شہیدوں کاوارث کون۔۔۔؟
(Prof Riffat Mazhar, Lahore)
اﷲ بھلاکرے ڈی جی رینجرزسندھ
میجرجنرل بلال اکبرکا جن کے اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں ایک ہی ’’نعرۂ مستانہ
‘‘ سے وہ بھی بے حجاب ہوگئے جنہوں نے مفاہمت نامی منافقت کانقاب اوڑھ
رکھاتھا ۔اپنے یہ آصف علی زرداری بھی عجیب شٔے ہیں۔کہاں توایسی مفاہمتی
پالیسی کہ اُس ’’قاتل لیگ ‘‘ کو’’قابل لیگ ‘‘بناکر ڈپٹی پرائم منسٹری دے
ڈالی جس کے سیکرٹری جنرل مشاہدحسین سیّدپیپلزپارٹی کی سیاست کے بارے میں یہ
کہاکرتے تھے کہ ’’لُٹو تے پھُٹو‘‘۔پرویز مشرف کوگارڈ آف آنردے کر رخصت کیا،
ایم کیوایم اوراے این پی کو ’’کھُل کھیلنے‘‘کا موقع دیااور مولانافضل
الرحمٰن کے نخرے برداشت کرتے کرتے تھک بلکہ ’’ہَپھ‘‘گئے اور کہاں یہ
’’کھڑاک‘‘کہ مفاہمتی نقاب نوچ کرسیدھے اکھاڑے میں۔متھابھی لگایاتو کس سے
؟۔۔۔اُس ادارے سے کہ جس کے جوان حرمتِ وطن کی خاطرقربانیوں کی لازوال
داستانیں رقم کررہے ہیں۔تاریخِ پاکستان کایہ کرداربھی عجیب ہے کہ ’’مسٹر
ٹین پرسنٹ‘‘سے اپنی سیاسی زندگی کاسفر شروع کیااورپھر ترقی کرتے کرتے
’’مسٹرسینٹ پرسینٹ‘‘بن گئے ۔ترقی کایہ سفررُکا نہیں،جاری رہا اورپھر ایک
دِن ایسابھی آیاکہ’’ جعلی وصیت‘‘ کوبنیاد بناکر ایوانِ صدر تک جاپہنچے۔
ملکی تاریخ میں کسی سیاسی لیڈرنے ایساسوچا بھی نہیں ہوگا جوزرداری صاحب نے
کہہ ڈالا۔ اُنہوں نے اسٹیبلشمنٹ کوبراہِ راست دھمکی دیتے ہوئے کہا ’’ہمیں
تنگ مت کروورنہ اینٹ سے اینٹ بجادیں گے ۔پیپلزپارٹی جنگ سے نہیں ڈرتی ،جنگ
کرناہمیں ہی آتاہے ،ہمیں معلوم ہے کہ عدالتوں میں کتنے کیس چل رہے ہیں اور
کتنے چلنے والے ہیں جن میں آپ کے ’’پیٹی بھائی‘‘ مجرم ہیں۔میں نے فہرست
بنائی توکئی جرنیلوں کے نام ّئیں گے ،پھر جواب دیتے رہنا‘‘۔ عین اُس وقت جب
ہمارے فوجی جوان اوررینجرز دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں،زرداری
صاحب کایہ بیان انتہائی نامناسب ،غیرمہذب اورہتک آمیزہے ۔مسٔلہ اُس ایپکس
کمیٹی میں دی جانے والی بریفنگ سے کھڑاہوا جس کی سربراہی وزیرِاعلیٰ سندھ
قائم علی شاہ کے سپردہے۔جنرل بلال اکبرنے جوکچھ کہا ،سچ کہااور آئین وقانون
کے دائرے میں رہ کرکہالیکن اُن کاکہا پیپلزپارٹی کومنظور تھا نہ ایم کیوایم
