مجرمین کی پشت پناہی - ہندوستانی سیاست کی روایت
(Dr M A Rasheed Junaid, India)
ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج
ان دنوں ملک سے فرار ایک مطلوب ملزم کی ہمدردی کرنے کی وجہ سے خبروں میں
ہیں ، سمجھا جارہا تھا کہ انہیں اپنی وزارت سے مستعفی ہونا پڑے گالیکن وزیر
اعظم نریندر مودی، وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ ، صدر بی جے پی امیت شاہ اور
دوسرے اہم قائدین کی مہربانیاں سشما سوراج کے ساتھ ہیں انہیں اب استعفیٰ
دینے کی نوبت شائد نہ آئے۔ویسے اپوزیشن کا کام ہی ہے کہ وہ حکمراں جماعت
اور وزراء کے خلاف بیان بازی کرتے رہیں تاکہ خبروں میں رہ کرکم از کم اپنی
ذمہ داری نبھانے کا ثبوت دیں۔ سشما سوراج خود ماہر قانون ہیں اور انہیں پتہ
ہوگا کہ ایک مجرم کی مدد کرنا قانوناً کتنا بڑاجرم ہے۔وزیر خارجہ نے گذشتہ
سال ایک ایسے ملزم کی مدد کی ہے جو گذشتہ پانچ سال سے ملک سے فرار ہوکر
برطانیہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔ انڈین پرایمئر لیگ (آئی پی ایل)
کے سابق کمشنر للت مودی پر الزام ہے کہ وہ اپنے عہدہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے
کئی ایک بے ضابطگیوں کے ذریعہ کروڑہا روپیے خرد برد کرنے میں ملوث ہیں اور
اس کے خلاف ملک میں سنگین مالی جرائم کی تفتیش کرنے والے ادارہ انفورسمنٹ
ڈائرکٹوریت (ای ڈی) تفتیش کررہی ہے ، للت مودی کی گرفتاری کے لئے ای ڈی نے
’’لک آؤٹ سرکیولر ‘‘ بھی جاری کررکھا ہے ، سابقہ منموہن سنگھ حکومت نے ان
کا پاسپورٹ بھی ردکررکھا تھا ۔ گذشتہ سال للت مودی کو انکی بیوی جو کینسر
کے عارضہ میں مبتلا ہے انکے آپریشن کے کاغذات پر دستخط کرنے کیلئے لندن سے
پرتگال جانا تھا جس کے لئے مودی نے ہندوستانی وزیر خارجہ سشما سوراج سے مدد
کی درخواست کی اور وزیر خارجہ نے اپنے ملک سے فرارہندوستانی مجرم کی بیوی
کو بچانے کیلئے ہوسکتا ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کی ہو۔ للت
مودی لندن سے پرتگال پہنچے اور پھر وہاں سے لندن واپس ہوگئے اسی لئے وزیر
خارجہ نے صاف الفاظ میں کہدیا کہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر میں نے ان کی
مدد کی ، وہ پرتگال گئے اور پھر واپس لندن آگئے، تو بدلا کیا جو اتنا
ہنگامہ ہورہا ہے؟اس کے علاوہ وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ دہلی میں برطانوی
ہائی کمشنر اور برطانیہ کے ایم پی سے یہی کہا کہ وہ برطانوی قانون کے مطابق
للت مودی کو سفری دستاویزات فراہم کرسکتے ہیں اور اس صورت میں دونوں ممالک
کے درمیان تعلقات میں بگاڑ پیدا نہ ہوگی ۔ سوال پیدا ہوتا ہیکہ وزیر خارجہ
جو خود ماہر قانون ہیں اور انکے شوہر و بیٹی بھی پیشہ وکالت سے وابستہ ہیں
اس کے باوجود انہو ں نے ایک ملزم کی کیوں کر مدد کی ہے اس سلسلہ میں تجزیہ
کاروں کا ماننا ہے کہ للت مودی کی مدد کرنا اصل میں انکی بیوی کی جان بچانا
ہوسکتا ہے اور یہی سوچ کر مرکزی وزیر خارجہ نے للت مودی کی مدد کرنے کیلئے
برطانوی حکومت سے بات چیت کی ہو۔ ویسے للت مودی کے قانونی ماہرین کی ٹیم سے
وابستہ رہنے والوں میں سشما سوراج کے شوہر اور بیٹی کا نام شامل ہے۔کانگریس
جس طرح سشما سوراج کے خلاف ایک ہندوستان کو مطلوب ملزم کی مدد کے خلاف آواز
اٹھا رہی ہے اس میں اتنا دم دکھائی نہیں دیتا اس سلسلہ میں تجزیہ نگاروں کا
خیال ہے کہ کانگریس جس وقت حکمراں جماعت کی حیثیت سے ملک پر حکومت کررہی
تھی اس دوران ہندوستان سے دو ایسے خطرناک ملزمین کو ملک سے باعزت بھجوانے
