۔مجال ہے جو پرندہ بھی پر مار جائے۔یہ بات الگ ہے کہ پرہی ٹوٹ کر گر جائے،اس کا تو کوئی علاج ہی نہیں اور نہ ہی اس میں بم باندھا جاسکتا ہے۔

ایڈن گارڈن دیکھنے کی تمنا بھی پوری ہو ئی ،وہاں سے نکلنے کے بعد ہم دونوں مختلف مقامات سے ہوتے ہوئے ”ہگلی ندی کے چند پال گھاٹ“ پہنچے۔یہاں آکر دیکھا تو سورج بہت بلند تھا ،یعنی ابھی دن باقی تھا ہاں! زوال کی کئی منزلیں گزرچکی تھیں۔ہگلی ندی،تاریخی ندی۔نواب سراج الدولہ کی ندی۔بنگال کی ندی۔کتنی تاریخیں جڑی ہیں اس سے ۔کتنی یادیں وابستہ ہیں اس سے ۔اس نے کتنے بادشاہوں،نوابوں ،حکمرانوں اور فرما ن سنانے والوں کا عروج و زوال اقبال و تباہی اور ہستی و نیستی دیکھی ۔اسی کے سامنے سب پیدا ہو ئے،بنے یا قابض ہوئے مگر سب ختم ہو گئے ۔ہگلی آج بھی اسی طرح بہہ رہی ہے اور اس کی پرشور،اچھلتی کودتی لہریں اس کی جوانی کا عنوان بنی ہو ئی ہیں ۔ہوڑہ اور کلکتہ کے درمیان تین کلومیٹر کے فاصلے پر بہنے والی اس ندی پر حالاں تاریخی ہوڑہ برج بھی بنا ہوا ہے جس پر بسیں ،ٹیکسیاں ،آٹو رکشہ اور دیگر سواریاں چلتی ہیں مگر ندی میں بھی دو منزلہ انجن کی کشتیاں چلتی ہیں ۔جن کا کرایہ تین روپے ہے،سائےکل کے ساتھ پانچ روپے۔اس میں جوٹ ملوں میں کام کر نے والے،مزدور پیشہ یا سیاح بیٹھتے ہیں ۔ہر دومنٹ پر ان کی سروس ہے ،سبک رفتاری سے چلتی ہیں ۔ پائلیٹ نہایت ہو شیار ی سے ان کی ڈرائیونگ کرتا ہے۔کنارے پر پہنچتے ہی اسے بڑے بڑے کھونٹوں سے باندھ دیا جاتا ہے اور سواریاں اتر جاتی ہیں ۔
پہلے دن تو یہ نظارا دیکھا۔چو ں کہ آج بہت زیادہ چلنا ہوا تھا اور اب شام کے سائے بھی بڑھتے آرہے تھے اس لیے کچھ دیر بیٹھ کر سستا نے کا من ہوا اور وہ سستایا گیا۔

سستانے اور چست پھرت ہونے کے بعد پھر گھومنے کا سلسلہ جاری ہوا۔اس مرتبہ ایڈن گارڈن ہو تے ہوئے” مغربی بنگال اسمبلی“ اور” مغربی بنگال ہائی کورٹ“ کی عمارتیں دیکھیں ۔اب سچ مچ ہی شام ہو گئی تھی اور اسٹریٹ لائٹیں جل اٹھیں تھیں تاہم اجالا باقی تھا۔ہم لوگ چلتے رہے۔اسمبلی اور ہائی کورٹ کے مشرق میں ہی واقع” راج بھون“ پہنچے ۔اندھیرا اب سروں سے اونچا ہو گیا تھا ۔راج بھون سے نکل کر عام شاہراہ پر پہنچے تو کلکتہ کے مشہور اخبار ”روزنامہ آبشار“کے دفتر پر نظر پڑی۔ میرے مضامین شائع کر نے والے اخبار کا دفتر دِکھے اور وہاں جانا نہ ہو ،ایسا مجھ سے نہ ہو سکا ۔حالاں کہ آج کے دن صبح سے گھومتے گھومتے ہم دونوں کے کس بل ڈھیلے ہو گئے تھے مگر جہاں اتنے گھومے وہاں تھوڑا اور سہی۔بس یہ سوچنا تھا کہ قدموں نے چل چل کر اخبار کے دفتر پہنچادیا۔وہاں نیوز ایڈیٹر خورشید احمد سے ملاقا ت ہو ئی اور باتیں ہو ئیں ۔حالاں کہ یہ ملاقات چند منٹ کی ہی تھی مگر تھی بہت اچھی۔عبد الوکیل بھائی کے لیے ایک تحفہ بھی۔چو ںکہ وہ آج تک کسی اخبار کے آفس نہیں آئے تھے اور میرے لیے بھی ،اس لیے کہ میں اب تک اس اخبارکو انٹر نیٹ پر ہی دیکھا کر تاتھا۔کتنی بڑی خوشی کی بات تھی کہ میں اس کے دفتر میں پہنچ گیا تھا۔

