صوبہ سندھ میں امن و امان کی
صورتحال میں خرابی اور وہاں رینجرز کا آپریشن ڈیڑھ برس سے جاری ہے جو اب
اپنے منطقی انجام کی طرف جاری بہت جلد بڑے بڑے مگر مچھ اپنی دم پر کھڑے نظر
آئیں گے ایسے وقت میں جب پاکستانی فوج ہماری بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ، آصف
زرداری کی جانب سے جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ ایک سابق صدر کو زیب نہیں
دیتی آصف زرداری کو سندھ میں اپنی جماعت کی حکومت کی کارکردگی بہتر بنانے
اور کراچی میں امن کی بحالی پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کیونکہ انھیں اسی
صوبے کے عوام نے مینڈیٹ دیا ہے پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے
لہجے کی تلخی ظاہر کرتی ہے کہ اس آپریشن میں پیپلز پارٹی کے بہت سے کرتوتوں
پر سے پردہ اٹھنے ولا ہے پاکستان کے سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے سربراہ
آصف علی زرداری کی جانب سے منگل کو فوجی قیادت پرزبردست تنقیدی اور اینٹ سے
اینٹ بجادینے کے بیان کی وجہ سے پورے ملک میں بدھ کے روز تمام دن قیاس
آرائیاں جاری رہیں مگرصورتحال اس وقت واضح ہوئی جب پیپلز پارٹی کے سینیٹر
فرحت اﷲ بابر نے سینیٹ کے اجلاس میں ایک نکتہ اعتراض پر کہا کہ صوبہ سندھ،
جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے وہاں پر تعینات رینجرز حکام اپنے اختیارات سے
تجاوز کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں اس لیے وہ
اپنے دائرہ اختیار میں رہیں اور اسی سلسلہ میں وزیر اعلی سندھ نے ڈی جی
رینجرز کو ایک عدد چٹھی بھی لکھ دی ہے کہ رینجرز کے مسلح اور چہروں پر ماسک
پہنے جوانوں کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دفتر میں دھاوا بولنا، ان کے
اختیار سے باہر ہے ۔انہوں نے کراچی کے کور کمانڈر لیفٹینٹ جنرل نوید مختار
کا نام تو نہیں لیا لیکن حال ہی میں ان کی جانب سے ایک سیمینار میں صوبہ
سندھ میں طرز حکومت کو برا (بیڈ گورننس) قراد دینے پر تنقید کرتے کہا کہ
ایسے بیانات اختیارات سے تجاوز کے زمرے میں آتے ہیں سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے
کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ صوبہ سندھ میں قائم ایپکس کمیٹی کے ذریعے سندھ میں
قائم پیپلز پارٹی کی حکومت کو غیر مؤثر کیا جا رہا ہے ۔’کہیں ایسا تو نہیں
کہ ایپکس کمیٹی کے ذریعے صوبائی حکومتوں کو معطل کیا جا رہا ہے ؟ اور وہ
اختیارات جو اسٹیبلشمنٹ پہلے پردے کے پیچھے رہ کر استعمال کرتی تھی، اب
ایپکس کمیٹیز کے ذریعے استعمال کرنا چاہ رہی ہو؟فرحت اﷲ بابرداخلہ امور کے
وزیر مملکت بلیغ الرحمٰن نے ان دونوں الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ
ایپکس کمیٹی کے بارے میں اعتراض اس لیے بے جا ہے کہ اس کی سربراہی وزیراعلیٰ
کرتے ہیں۔وزیر مملکت برائے داخلہ نے اس موقع پر ان خدشات کی بھی تردید کی
کہ وفاقی حکومت صوبہ سندھ میں گورنر راج لگانے کے بارے میں تجویز پر غور کر
رہی ہے ۔ایسے خدشات کہ وفاقی حکومت کسی صوبائی حکومت کے اختیارات سلب کرنا
چاہتی ہے ، بالکل بے بنیاد ہیں جبکہ امن و امان مکمل طور پر صوبائی معاملہ
ہے ۔ اگر صوبائی حکومت کے اختیارات لینے ہی ہوتے تو وزیر اعظم گورنر راج
لگانے کی تجویز کو یکسر مسترد نہ کر دیتے اسی موقعہ شاہ محمود قریشی کا
کہنا تھاکہ سابق صدر نے ایسے وقت میں فوج کے خلاف سخت زبان استعمال کیوں کی
جب وہ قبائلی علاقوں میں فوجی کارروائیوں میں مصروف ہے ۔ا س سے ایسا لگتا
ہے کہ پیپلز پارٹی کی قیادت اپنی بدعنوانی پر سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ محاد
کھولنا چاہتی ہے جبکہ وہ فہرست بھی عوام کے سامنے پیش کی جائے جس کو چھپانے
کی کوشش ہو رہی ہے اگر وہ لسٹ سامنے آجائے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا
پانی ہو جائے گا لسٹ سے مراد سندھ رینجرز کے سربراہ کی وہ رپورٹ ہے جس میں
انہوں نے کہا تھا کہ کراچی میں کھربوں روپے کی بدعنوانی میں بعض با اثر
سیاسی رہنما ملوث ہیں ۔ وزیرِ اعظم نواز شریف نے نہ صرف فوج پر تنقید کرنے
کو ایک منفی قدام قرار دیا ہے بلکہ انہوں نے آصف علی زرداری سے ملاقات کرنے
سے معذرت کر لی ہے ۔ انکا کہنا تھا کہ اس نازک مرحلے پر جب دہشت گردی کے
خلاف آپریشن جاری اور قومی سطح پر اتفاقِ رائے ضروری ہے اگر مسلح افواج پر
تنقید کی جائے گی تو اس سے ان عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی جو پاکستان کو
عدم استحکام کا شکار کر کے تعمیر و ترقی کے عمل میں رخنہ ڈالنا چاہتے ہیں
جبکہ فوج اور سیاسی قیادت کے درمیان ہم آہنگی نے پاکستانی جمہوریت کو مضبوط
کیا ہے اور سیاسی استحکام اور قومی اتفاق رائے کے ساتھ ہی ملک ترقی کی راہ
پر گامزن ہو سکتا ہے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ سابق صدر نے اینٹ سے اینٹ بجانے
کا جو محاورہ استعمال کیا ہے اس پر عمل کب سے ہونا شروع ہوگا ان سیاستدانوں
نے عوام کی اینٹ سے اینٹ تو کب کی بجا رکھی ہے ان کی باری کب آئے گی؟ |