گلگت بلتستان میں 8جون کو قانون
ساز کونسل ساز کونسل کی 24نشستوں کیلئے ہونے والے انتخابات میں کامیاب
امیدواروں کا سرکاری اعلامیہ جاری ہوچکاہے ، جس کے مطابق مسلم لیگ (ن)15
نشستوں کے ساتھ واضح اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب رہی جبکہ ایک آزاد رکن کی
شمولیت کے بعد مسلم لیگ (ن) کی نشستیں 16ہوگئی ہیں ،مجلس وحدت مسلمین اور
اسلامی تحریک کو دودو جبکہ جمعیت علماء اسلام،پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور
بالاورستان نیشنل فرنٹ کو ایک ایک نشست ملی ہے۔ قانون ساز اسمبلی کی 3
ٹیکنوکریٹ اور6 خواتین نشستوں کے لئے درجنوں امیدوار میدان میں ہیں ،جن میں
28امیدوارن لیگ کے ہیں اور 24جنرل نشستوں کے تناسب سے ن لیگ کو 4خواتین اور
2ٹیکنوکریٹ نشستیں ملیں گی جبکہ اسلامی تحریک اور مجلس وحدت کے حصے میں
خواتین کی ایک ایک اور ایک ٹیکنوکریٹ کی نشست پر دونوں جماعتوں کے مابین
قرعہ اندازی کے ذریعے فیصلہ ہوگا۔اس وقت اسلام آباد میں حکومت سازی کے لئے
مشاورت جاری ہے ،ن لیگ کی پارلیمانی پارٹی نے حافظ حفیظ الرحمن کو وزیر
اعلیٰ کیلئے امیدوار نامزد کیاہے جبکہ حافظ حفیظ الرحمن نے 16اور 17جون کو
پارٹی کے قائد اور وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف سے ملاقات میں کی جس میں
وزیر اعظم نوازشریف نے پارٹی کے پارلیمانی گروپ کے فیصلے کی توثیق کرتے
ہوئے حافظ حفیظ الرحمن کو ہی وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیاہے تاہم اس کا
حتمی اعلان وہ اپنے متوقع دورہ گلگت بلتستان ہی کریں گے جو 25جون تک متوقع
ہے۔
ذرائع کے مطابق بعض دیگر لیگی رہنماء بھی وزیر اعلیٰ بننے کیلئے سرگرم ہیں
جن میں سرفہرست میرغضنفرعلی خان کا نام ہے جن کے بارے میں دعویٰ ہے کہ وہ
اپنے حق میں فیصلے کیلئے وزیر اعظم نوازشریف کو راضی کرنے کیلئے مختلف
ذرائع استعمال کررہے ہیں،تاہم وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اپنے فیصلے پر
قائم ہیں ۔بعض ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حافظ حفیظ الرحمان کو وزیر اعلیٰ بنانے
کی راہ میں رکاوٹ کے لئے بیوروکریسی اوراسٹبلشمنٹ کے بعض عناصر سرگرم ہوگئے
ہیں جو وزیر اعظم نواز شریف کو اب بھی قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ
وزیر اعلیٰ کے لئے کسی اور کا انتخاب کیا جائے ۔ ان اطلاعات کے بعد گلگت
بلتستان کے مختلف حلقوں میں سخت تشویش ہے اور اس بات کا خدشہ ہے کہ اگر
وزیر اعلیٰ کی حافظ حفیظ الرحمن کے علاوہ کسی اور بنانے کی کوشش کی گئی تو
نہ صرف خطے میں (ن) لیگ کا مستقبل تاریک ہوگا بلکہ سخت ردعمل بھی آئیگااور
مسلم لیگ(ن) کی قیادت نے عوامی رائے کو مد نظر نہیں رکھاتو نتائج تباہ کن
ہونگے ۔
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پارٹی کے صوبائی سربراہ
اور پارلیمانی پارٹی کے نامزد امیدوار برائے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمان
حکومت سازی کے لئے حتمی شکل دینی کی ہدایت کردی ہے ۔ذرائع کے مطابق وزیر
اعظم میاں محمد نواز شریف کادو سے تین روزہ دورہ گلگت بلتستان 24سے 26جون
تک متوقع ہے ۔ وزیراعلیٰ کے لئے حافظ حفیظ الرحمان کے نام حتمی شکل دی گئی
ہے،جبکہ اسپیکر کے لئے سکردو سے فدا محمد ناشاد اور گانچھے سے محمد ابراہیم