آبشار کے آفس سے نکلنے کے بعد ہم تاریخی” ٹیپو سلطان مسجد “پہنچے ۔یہاں مختلف سامانوں سے سجی دوریہ دکانیں اور کھانے پینے،چائے ناشتے کی ہوٹلیںواقع ہیں ۔ٹیپو سلطان مسجد ،بہت شاندار مسجد ہے اور شیر میسور ٹیپو سلطان کی جانب اس کی نسبت ہے۔اس کے پاس منی میدان بھی ہے جہاں کبھی کبھار نکڑ سبھائیں ، مشاعرے اور سیاسی جلسے منعقد ہوتے ہیں ۔یہاں ہم لوگوں نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔دراصل صبح کے ناشتہ کیے ہم لوگ گھومنے میں اتنے مگن ہوئے کہ کھانے کا دھیان ہی نہیں رہا ۔ایک تو تھکاوٹ اوپر سے کھانا ،میرے لیے تھوڑا مضر ثابت ہوا ۔میں نے تھوڑا سا ہی کھانا کھایا تھا جس نے پےٹ میں پڑتے ہی اچھل کود مچادی مگر میں اسے روکتا رہا۔وہ اچھل کود رکتی بھی رہی۔مگر اس نے زیادہ دیررکنے سے صاف منع کر دیا۔میں چاہتا تھا کہ جائے قیام جا کر وہ دھما چوکڑی مچائے مگر اس نے صاف منع کر دیا۔پیٹ بوجھل ہونے لگا او ر کھانا الٹی کی صورت میں نکلنے پر آمادہ ۔ہم دونوں جلدی جلدی جانے کیسے کیسے سیالدہ اسٹیشن پہنچے اور وہاں سے لوکل ٹرین پکڑ کر جگتدل اسٹیشن پہنچے،وہاں سے سائیکل لی اور گھر کی طرف چل پڑے۔راستے کے بریکر سے کے اچھال سے پیٹ کی گڑبڑنے بھی اچھال مچا دی ۔یہاں تک کہ ایک مقام پر مجھے الٹیاں آگئیں۔کچھ دیر بعد جب طبیعت میں سدھار آیا اور ہم دونوں کمرے کی جانب چل دیے۔پھر بستر تھا اور دن بھر گھومتے رہنے والا بدن لیٹتے ہی بنا۔دل چسپ بات یہ تھی 30کلومیٹر پیدل چل کربغیر کہیں رکے گھومنے کے بعد بھی آج کی اس تھکاوٹ نے دماغ اور ارادوں کو نہیں تھکایا تھا۔رات کے بعد دوسرے رہی سہی جگہوں کو دیکھنے کے خوشنما تصورات نے لمحہ بھر میں اس تھکن کو مٹا دیا۔رات میں خوب اچھا کھانا کھایا اور پھر احباب کے ساتھ تاثراتی میٹنگ ہوئی اس کے بعد سونا۔جس کا سلسلہ دوسری صبح تک چلا۔

تیسرا دن -----
تیسرے دن بھی سورج نے ہی جگایا۔سورج ہی اپنی آمد کی گھنٹی بجا کر جگاتا ہے اور پھر انسان جہاں سے چلے تھے وہیں کے لیے چل پڑتے ہیں ۔یہ وطیرہ ازل سے جاری ہے اور ابد تک رہے گا۔اسے نہ کوئی بد ل پایا ہے اور نہ یہ بدلا جائے گا ورنہ نظام ِ کائنات درہم بر ہم ہوجائے گا۔