میں اہم رول ادا کیا ہے جو ہندوستانیوں کی جان و مال کو شدید نقصان پہنچانے
والوں میں شمار کئے جاتے تھے ۔ للت مودی کا مسئلہ آئی پی ایل سے جڑا ہوا ہے
اگر للت مودی واقعی مجرم ہیں تو انہیں سزا ملنی ہی چاہیے اور ایسے شخص کی
کسی صورت میں بھی مدد نہیں کی جانی چاہیے لیکن کانگریس نے جن دو افراد کو
ملک سے راہِ فرار اختیار کرنے میں مدد کی ہے یہ قوم سے جڑا ہوا مسئلہ ہے،
کانگریس کے دورِ اقتدار میں2؍اور 3؍ڈسمبر1984ء میں بھوپال گیس المیہ کے ذمہ
دار کو ملک سے فرار ہونے میں کس نے مدد کی؟بھوپال گیس ٹریجڈی میں کم و بیش
16ہزار انسانوں کی ہلاکت اورپانچ لاکھ اٹھاون ہزار ایک سو پچیس افرادبشمول
معصوم بچے، مرد و خواتین زخمی و متاثر ہوئے ہیں اس واقعہ کے اصل ذمہ داروں
کو راہِ فرار کرنے یا انکے ساتھ تعاون کرنے میں اس وقت کی حکمراں کانگریسی
قائدین کا ہاتھ ہے ، بھوپال گیس المیہ کے موقع پر یونین کاربائیڈ کارپوریشن
کا چیرمین و سی ای او وارین انڈیرسن تھا جو ستمبر 2014میں فلوریڈا کے ایک
نرسنگ ہوم میں فوت ہواجو اس سانحہ کا مجرم تھا۔ بھوپال گیس المیہ کے
متاثرین کو آج تک معاوضہ نہیں ملا ہے اور اگر انہیں پورا معاوضہ مل پاتا ہے
تو وہ کروڑپتی بن جائیں گے لیکن حکومتیں ان متاثرین کے لئے کچھ کرنے کا
ارادہ نہیں رکھتے ۔ بوفرس اسکام بھی کانگریس کے دور اقتدار میں ہوا اور اس
کیس میں مطلوب مجرم قطروچی کو ملک سے نکالنے میں بھی اس وقت کی حکمراں
جماعت کا اہم رول رہا ہے غرض کہ کانگریس کے دورِ اقتدار میں جس طرح کے
اسکامس اور دیگر جرائم کے کام ہوئے ہیں اور انہیں چھوٹ دی گئی،
برسراقتداربی جے پی کے پاس کانگریس کے خلاف بھی ایسے کئی راز پوشیدہ ہوسکتے
ہیں اور اسکے استعمال کا طریقہ بھی وہ جانتی ہے اسی لئے ہوسکتا ہے کہ
کانگریس سشما سوراج کے خلاف آواز اٹھانے میں وہ دم خم نہیں رکھتی جس طرح
ہونا چاہیے تھا۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر سشما سوراج للت مودی کی
انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد کرسکتی ہے تو کیا ہندوستان کو مطلوب
دیگرمجرمین بشمول داؤد ابراہیم وغیرہ کی جانب سے مدد کی درخواست کی گئی تو
انہیں بھی تعاون فراہم کیا جائے گایہ ایسا سوال ہے جس کا شائد بی جے پی یا
دوسری جماعتوں کے پاس جواب نہیں یا ہے بھی تو انکے خلاف ہی ہوگا کیونکہ
داؤد ابراہیم پر سنگین الزامات عائد ہیں اور وہ ہندوستان کو مطلوب ترین
اشخاص کی فہرست میں سب سے اونچا مقام پر ہیں۔
آج کانگریس جس طرح سشما سوراج کے استعفیٰ کی مانگ کررہی ہے اس کے دور
اقتدار میں کن کن اشخاص پر الزامات عائد کئے گئے ہیں اورکیسے کیسے اسکامس
ہوچکے ہیں اور ان اسکامس و دیگر جرائم میں ملوث افراد کو کس طرح ڈھیل دی
گئی اس کا جائزہ لیں تو ایک طویل فہرست مرتب ہوسکتی ہے ۔ کانگریس کے دورِ
اقتدار میں بھوپال گیس ٹریجڈی کے ذمہ دار کو چھوڑ دیا گیا آج بھوپال میں دو
نسلیں گزرنے کے باوجود بچے اپاہیج پیدا ہورہے ہیں ۔ ان متاثرین کے ساتھ جو
نا انصافیاں ہوئیں ہیں یہ سب کانگریس کے دورِ اقتدار میں ہوئیں ہیں۔ آج
کانگریس ایک شخص کے خلاف مہم چلاکر مرکزی وزیر خارجہ کو اپنے عہدے سے
مستعفی ہونے کی مانگ کررہی ہے بے شک للت مودی کا مسئلہ اپنی جگہ اہم ہے
لیکن کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو چاہیے کہ وہ صرف ایسے مسئلہ کو
طول دینے کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے کی حکمراں جماعت کو
ترغیب دیں اور خود بھی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے خدمات انجام دینے کی
کوشش کریں۔ |
|