این جی اوز:آفتاب پر نگاہیں ، شفقت تھا نشانہ
(Saleem Ullah Shaikh, Karachi)
گزشتہ چند ماہ سے ذرائع ابلاغ
میں پھانسی کے منتظر قیدی شفقت حسین کا تواتر سے ذکر ہورہا ہے۔ شفقت حسین
کی پھانسی کی سزاچار بار مؤخر ہوچکی ہے۔شفقت حسین جس کا تعلیم آزاد کشمیر
ضلع مظفر آباد کی وادی نیلم سے ہے۔ شفقت حسین کو ایک سات سالہ بچے عمیر کو
اغوا کے بعد زیادتی اور زیادتی کے بعد قتل کے جرم میں 2001میں گرفتار کیا
گیا تھا۔جرم ثابت ہونے پر اسے پھانسی کی سزا سنا دی گئی لیکن پاکستان میں
پھانسی کی سزا پر غیر اعلانیہ پابندی کے باعث اس کی سزا پر عملدرآمد نہیں
ہوا تھا۔ دسمبر 2014میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد جب
پھانسی کی سزاؤں پر عملد رآمد شروع کیا گیا تو شفقت حسین کی موت کا پروانہ
Death warrant جاری کردیا گیا۔ابتدائی طور پر اس کو 14جنوری کو پھانسی دی
جانی تھی ، پھر 19مارچ کی تاریخ مقرر کی گئی ،آخری بار اس کے لیے 9جون کی
تاریخ مقرر کی گئی لیکن تاحال وہ پھانسی سے محفوظ ہے۔
شفقت حسین کی پھانسی روکنے کے لیے حقوق انسانی کی غیر سرکاری تنظیموں(NGOs)
نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے۔ ان کی پوری کوشش ہے کہ اس کو کم عمر
ثابت کرکے اس کی سزا ختم کرائی جاسکے۔ان کا موقف ہے کہ شفقت حسین جرم کرتے
وقت نابالغ یا کم عمر تھا، اور جب اسے سزا سنائی گئی یعنی 2004میں بھی
اٹھارہ سال سے کم تھا۔یہ بات پاکستان کے ہر طبقہ فکر کے لیے حیرت انگیز تھی
کہ یہ این جی اوز کسی مفاد کے بغیر کسی بھی معاملے پر آواز نہیں اٹھاتی ہیں
تو پھر اچانک شفقت حسین سے انہیں دس سال بعد ہمدردی کیوں پیدا ہوگئی۔
یہ گتھی کبھی سلجھ نہ پاتی اگر 10جون 2015کو لاہور جیل میں تہرے قتل کے
مجرم آفتاب بہادر مسیح کوتختۂ دار پر نہ لٹکایا جاتا۔ آفتاب بہادر مسیح نے
1992میں لاہور میں ایک خاتون اور اس کے دو کم سن بچوں کو فائرنگ کرکے قتل
کردیا تھا۔جرم ثابت ہونے پر اسے پھانسی کی سزا سنادی گئی۔ یہ بات ذہن نشین
رہے کہ اس وقت پاکستان میں کم عمری میں پھانسی کی سزا دی جاسکتی تھی۔سن
2000میں پھانسی کے لیے کم از کم عمر 18سال مقرر کی گئی تھی۔آفتاب بہادر
مسیح کو جب سزا سنائی گئی تو اس وقت وہ 15سال کا تھا لیکن قانوناً اس وقت
پھانسی کی سزا کے لیے اٹھارہ سال کی قید نہیں تھی۔
جی تو اب سمجھ میں آیا کہ یہ سیو دی چلڈرن، یہ ایمنسٹی انٹرنیشنل،یہ ریپریو
یہ حقوق انسانی کی نام نہاد چیمئین تنظیمیں شفقت حسین کے لیے کیوں آواز
اٹھا رہی تھیں؟ ان تنظیموں اور ان کے سرپرستوں نے بڑی ہوشیاری سے شفقت حسین
کے کاندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش کی ہے۔ انہوں نے کہیں بھی ، کسی
بھی جگہ آفتاب بہادر مسیح کا نام آنے نہیں دیاکہ کہیں کسی کو شک نہ ہوجائے۔
شفقت حسین کی آڑ میں برکت کے لیے راہ ہموار کی جاتی رہی، اگر عدلیہ شفقت
حسین کو کم عمری کا فائدہ دے کر اس کی سزا منسوخ کردیتی تو پھر سارے حقوق
انسانی کے چیمپئن کھل کر آفتاب بہادر کے لیے آواز اٹھاتے اور اس کے لیے
جواز شفقت حسین کے کیس کو بنایا جاتا لیکن 10جون کو آفتاب بہادر مسیح کی
سزائے موت پر عمل ہونے کے بعد ہمیں یقین ہے کہ اب شفقت حسین کے کیس میں ان
کی دلچسپی ختم ہوچکی ہے اور اب شفقت حسین کے پھانسی کے معاملے کو زیادہ دیر
تک نہیں روکا جاسکے گا۔یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ آفتاب بہادر مسیح کو
پھانسی ہونے پر ایمنسٹی انٹرنینشل نے مذمتی بیان جاری کیا تھا اور اسے
انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تین
انسانوں کی جان لینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ بہر حال شفقت حسین
کی آڑ میں جو کھیل کھیلا جارہا تھا آفتاب بہادر مسیح کی پھانسی کے بعد اب
وہ ختم ہوجائے گا۔علامہ اقبال کے اس شعر کے ساتھ ہی اپنی بات ختم کروں گا
کہ
اس کھیل میں تعیین مراتب ہے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ہے اک مہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشید ہے شاطر کا ارادہ! |
|