دوسرے دن کی صبح کچھ ناخوشگوار سی ثابت ہوئی ۔اس لیے کہ اس دن کے اخبارات میں بڑی بڑی سرخیوں میں پاکستان کے پشاور میں واقع آرمی اسکول پر حملہ کر کے سینکڑوں معصوموں کی جان لینے کی خبریں تھیں ۔اس دن کا کوئی اور کسی زبان کا اخبار ایسا نہیں تھا کہ جس نے اس خبر کو شہہ سرخی نہ بنا یا ہو۔اخبا ر تو اخبار ٹی وی چینلس اور ریڈیو اسٹیشن تک بھی اسی حادثے کا بیان بنے ہو ئے تھے۔اس وقت قریب تھا کہ میں بھی وہی کہوں اور سوچوں جس کی لن ترانیاں زمانے بھر میں ہو رہی تھیں مگر نہیں صاحب !مجھ سے انصاف کا دامن نہ چھوڑا گیا۔میں نے پشاورآرمی اسکول حملے پر بڑی بڑی باتیں کر نے والوں ۔لمبے لمبے بیان دینے والوں اور بے لاگ تبصرے کر نے والوں سے بس اتنا ہی پوچھا کہ وہ اس وقت کہا ں چلے جاتے ہیں جب امریکہ اور اسرائیل معصوم فلسطینیوں کو سنگینیوں کا نشانہ بنا تے رہتے ہیں ۔ سب آنکھیں کیوں بند کر لیتے ہیں۔یہ قیامتیں ہوتی رہتی ہیں اور کوئی صحافی،قلم کار اور مبصر کچھ نہیں بولتا اور پیشاور معاملے پر سب پاکستان کی جان کے پےچھے پڑ گئے۔خیر یہ تو میری ا نفرادی سوچ اور معاملہ ہے ۔ویسے وہ واقعی ایشیا کے لیے تھا ہی افسوس ناک واقعہ جس کی مذمت کر نے والوں کے نے خوب مذمت کی۔
صبح کی پو پھٹتے ہی اخباردیدنی و خوانی کے بعد اتفاق سے اسی وقت شاداب عالم بھائی کانکی نارہ سے آگئے ۔اس دوران چو ں کہ عبد الوکیل بھائی اپنے کچھ ضروری کام کر رہے تھے ،اس لیے میں اور شاداب عالم بھائی” چندن نگر“ دیکھنے کے لیے چلے گئے جو جگتدل سے تھوڑی ہی فاصلے پر ہبلی ندی کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔انجن بوٹ سے ہم دونوں چند ن نگر پہنچے اور وہاں گھومتے ہوئے ایک دکان پر ناشتہ کیا۔چند ن نگر کی اُس انفرادیت کی جھلکیاںجگہ جگہ نمایاں تھیں جو انگریز ی عہد میں اس نے قائم کی تھیں ۔یہ کتنی منفرد بات ہے کہ جب پورے ہندوستان پر انگریز وں کا قبضہ تھا اس وقت چندن نگر میں فرانسیسی کانسٹیٹیوشن چلتا تھا۔حالاں کہ چندن نگر کا رقبہ محض تین چار کلومیٹر تک محدود ہے اس کے باوجود انگریز اس پر اپنا تسلط نہ جما سکے۔ایک انفرادی بات کا ذکرکر نا لازمی معلوم ہوتا ہے۔میں نے ایک جگہ دیکھا کہ بنگلہ زبان میں نوبل پرائز یافتہ” کیلاش ستیارتھی“ اور” ملالہ یوسف زئی“ کو مبارک باد کا پوسٹر لگا ہوا تھا۔حالاں کہ ایسا میںنے پورے کلکتے میں کہیں نہیں دیکھا۔ ہیں نا! انفرادیت کی بات !!میں نے اس کے کئی پوز لیے جو آج بھی میری البم میں موجود ہیں۔

