اب خود کو بدلنا ہو گا
(Tahir Afaqi, Faisalabad)
رمضان کی آمد پے منافع خور چھری
لے کر عوام کے سر پے سوار ہو جاتے ہیں ۔اور عوام بے بسی کے آنسو بہاتی رہتی
ہے۔مگر کچھ لوگ بہادر بھی ہوتے ہیں۔
عاصم نے کئی دکانداروں سے کیلے کی قیمت معلوم کیں 100 یا120 سے کم کوئی بھی
نہیں دے رہا تھا حالانکہ رمضان سے پہلے یہی کیلے 60 یا 80 کے درجن مل رہے
تھے۔ لیکن عاصم ایک اور دوکا ن پر گیا ریٹ پوچھا سن کر چکرا کر ہی رہ گیا
موصوف 200 روپے کی درجن دے رہے تھے ۔ عاصم نے غصے سے کہا آج کی ریٹ لسٹ
دیکھاؤ ۔ دوکاندار نے غصے سے کہا بھاگ جاؤ ۔ عاصم نے دوکاندار کو نظر انداز
کر کے اس آنٹی کی طرف متوجہ ہوا جو دوکاندار سے کیلے پیک کروا کر پیسے دینے
لگی تھی عاصم نے آدب سے کہا آنٹی جی یہی کیلے آگے سو روپے درجن مل رہے ہیں
آپ ادھر سے خرید لیں ۔ اگر ہم ایسے منافع خوروں سے سامان خریدیں گے تو ان
کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ آنٹی سمجھ گئی اور کیلوں کا بیگ واپس کر کے آگے چل
پڑی۔عاصم کافی دیر خطرے میں کھڑا نیکی کا یہ کارنامہ سر انجام دیتا رہا۔
کیا ہم ایسی جرات کا کام سر انجام دے سکتے ہیں؟ جس دن ہم سب عاصم بن گئے تو
کسی شاہی خاندان کو جرات نہیں ہو گی کہ وہ رمضان کے مہینے میں اپنی شوگر
میلوں اور پولٹری فارموں کو ناجائز منافع کا ذرئع بنا سکیں ۔ کمپنیوں کو
کارٹلائزیشن کے ذرئعہ اشیاء کو مہنگی کرنے کی جرات نہیں ہو گی اور نہ ہی
ہماری گلی محلے کا کوئی چھوٹا دکاندار ناجائز منافع کمانے کی جرات کر سکے
گا۔ بس ایک دفعہ قوم کو جاگنا ہوگا۔کوئی باہر سے نہیں آئے ہمیں خود کو
بدلنا ہو گا۔ |
|