مکھی چومکھی

وفاق میں برسراقتدار حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان مکھی سے شروع ہونے والی لڑائی چومکھی جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے، جس کی جھلکیاں آرمی آرڈیننس میں توسیع کے بل کی منظوری کے وقت قومی اسمبلی میں متحدہ اور حکومتی ارکان میں تلخ کلامی کی صورت میں سب دیکھ چکے ہیں۔ بات صرف اتنی تھی کہ کراچی کے دورۂ کے دوران وزیراعظم نواز شریف نے گلہ کیا کہ کراچی میں اگر مکھی بھی مر جائے تو ہڑتال کرکے کاروبار بند کر دیا جاتا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان سے سیاسی میدان میں گویا بھونچال آ گیا۔متحدہ کے قائد الطاف حسین نے اس بیان کو حسب معمول مہاجروں کی بے حرمتی اور بے ادبی قرار دے کر وزیراعظم سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا۔ مکھی مرنا صرف ایک محاورہ ہے جومعمولی نقصان کی تشبیہہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے مگر کراچی آپریشن کے دوران زیر عتاب متحدہ نے اسے بتنگڑ بنا کر سیاسی میدان میں زلزلہ برپا کر دیا ہے جس کے افٹر شاکس بھی اتنے شدید تھے کہ وزیر اطلاعات پرویز رشید کو معذرت خواہانہ دفاع کرتے ہوئے کہنا پڑا کہ وزیراعظم الطاف حسین کو ’’شہد کی مکھی‘‘ سمجھتے ہیں جس سے مٹھاس نکلتی ہے اور متحدہ کے کارکن ’’مکھیاں‘‘ نہیں ’’شہد کی مکھیاں‘‘ ہیں۔ پرویز رشید نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے الطاف بھائی کی شان میں خوب قصیدے پڑھے مگر دوسری طرف اسمبلی میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے متحدہ کو کھری کھری سنا دیں اور ارکانِ متحدہ جنہوں نے تحریک انصاف کے بارے میں خواجہ آصف کی تقریر پر تالیاں پیٹیں اور ڈیسک بجائے تھے، کو بہت ناگوار گزریں اور انہوں نے خوب احتجاج کیا اور ایک بار پھر الطاف بھائی نے متحدہ کی قیادت سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا جو اُمید ہے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی جلد واپس لے لیا جائے گا۔ معاملہ بگڑتا دیکھ کر بالآخر وزیراعظم صاحب کو خود ہی اسمبلی کے فلور پر آ کر یہ وضاحت کرنی پڑی کہ کراچی میں مکھی کے مرنے پر احتجاج اور ہڑتال کی بات انہوں نے نہیں کہی بلکہ کسی نے ذکر کیا تھا اور انہوں نے صرف نوٹس لینے کی بات کی تھی۔ دوسرے الفاظ میں اپنی صفائی دیتے ہوئے وہ یہ کہہ رہے تھے کہ دراصل مکھی تو گورنر عشرت العباد نے ان کے منہ میں ڈالی تھی ورنہ یہ قول تو گورنر ہی کا تھا کہ مکھی مرنے پر بھی ہڑتال کی جاتی ہے۔ اب وزیراعظم لاکھ وضاحتیں کریں، وزیر اور مشیر مکھی کو شہد کی مکھی ثابت کریں مگر بقولِ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کہ ڈگری جعلی ہو یا اصلی بہرحال ڈگری ہوتی ہے اسی طرح مکھی عام ہو یا شہد کی بہرحال مکھی ہی ہوتی ہے۔ عام مکھیاں ہوں یا شہد کی دونوں اقسام فائدہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک بھی ہیں۔ عام مکھی کے ایک پَر میں بیماری اور دوسرے میں شفاء ہے۔ شہد کی مکھیوں کا فائدہ یہ ہے کہ ان سے مٹھاس نکلتی ہے مگر اِن کا ڈنگ بھی انتہائی خطرناک ہے۔ پرویز رشید صاحب شہد کی مکھیوں کی لاکھ خوبیاں بیان کریں لیکن وزیراعظم صاحب نے اِن کے چھتے میں ہاتھ ڈال ہی دیا ہے اور اگر سائیں قائم علی شاہ مکھیوں پر مکھیاں نہ مارتے تو شاید ایسے بیان کی نوبت بھی نہ آتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الفاظ کا چناؤ بہتر ہونا چاہئے۔ یقیناً وزیراعظم نے مکھی کا لفظ محاورے کے طور پر استعمال کیا ہو گا اور اگر خدانخواستہ وہ مکھی کے بجائے یہ کہہ دیتے کہ کراچی میں اگر کتا بھی مر جائے تو ہڑتال کر دی جاتی ہے تو پھر نواز شریف صورتحال کو کیسے سنبھالتے؟ ذرا سی بات کو لے کر کچھ لوگ نجانے کون سے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ عام مکھیاں ہمیشہ گندگی پر بھنبھناتی ہیں۔ ہمارے حاکم ان علاقوں کی حالت اسلئے نہیں بدلتے کہ انہیں مکھیوں اور مچھروں سے محبت ہوتی ہے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ ہم مکھیوں کو محاوراً یا ضرب المثل بنانے سے پہلے اپنے زیر انتظام علاقوں کی گندگی خواہ سیاسی ہو یا غیر سیاسی کا خاتمہ کر دیں تاکہ ہمارا سیاسی اور غیر سیاسی ماحول صاف ستھرا رہے اور ہمیں مکھیوں سے نجات مل سکے۔
Najeem Shah
About the Author: Najeem Shah Read More Articles by Najeem Shah: 163 Articles with 192684 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.