چند گھنٹے لال مسجد میں
(عبدالحکیم اسماعیل, Zahedan, Iran)
’آپریشن سائلنس‘ سے ٹھیک ایک سال
پہلے کی بات ہے۔ مولانا عبدالرشید غازی شہید سے ملاقات کا شوق عرصے سے تنگ
کررہا تھا۔ دارالعلوم کی دوسری سہ ماہی کے امتحانات کے بعد چار دنوں کی
چھٹی تھی اور اپنی تمنا پوری کرنے کا بہترین موقع ہاتھ آیا۔ چنانچہ کراچی
سے لاہور گیا اور وہاں سے گوجرانوالہ کا رخ کیا۔ شریعہ اکیڈمی میں زیرِ
تعلیم دوستوں کے پاس ٹھہر کر رنگارنگ کھانوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔ پھر دو
دوستوں کی معیت میں اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے۔ پنڈی اڈے میں اترنے کے
بعد ڈائریکٹ جامعہ فریدیہ پہنچے جہاں ہمیں غازی برادران سے ملاقات کی توقع
تھی۔ جامعہ فریدیہ میں ہمیں کہا گیا یہ خواہش لال مسجد جاکر پوری کرسکتے
ہیں۔ سو جامعہ کے کینٹین میں چائے سے اپنی تواضع کرانے کے بعد ہم پہلے فیصل
مسجد چلے گئے جہاں عصر کی نماز ادا کی۔ البتہ نماز کے علاوہ ہمارے کچھ دیگر
مقاصد بھی تھے؛ سیر وسیاحت میں بڑی مسجدوں کی زیارت بھی شامل ہے جس کی خاطر
بڑی تعداد میں حضرات و خواتین مسجد کے صحن میں براجماں تھے۔ مولانا محمدعمر
نامی شخص مسجد کے امام تھے جن سے ہماری مختصر ملاقات ہوئی۔
جامعہ فریدیہ کے بعض ہونہار طلبہ کے ارشاد پر ہم ایک لوکل بس میں گھس گئے
بلکہ بمشکل لوڈ ہوئے! مغرب کی نماز تک ابھی چند منٹ باقی تھے کہ ہم لال
مسجد پہنچے۔ مسجد کے ساتھ ایک کتب خانہ واقع تھا جہاں ہم نے کتب خانہ کے
ذمہ دار اپنی خواہش ظاہر کردی تو انہوںن ے کہا ’مطلوب حضرات‘ یہاں نہیں ہیں
آپ جامعہ فریدیہ چلے جائیں! میں نے حیرت کا اظہار کرکے کہا ہم ابھی وہاں سے
ہوکر آئے ہیں۔ جامعہ فریدیہ میں ہمیں کہا گیا لال مسجد جائیں اور آپ کہہ
رہے ہیں جامعہ فریدیہ میں یہ ملاقات ہوسکتی ہے۔ بندہ مان گیا اور ایک صاحب
کو مامور کیا نماز کے بعد ہمیں جامعہ حفصہ کے گیٹ سے پاس کرائے۔ پتہ چلا
حالات قدرے کشیدہ ہیں کہ غازی برادران مسجد نہیں آسکتے۔
جامعہ حفصہ کے اندر مولانا عبدالعزیز غازی صاحب کے کمرہ نما دفتر کے سامنے
چارپائی پر ہمیں بٹھاگیا۔ غازی شہید کے ساتھی ہماری شناخت کی ناکام کوشش
کرتے رہے اور ہم مچھروں سے لڑتے ہوئے انہیں بتاتے رہے کہ ہم طالب علم ہیں،
صرف ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ دریں اثنا آیا وہ جس کا انتظار تھا۔ مولانا
عبدالرشید غازی شہید تشریف لائے اورہم نے اپنا تعارف کرایا۔ پھر راقم نے
بعض سوالات پوچھے اور جمہوریت، پارلیمانی سسٹم اور اس طرح کی بڑی باتوں پر
بحث ہوئی۔ چند منٹ گزرنے کے بعد انہوں نے پوچھا: کیا مولانا عبدالعزیز صاحب
سے مل چکے ہو؟ ہم نے نفی میں سر ہلایا۔ انہوں نے کہاان سے ملیں۔ بڑے بھائی
وہی ہیں اور عالم دین ہیں۔ غازی شہید رحمہ اللہ سے زندگی کی پہلی اور آخری
ملاقات ختم ہوئی اور ہم مولانا عبدالعزیز غازی کے انتہائی سادہ کمرے میں ان
سے ملنے گئے۔ ان سے ملاقات دیر تک جاری رہی۔ غازی برادران اپنی گفتگو میں
انتہائی بہادرانہ انداز اپناتے اور بات گھمائے بغیر اپنا موقف بیان کرتے۔
ایک بات ان میں مشترک تھی؛ دونوں صاحباں واضح کرتے رہے کہ بلوچ ہیں اور ان
کی کچھ روایات بھی ہیں۔ جب ہم نے بھی بلوچ ہونے کی خبر سنائی تو اس پر مزید
گفتگو ہوتی رہی۔
وہ دن گزرے اور کچھ واقعات رونما ہونے کے بعد بالاخر جولائی دوہزار سات کے
پہلے عشرہ میں اسلام آباد میں ایک ایسا المناک سانحہ پیش آیا جس کا تصور
بھی کوئی نہیں کرسکتا۔ اپنے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی تربیت پانے والے
فوجیوں کو ایک آمر کی خواہش پر وہ کرنے پر مجبور کیا گیا جس سے انسانیت کا
سر شرم سے جھک جاتاہے۔ سینکڑوں نوجوانوں اور بچیوں کو بے دردی سے لہو لہاں
کرنا، قرآن پاک سمیت دیگر دینی کتب کی توہین کرنا اور مسجد تک کو معاف نہ
کرنا ایسے واقعات نہیں ہیں جنہیں طاق نسیان میں رکھ کر فوجی آمر اور ان کے
سیاسی کارندے سکھ کا سانس لیں۔
دراصل ’آپریشن سائلنس‘ نفاذ شریعت کے لیے اٹھنے والی آواز کو ’سائلنٹ‘ اور
خاموش کرانے کی کوشش تھی جس کا نتیجہ الٹ نکلا۔ متعدد علاقوں میں فتنے اٹھے
اور بدامنی کی ایک ایسی لہر اٹھی جس کی لپیٹ میں ابھی تک پاکستان جل رہا
ہے۔
اللہ تعالی اس سانحے کے برے نتائج سے مسلمانوں کی حفاظت فرمائے، شہدا کے
درجات بلند فرمائے اور بچنے والوں کو قدم قدم پر رہنمائی و نصرت فرمائے۔
آمین |
|