چندن نگر گھوم کرمیں اور شاداب عالم بھائی پھر جگتدل آگئے جہاں عبد الوکیل بھائی ہمیں تیار ملے اور پھر شاداب عالم بھائی کو رخصت کر نے کے بعد ہم لوگ بقیہ کلکتہ دیکھنے کے لیے روانہ ہوگئے۔جگتدل ریلوے اسٹیشن اور لوکل ٹرین کا ذریعہ او ر کلکتہ کا سیالدہ اسٹیشن۔ مگر آج کے بعد ہم لوگ پلان بنا کر کلکتہ یونیورسٹی دیکھنے نکلے۔کئی راستوں سے ہوتے ہوئے جیسے ہی ہم دونوں کلکتہ یونیورسٹی پہنچے تو وہاں طلبہ تنظیموں نے پشاور واقعے کی مذمت میں سڑکیں جام کر رکھی تھیں ۔ ہاتھوں میں اردو ، بنگلہ زبان اور انگریزی کے بینر ،اشتہار اور پمفلےٹ لگا کر وہ پاکستان حکومت اور پشاور واقعے کے ذمے دار وں کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے ۔یہ طلبہ ےک جہتی کا منظر بہت اچھا لگا مگر پھر وہی بات کہوں گاکہ یہ ےکجہتی مخصوص اقوام و ملل کے خلاف ہی کیوں نظر آتی ہے؟ انصاف سے کام کیو ںنہےں لیا جاتا۔خیر کوئی بات نہیں !!

کلکتہ یونیورسٹی سے متصل ہی 1817میں قائم شدہ” ہندواسکول “کی عمارت دیکھی۔پھر” پریسڈینسی یونیورسٹی“ کے پاس سے گزر ہوا ۔سامنے ہی” انڈین کافی ہاﺅس “کی بوسیدہ اور ازکار رفتہ عمارت پر نظر پڑی۔یہ عمارت انگریز افسروں اورمولانا ابوالکلام آزاد جیسے بڑے کافی شوقینوں کی مو جودگی کی گواہ ہے ۔کبھی اس میں چمن آباد ہوتا ہو گا مگر آج تو وہاں الّو بولتے ہیں اور کوئی جھانک کر بھی نہیں دیکھتا۔اسی سے متصل ”آل بنگال ٹیچر ایسوسی ایشن “کی عمارت واقع ہے۔اس کابھی وہی حال ہے۔پتا نہیں ان عظیم عمارتوں کی اس خستہ حالی کا ذمے دار کو ن ہے اور ان کا حُسن کون لوٹ لے گیا؟؟

اگلے چوراہے سے ہم لوگ ”زکر یا اسٹریٹ“ دیکھنے کے لیے براہ ”محمد علی پارک“ چل پڑے۔محمد علی پارک کلکتہ میونسپل کارپوریشن کا پارک ہے ۔شہر کے بیچوں بیچ ایسا لگتا تھا جیسے تھالی میں پھول رکھا ہو۔بند تھا اس لیے اندر سے تو نہ دےکھ سکے تا ہم باہر سے خوب دیکھا اور تصویریں لیں ۔

زکریا اسٹریٹ ےہاں سے دائیں جانب تھی ۔جس کا سلسلہ” ناخدا مسجد“ سے شروع ہوتا تھا۔تین منزلہ نا خدا مسجد خو شنما طرز تعمیر کا حسین نمونہ ہے۔تین ابواب پر مشتمل یہ شاندار مسجدآج بھی مسلمانان کلکتہ کی آبرو اور شان بنی ہو ئی ہے۔اس کے شمالی دروازے سے متصل دور یہ جانب دورتک تاریخی زکریہ اسٹریٹ واقع ہے۔اسی اسٹریٹ میں کلکتہ کے تمام معیاری کتب خانے اور مکتبے واقع ہیں ۔اسی میں کلکتہ خلافت کمیٹی کا دفتر بھی واقع ہے ۔زکریہ اسٹریٹ سے ہی متصل ”کولوٹولہ اسٹریٹ“ ہے ۔ یہاں بھی کتب خانے اور دیگر ادارے قائم ہیں۔