کو ۔بات شاید طول نہ پکڑتی اگر6 سابقہ اور 11 موجودہ وزراء کے خلاف تحقیقات
کے لیے نہ کہاجاتا ۔جب معاملہ اِس موڑپرپہنچ گیاتو زرداری صاحب کویوں محسوس
ہونے لگا کہ جیسے سندھ میں گورنرراج کی آمدآمد ہے اسی لیے وہ پھَٹ پڑے ۔
زرداری صاحب نے بہت کچھ کہااور جوکچھ کہاسبھی نامناسب ۔اُنہوں نے کہا’’جب
پیپلزپارٹی ہلتی ہے توپوراملک ہِل جاتاہے۔ہم جب چاہیں اور جب تک چاہیں فاٹا
سے کراچی تک پوراملک بند کرسکتے ہیں‘‘۔ عرض ہے کہ اگرزرداری صاحب دِن میں
خواب دیکھناچھوڑ دیں تو اُن کی ’’صحت‘‘ کے لیے اچھّاہوگا۔ بھٹومرحوم نے بھی
کہاتھا کہ اُن کی موت پرہمالیہ بھی روئے گا، ہمالیہ تونہیں رویاالبتہ
بھٹومرحوم گڑھی خُدانخش میں ابدی نیندضرور جاسوئے ۔یہ اُس دَورکی بات ہے جب
پیپلزپارٹی اپنی مقبولیت کی رفعتوں کو چھو رہی تھی لیکن اب تواِس کی طبعی
موت ہوچکی اوراِس موت کے ذمہ داربھی زرداری صاحب خودہی ہیں۔ ضیاء الحق
مرحوم نے پیپلزپارٹی کوختم کرنے کی ہرکوشش کرڈالی لیکن کامیاب نہ ہوسکے ۔
’’پاکستان کھَپے‘‘کا نعرہ لگاکر اقتدارکے ایوانوں تک پہنچنے والے آصف
زرداری صاحب نے البتہ اپنے پانچ سالہ دَورِحکومت میں اپنی ہی پارٹی کے ساتھ
وہ ’’ ہَتھ‘‘ کیاکہ بیچاری سُکڑسمٹ کرسندھ تک محدود ہوگئی۔ اگلے الیکشن میں
شایدسندھ بھی چھِن جائے اورپھر اِس کی ’’داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں
میں ’’۔’’پاکستان کھَپے ‘‘جیسے نعرے کی حقیقت بھی سب پہ عیاں ہو چکی۔ کون
نہیں جانتا کہ بینظیرکی شہادت کے بعد عین اُس وقت جب زرداری صاحب ’’کھَپے
کھَپے‘‘ کہہ رہے تھے ،اُن کے فرستادہ امین فہیم صاحب پرویزمشرف سے
’’اندرکھاتے‘‘ملاقاتیں کرکے اُنہیں یہ یقین دلارہے تھے کہ پیپلزپارٹی اُن
کے کندھے سے کندھاملا کرکھڑی ہے ۔’’پاکستان کھَپے‘‘کا نعرہ تو محض اقتدارکے
ایوانوں تک پہنچنے کاایک بہانہ تھا ،وطن کی محبت نہیں۔ ویسے یہ توماننا پڑے
گاکہ اپنے دَورِاقتدار میں زرداری صاحب نے پاکستان کو واقعی ’’کھپا ‘‘کے
رکھ دیا۔
محترم آصف زرداری پیپلزپارٹی کوشہیدوں کی پارٹی اوراپنے آپ کوشہیدوں کی
پارٹی کاوارث کہتے رہتے ہیں۔ پیپلزپارٹی توشہیدوں کی پارٹی ہے کہ سوائے
نصرت بھٹوکے کسی کوبھی طبعی موت نصیب نہیں ہوئی لیکن اِس کے وارث نقلی
۔اصلی وارث توذوالفقار جونیئرہے بلاول نہیں کہ اپنے نام کے ساتھ ’’بھٹو‘‘کا