ثنائی کے ناموں پر غور کیا جارہا ہے ۔گورنر گلگت بلتستان نے گلگت بلتستان
قانون ساز اسمبلی کا پہلا اجلاس 24 جون کو طلب کرلیا ہے ،اجلاس میں منتخب
اور نامزد ارکان حلف اٹھائیں گے اور اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کا انتخاب ہوگا ۔اجلاس
کی صدارت اسپیکر وزیر بیگ نے۔قبل ازیں 23 جون کو خواتین کی 6 اور ٹیکنو
کریٹس کی 3 نشستوں پر انتخاب ہوگا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ 25جون
کوقائد ایوان کا انتخاب ہوگا اور 26کو وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اجلاس خطاب متوقع ہے ۔
مسلم لیگ (ن) کے لیے ایک اور اہم مرحلہ ٹینکو کریٹ اور خواتین نشستوں پر
امیدواروں کا انتخاب ہے درخواستیں 28جبکہ نشستیں 6 ہیں ایسے میں امیدواروں
کا انتخاب یقینا بہت مشکل ہوگا ،تاہم اگر پارٹی سے وفاداری ، قربانیوں اور
کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے میرٹ کی بنیاد پر فیصلے کیے گئے تو کسی
دشواری کا سامنا نہیں ہوگالیکن دوستیوں، ذاتی قربت ،سفارشوں اور ذاتی
مفادات کو مدنظر رکھاگیا تونتائج تباہ کن ہوں گے۔اس ضمن میں سب سے اہم ذمہ
داری حافظ حفیظ الرحمن پر عائد ہوتی ہے جو خطے میں لوگوں کی کارکردی گی سے
مکمل واقف ہیں ۔خطے میں اگر 1988ء سے 2015ء تک مسلم لیگ(ن) کی تاریخ کا
جائزہ لیں توایسے افراد کی تعداد ایک درجن سے بھی کم ہے جو ہما وقت پارٹی
کے ساتھ نہ صرف کھڑے رہے بلکہ پارٹی کو متحرک اور فعال بنانے کیلئے ہرممکن
قربانی بھی دی،دیامر میں حاجی غندل شاہ ،حاجی عبدالوحید، استور میں
عبدالرحمن ثاقب، محمد سلیم، سکردومیں اشرف صدا،گانچھے میں سلطان علی
خان،غذر میں سلطان مدد ، گلگت میں ریاض احمد ،شمس میر ،شفیق الدین ،عابد
علی بیگ سمیت دیگر چند افراد ایسے ہیں جنہیں پارٹی نے اگر اس اچھے دور میں
بھی نظر انداز کردیا تو یقینا یہ نہ صرف ان لوگوں کے ساتھنا انصافی بلکہ
میرٹ کا قتل ہوگااس لیے مخصوص نشستیں ہوں یا کونسل کے ارکان کا انتخاب اس
میں ایسے قربانی والے رہنماؤں کو فراموش نہیں کرنا ہوگااور فیصلے میرٹ پر
کرنے ہونگے ،بصورت دیگر نتائج وہی پیپلز پارٹی والے ہی ہونگے۔
انتخابی نتائج کے حوالے سے چند حلقوں کے نتائج سوالیہ نشان ہیں؟ جن میں جی
بی ایل اے 7سکردو ایک پر تحریک انصاف کا احتجاج نہ صرف حق بجانب ہے ،بلکہ
قابل غور بھی ہے،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ن لیگ کے امیدوار کے لئے دانستہ طور
پر باربار گنتی کا عمل دھرایا گیا ،چار بار گنتی ایک ریکارڈ ہے۔جی بی ایل
اے 16دیامر 2میں آزاد امیدوار حاجی عبدالعزیز اور عطاء اﷲ کے احتجاج پر بھی
غور کرنا ہوگا ،کیونکہ یہاں پر ایک پولنگ اسٹیشن کے بکس کو نظر آتش کیا گیا
اور اس پولنگ اسٹیشن کے بغیر ہار جیت کا فیصلہ سوالیہ نشان ہے ۔جی بی ایل
اے 17دیامر 3میں جمعیت علماء اسلام کے حاجی رحمت خالق کے ساتھ نا انصافی
ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بعض حکام دانستہ طور بے ضابط گی میں ملوث ہیں
۔ جی بی ایل اے 24گانچھے 3میں پیپلزپارٹی کیانجینئر محمد اسماعیل کے اعتراض
پر بھی وزن ہے ان کے ساتھ انصاف ہونا چاہئے ،اگر ان4 حلقوں کے حوالے سے
نقائص کا جائزہ لیکر تدارک نہیں کیاگیا تو پورا انتخاب سوالیہ نشان بن سکتا
ہے ۔