زکر یا اسٹریٹ گھومنے کے بعد میں اور عبد الوکیل بھائی قریب ہی واقع” ہوڑہ برج“ دیکھنے گئے ۔حالاں کہ میں ایک بار اسے بذریعہ بس بھی دیکھ چکا تھا مگر پیدل چل کر گھومنے کی بات ہی الگ ہے۔برج سے پہلے ایشیا کی سب سے بڑی ”پھول منڈی“ دیکھی۔تازہ تازہ پھولوں کی خوشبوبرج کے اوپر تک آرہی تھی ۔ کیا سماں تھا اور کیا منظر ۔اگر رجب علی بیگ سرور زندہ ہوتے تو لکھنو ¿ کے بازاروں کی رونق کا بیان کر نے کے بجائے کلکتہ کی پھول منڈی کا ذکر کرتے۔مگر افسوس ایسا نہ ہو سکے گا۔نہ ہو کوئی بات نہیں۔یہ منڈی ایشیا کی سب سے بڑی منڈی ہے کیا یہ بات کم ہے جو رجب علی بیگ بھی اس کے لیے کچھ لکھتے۔
ہوڑہ برج کتنا اچھا لگ رہا تھا ۔تازہ تازہ سفید پینٹنگ سے ایسا لگ رہا تھا جیسے چاندی کا بنا ہو ۔اس کی چمک نیچے ہبلی ند ی کے پانی میں پڑ کر دلکش سماں بنا رہی تھی ۔میں موبائل کیمرہ آن کر کے متعدد مقامات کی فوٹو لیتا جارہا تھا اور ان نظاروں کو قید کر تا جا رہا تھا ۔برج کاتین کلومیٹر کا فاصلہ کب ختم ہو گیا ۔پتا ہی نہ چلا۔پتا تو جب چلا جب ہوڑہ کی سرزمین پر ہم پہنچ گئے۔سامنے ہی ہوڑہ ریلوے اسٹیشن کی عمارت واردین کا استقبال کر نے کے لیے کھڑی تھی ۔آج پھر دن کا سورج زوال پذیر ہورہا تھا ۔نیز آج عبد الوکیل بھائی کے محلے رستم گمٹی میں ایک پروگرام بھی تھا ،اس میں شرکت کر نا ضروری تھا۔ اس لیے ہم لوگوں نے یہیں سفر ختم کر کے واپس جگتدل لوٹنے کا ارادہ کیا ۔ارادہ کیا کیا، بلکہ بس سے سیالدہ پہنچے ،ٹرین میں بیٹھے اور جگتدل پہنچ گئے۔اب تک رات ہو چکی تھی ۔ہم لوگ پروگرام میں شریک ہو ئے ۔قوم کے دانشوروں کا چشم کشا اورانقلاب آفریں خطاب بہت خوب تھا ۔نوجوانوں کی تربیت کا سب سے اچھا طریقہ اور سلیقہ اس سے اچھا میں نے کہیں نہیں دیکھا۔

رات ہو ئی ،کھانا کھایا اور پھر احبا ب کے ساتھ گپ شپ پھر سونا اور تیسرے دن کے سورج کا آنا اور جگانا ۔انسانی پرزوں کا پھر حر کت میں آنا اور خدا کے وعدہ بر کت کا بر سنا ۔