لاحقہ لگادینے سے کوئی بھٹونہیں بن جاتا۔ حیرت ہے کہ زرداری صاحب نے
اپنانام ’’آصف بھٹوزرداری‘‘کیوں نہیں رکھا؟۔ویسے زرداری صاحب اپنے آپ
کوشہیدوں کی پارٹی کاوارث کیسے قراردے سکتے ہیں؟کہ ذوالفقارعلی بھٹوکو جب
پھانسی دی گئی توموصوف کے والدحاکم علی زرداری مرحوم پیپلزپارٹی میں نہیں
بلکہ اے این پی میں تھے، شاہنوازبھٹو جلاوطنی میں ہی اﷲ کوپیارے ہوگئے ۔تب
بھی آصف زرداری صاحب کاپیپلزپارٹی سے دوردور تک کوئی تعلق نہیں تھا،
میرمرتضٰے بھٹوکے قتل پرآج بھی انگلیاں زرداری صاحب کی طرف ہی اُٹھتی
ہیں۔وہ قتل اندھا تھاتو نہیں لیکن بنادیا گیا۔ رہا بی بی شہیدکا معاملہ
توذوالفقارعلی مرحوم کے فرسٹ کَزن ممتازبھٹو آج بھی یہ ماننے کوتیار نہیں
کہ بی بی شہیدکے قتل میں آصف زرداری ملوث نہیں تھے۔ سابق وزیرِاعلیٰ سندھ
ارباب غلام رحیم کایہ طنزیہ جملہ آج بھی لوگوں کو اَزبَر ہے کہ ’’بعض اوقات
کھُراخود کھوجی کے گھرمیں بھی جاپہنچتا ہے‘‘۔ قتل یہ بھی اندھانہیں تھالیکن
بنادیا گیا۔ میاں نواز شریف صاحب نے کہاتھا کہ وہ برسرِ اقتدار آکر بینظیر
کے قاتلوں کو بے نقاب کریں گے لیکن پتہ نہیں کِس ’’مفاہمتی پالیسی‘‘کے تحت
وہ بھی خاموش ہیں۔ ہمیں تو زرداری صاحب کسی بھی لحاظ سے شہیدوں کی پارٹی کے
وارث نہیں لگتے لیکن وہ اگرکہتے ہیں تو ’’پھرٹھیک ہی کہتے ہوں گے‘‘۔
زرداری صاحب نے جن کومخاطب کرکے یہ کہا’’آپ کوتین سال رہنااور چلے جاناہے
،پھر ہم نے ہی رہناہے‘‘ دراصل وہی توشہیدوں کے وارث اورشہیدوں کے خاندان سے
تعلق رکھنے والے ہیں۔ اپنے خون سے قربانی کی لازوال داستانیں رقم کرنے والے
شہیدوں کی وراثت چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے پاس ہی توہے۔ شجاعت
اورقربانی اُن کی گھٹی میں پڑی ہے ۔وہ ایک نشانِ حیدر(میجر شبیرشریف شہید)
کے بھائی اور دوسرے نشانِ حیدر (میجرعزیز بھٹی شہید) کے بھانجے ہیں۔
بھلازرداری صاحب کاشہیدوں کے خاندان سے تعلق رکھنے والے اِس ’’شجاع‘‘ سے
کیامقابلہ۔ وہ شہیدوں کے ’’نقلی‘‘ اور یہ ’’اصلی‘‘ وارث۔ کہاجا سکتاہے کہ
’’چہ نسبت خاک رابہ عالمِ پاک‘‘۔ ۔۔ اورہاں جنرل صاحب نے توتین سال بعدبھی
اِدھرہی رہناہے البتہ زرداری صاحب کا ’’کَکھ‘‘ پتہ نہیں کہ وہ دبئی میں
مستقل سکونت اختیارکرتے ہیں یا لندن میں۔ |
|