انتخابی عمل میں بدترین شکست کے بعد پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے اپنی
مقامی قیادت سے وضاحت طلب کرتے ہوئے اسباب معلوم کیے ہیں کسی بھی جمہوری
نظام میں یہ ایک اچھا عمل ہے کہ الزام تراشیوں اور بیان بازیوں کے بجائے
اپنی ناکامیوں کا خود محاسبہ کیاجائے جوجماعتیں ماضی کی غلطیوں کو مدنظر
رکھتے ہوئے مستقبل کیلئے بہتر فیصلے کرتی وہ پھر کامیابی سے ہمکنار ہوتی
ہیں۔اس ضمن میں جمعیت علماء اسلام کے قائد مولانا فضل الرحمن کو بھی چاہیے
کہ وہ جماعت کی بدترین شکست پر مقامی قیادت سے نہ صرف وضاحت طلب کرے بلکہ
اس کے اسباب بھی جان کر کاروائی بھی کرے۔2009کے انتخابات میں دوسری بڑی
جماعت بن کر ابھر نے والی جمعیت علماء اسلام صرف ایک نشست کے ساتھ کھڑی ہے
اور 10میں سے 7امیدواروں کی ضمانتیں بھی ضبط ہوئی حالانکہ جمعیت علماء
اسلام کی مقامی قیادت سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی تو اس کی نشستوں کی تعداد 2سے
3بآسانی ہوسکتی تھیں۔
انتخابات کے آخری دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے خلاف متحدنظر آنے والی جماعتوں
پیپلزپارٹی ، مجلس وحدت مسلمین اور اسلامی تحریک کے مابین ایک دوسرے کے
خلاف بیان بازی کا سلسلہ جاری ہے پیپلزپارٹی اپنی شکست کی تمام تر ذمہ داری
دونوں مذہبی جماعتوں پر عائد کررہی ہے اور پیپلزپارٹی کی قیادت کا دعویٰ ہے
کہ دونوں جماعتوں نے مسلم لیگ(ن) سے ساز باز کرکے پیپلزپارٹی کوناکام
بنایا۔ مجلس وحدت مسلمین یہی الزام اسلامی تحریک اور پیپلزپارٹی پر عائد
کررہی ہے جبکہ اسلامی تحریک مجلس وحدت مسلمین کو خطے میں اہل تشیع ووٹ کی
تقسیم کی اصل قصوروار ٹہرا رہی ہے معاملہ کچھ بھی ہو یہ بات حقیقت ہے کہ
تینوں جماعتوں نے آخری دنوں میں جو حکمت عملی (ن) لیگ کو ناکام بنانے کیلئے
بنائی اس کا نتیجہ الٹ نکلا ۔ ان انتخابات میں گلگت بلتستان میں تمام مکاتب
فکر کے لوگوں نے فرقہ واریت،لسانیت اور قبائلی تعصب کی بنیاد پر ووٹ مانگنے
والوں کو مستردکردیاہے۔ پیپلزپارٹی کی تین سے چار نشستوں میں ناکامی کی اصل
وجہ بھی یہی معتصبانہ سوچ ہے ،تمام جماعتیں خطے میں مزید خلفشار پیدا کرنے
کے بجائے اپنی ناکام حکمت عملی کا تدارک کرکے اور خطے میں امن و بھائی
چارگی کی فضاء قائم کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں اور عوامی فیصلے کو
کھلے دل سے قبول کریں ۔
گلگت بلتستان اس وقت جن حالات سے گزر رہاہے ان میں پوری قوم کے اتحاد کی
سخت ضرورت ہے پڑوس میں بھارت پاک چین اقتصادی رہداری کا گیٹ وے ہونے کی وجہ
سے گلگت بلتستان پر نظریں گھاڑے بیٹھا ہے ۔اب کی مرتبہ اگر بھارت نے کوئی
جارحیت کرنے کی کوشش کی تو امکان یہی ہے کہ اس کا پہلا ٹارگٹ گلگت بلتستان
ہی ہوگا کیونکہ وہ یہاں کے پرامن ماحول کو خراب کرنے کیلئے کوئی بھی قدم
اٹھا سکتاہے ۔ ماحول خراب کرنے کا مقصد اقتصادی راہداری کی راہ مین رکاوٹ
کھڑی کرنا ہے تاہم ان عزائم کو خطے کی عوام باہم اتحاد ویکجہتی سے خاک میں
ملا سکتے ہیں۔ خطے میں موجودہ حالات کے حوالے سے مستحکم باصلاحیت اور مدبر
قیادت اور حکومت کی بھی ضروت ہے اس لیے مسلم لیگ (ن) کی قیادت جو بھی فیصلے
کریں وہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کرے تاکہ اس کے نتائج مثبت سامنے آئیں۔
|