چوتھا دن -----
چوتھے دن ہم لوگوں نے کلکتہ جانے کے بجائے جگتدل قصبے میں ہی واٹر فلٹر پلانٹ اور ندی کے کنارے واقع جوٹ ملوں اور فیکٹریوں کو دیکھنے کا پلان بنایا ۔ واٹر فلٹر پلانٹ تو دیکھا مگر جوٹ ملوں کو دیکھنا نصیب نہ ہو سکا ۔اس کمی کو ہم لوگوں جگتدل قصبے میں گھوم کر پورا کیا۔عبد الوکیل بھائی قصبے کے دوستوں مجھے ملاتے رہے اور اپنی ابتدائی تعلیم گاہیں دکھاتے رہے۔”شمس اردو ہائی اسکول، جگتدل، کیلابگان جامع مسجد کا مدرسہ کبیریہ فریدیہ فیض العلوم اور سینک اسکول“ اسی دوران گھو متے گھومتے غوث بھائی سے ہماری ملاقات ہو ئی جو بہت ہی خلوص اور ملنساری سے ملے ۔بہت اچھی اچھی باتیں انھوں نے کیں اور چلتے وقت شام کے کھانے کی دعوت بھی دیدی اور ہم لوگ آنے کا وعدہ کر کے آگے بڑھ گئے ۔ آج چوں کہ شاداب عالم بھائی نے دوپہر کے کھانے کی دعوت کی تھی اس لیے میں اور عبد الوکیل بھائی کانکی نارہ میں واقع شاداب عالم بھائی کے گھر پہنچے اور دوپہر کا کھانا کھایاجس میں بنگال کی پسندیدہ ڈش تلی مچھلی،چاول،انڈے اور دیگر لوازمات شامل تھے ۔کھانا بہت شاندار تھا ۔کھانا کھانے اور شاداب عالم بھائی اور اہل کھانا سے رخصت لے کر ہم دونوں کانکی نارہ اسٹیشن پہنچے ۔دراصل کلکتہ جاکر فورٹ ولیم کالج دیکھنے کا من کر رہا تھا مگر اندیشہ بھی تھا کہ آج ہم لوگ کچھ نہ دیکھ پائیں گے چو ں کہ وقت نہیں تھا ۔ اس لیے بالآخر ارادہ منسوخ کر کے جگتدل آئے اور قصبے کے ادیبوں شاعر وں سے ملاقات کی۔ شام میں ہم نے تاریخ آزادی کے نامور سپاہی منگل پانڈے کے نام سے منسوب علاقے ”منگل پانڈے“ دےکھنے کا ارادہ بنایا۔شام کو ہمارے ساتھ شاداب عالم بھائی بھی آگئے اور ہم تینوں بس میں سوار ہو کر منگل پانڈے کے لیے روانہ ہو گئے ۔وہاں پہنچے پہنچتے اچھی خاصی رات ہو گئی ۔پتا چلاکہ یہاں تو چھے بجے تک ہی انٹری ہوتی ہے ،آٹھ نو بجے تو یہاں کسی کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔ناچار واپس آئے اور اسی راستے سے آئے۔آتے آتے بہت دیر ہو گئی تھی ۔غوث بھائی کے فون آرہے تھے ۔اس لیے ہم لوگوں نے جلد ازجلد پہنچنے کی کوشش کی مگر بس تھی کہ آنے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔ خداخدا کر کے آئی اور پھر پونے گھنٹے میں جگتدل پہنچایا ۔شاداب عالم بھائی کانکی نارہ کے لیے روانہ ہوگئے اور میں اور عبدالوکیل غوث بھائی کے گھر کی جانب۔ ملنا ہوا اور دعوت کھائی گئی مگر دعوت سے زیادہ اہم چیزغوث بھائی کا خلوص تھا جو آج کے عہد میں نایاب شے بن کر رہ گیا ہے۔غوث بھائی کے خلوص نے مجھے بہت متاثر کیا ۔میرا گمان بن گیا کہ دنیا کا نظام ایسے ہی مخلص لوگوں کے وجود کے قائم اور ان کے نیکیاں اس بے کراں آسمان کو تھامے ہوئے ہیں ۔اللہ سلامت رکھے کیا خوب شخص ہیں غوث بھائی۔

پانچواں دن --
پانچواںدن میری واپسی کا دن تھا ۔سیالدہ سے پرانی دہلی کے لیے میری ٹرین تھی ۔عبد الوکیل بھائی میرے ساتھ سیالدہ تک آئے ۔ہم لوگوں نے اسٹیشن کے پاس کے بازار سے کچھ شاپنگ کی ۔پھر ٹرین کا وقت ہونے سے پہلے ہی ہم لوگ پلےٹ فارم پر پہنچ گئے۔ٹرین لگ چکی تھی اور اس کے اعلانات نشر ہو رہے تھے ۔ پھر وہ وقت آیا جب میںعبد الوکیل بھائی کے خلوص و پیارسے بھرے دل کو چھوڑکر ٹرین میں بیٹھا ۔ریل چلی اور گھنے کہرے ودھند کی وجہ سے۰۳ گھنٹے کے عرصے میں دہلی پہنچادیا ۔کہنے کو تو میں دہلی آگیا مگر دل کلکتہ اور جگتدل کی گلیو ںمیں اٹکا تھا ،آنکھیں ان مخلصوں کو ڈھونڈرہی تھیں جنھوں نے مجھے اپنے دلوں میں اس طرح جگہ دی کہ شاید ہی کہیںملے۔ مجھے آج بھی عبد الوکیل بھائی اور ان کے تما م احباب یاد آتے ہیں ،کیوں نہ آئیں انھوں نے مجھ سے بغیر دیکھے محبت کی اور جب میں ان سے ملا تو مجھے اس قدر پیار،اپنائیت اور نوازش دی کہ میں اس ماحول اپنا ماحول سمجھنے لگا اور ایک لمحے کے لیے بھی مجھے نہیں لگا کہ میں اپنے گھروں سے ہزاروں کلومیٹر دور اجنبی مقام پر ہوں ۔
IMRAN AKIF KHAN
About the Author: IMRAN AKIF KHAN Read More Articles by IMRAN AKIF KHAN: 86 Articles with 62218 views I"m Student & i Belive Taht ther is no any thing emposible But mehnat shart he.. View More