دنیا کی تباہی کے ذمہ دار کون۰۰۰ چین یا امریکہ؟

ماحولیاتی آلودگی ۰۰۰

آب و ہوا میں تبدیلی کی کئی ایک وجوہ ہیں جن میں قدرتی بدلاؤ کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک کی جانب سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج اور دیگر عصری ٹکنالوجی سے آراستہ خطرناک مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال بھی ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ انسانوں کی پیدا کردہ سب سے اہم گرین ہاؤس گیس ہے جو حالیہ عشروں میں زمین کے درجۂ حرات میں اضافے کا باعث رہی ہے۔ انسان کوئلہ، گیس اور تیل جلاکر یہ گیس پیدا کرتے ہیں جو فضا میں جمع ہوجاتی ہے۔ روزمرہ زندگی میں پیش آنے والی اشیاء کے لئے قائم صنعتوں اور کارخانوں سے نکلنے والی گیس، گاڑیوں کا دھواں، سگریٹ کا دھواں وغیرہ بھی انسانوں کے لئے مضر ہے۔ مختلف ممالک میں جہاں پر بڑے بڑے کارخانے اور صنعتیں قائم ہیں اطراف و اکناف کی آلودہ فضاء کی وجہ سے کئی بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے اور تحقیق کاروں کے مطابق ان شہروں یا علاقوں میں رہنے والے اس سے کسی نہ کسی طرح متاثر ہوتے ہیں۔ دنیا میں درجہ حرارت میں کمی یا زیادتی سے انسانوں کو نقصان ہوتا ہے۔ موسمی تبدیلی سے متعلق گذشتہ دنوں اقوام متحدہ میں ایک کانفرنس منعقد ہوئی اس موقع پر یعنی اقوام متحدہ میں موسمی تبدیلی پر ہونے والی کانفرنس کے دوران مختلف ممالک کے سیاستداں اس مسئلہ پر بحث کرنا ہی نہیں چاہتے کیونکہ اس میں انکا مفاد پوشیدہ ہے ۔کانفرنس میں شریک تقریباً تمام ممالک نے اقوام متحدہ کو یقین دلایا ہے کہ وہ گیسوں کے اخراج کو کم کریں گے، اس کانفرنس میں شریک ممالک نے متفقہ طور پر وعدہ کیا ہے کہ وہ عالمی حدت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے زیادہ نہیں بڑھنے دیں گے۔ تاہم اہم ممالک اس بات پر بحث کرنے کے لئے تیار نہیں کہ آیا ان کے اس قدم سے موسمی تبدیلی پر مثبت اثر پڑے گا یا نہیں۔ یوروپی یونین اور افریقی ممالک اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ تمام ممالک اس بات کو تسلیم کریں کہ عالمی برادری کے وعدوں کے باوجود عالمی حدت کو دو ڈگری سینٹی گریڈ کی حد سے کم نہیں رکھا جاسکتا۔ اس سلسلہ میں ہندوستان ، چین اور برازیل کا کہنا ہے کہ کونسا ملک کتنی گیسوں کے اخراج کا ذمہ دار ہے کہ معاملہ پر اس اجلاس میں بحث کرنے کے بجائے ڈسمبر میں منعقد ہونے والے اجلاس میں بحث کی جائے۔ ورلڈ وائلڈ فنڈ کیک تسنیپ ایسپ کا کہنا ہے کہ ’’اس اجلاس کا مقصد موسمی تبدیلی میں استحکام لانا ہے لیکن اجلاس میں موجود مندوبین کو بولنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ۔ ان کا کہنا ہے کہ مندوبین چاہتے ہیں سائنسی طور پر ہرملک کے بارے میں تفصیلات دی جائیں کہ وہ موسمی تبدیلی میں بہتری کے لئے کیا قدم اٹھارہے ہیں تاکہ لوگ اپنے سیاستدانوں کو ذمہ دار ٹھہراسکیں۔ یہ واضح ہے کہ کوئی بھی ملک اس حوالے سے کچھ نہیں کرنا چاہتا۔ چین سے امید کی جارہی ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں وہ موسمی تبدیلی کے حوالے سے اپنی تجاویز پیش کرے گا اور ماہرین چین سے امید کررہے ہیں کہ وہ اپنی تجاویز کو پورا کرے گا لیکن اس کا امکان بھی کم دکھائی دیتا ہے۔

ترقی یافتہ اور دیگر ممالک نہیں چاہتے کہ وہ اپنی مکمل رپورٹ اقوام متحدہ کو پیش کریں۔ کیونکہ آج جس تیزی کے ساتھ مختلف ممالک میں خطرناک ہتھیاربنائے جارہے ہیں اور اس کے استعمال سے جو نقصانات ہوسکتے ہیں اس کو پس و پشت ڈال دیا جارہا ہے۔ آج امریکہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک اپنے خطرناک ہتھیاروں کے استعمال سے دنیا کو تباہی و بربادی کے طرف موڑ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ میں اتنا دم نہیں کہ وہ عالمی سطح پر طاقتور ترین ممالک پر دباؤ ڈال کر خطرناک مہلک ہتھیاربنانے اور اس کے استعمال سے روکنے کی کوشش کریں۔ آج دنیا میں دہشت گردی کئی طرح سے ہورہی ہے کہیں پر مہلک ہتھیاروں کے ذریعہ انسانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے تو کہیں مختلف گیسوں کے اخراج سے انسانوں کو شہر خموشاں تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امریکہ جیسا سوپر پاوراور دہشت گردی کو ختم کرنے کے نام پر خودخطرناک تباہی و بربادی مچانے والے ہتھیار استعمال کرنے والا ملک بھی اس بات پر متفق ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی دنیا کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے صدر امریکہ اوباما نے اس مسئلہ کو مزید نظر انداز نہیں کرنے پر زور دیا ہے۔ صدر امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ ماحولیات کے بحران سے نمٹنے کے لئے جو کچھ ممکن تھا کرچکے ہیں۔ انہوں نے فضاء کو آلودہ کرنے والی گیسوں میں واضح کمی کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکہ دنیا میں سب سے زیادہ گرین ہاؤس گیسیس پیدا کرنے والا ملک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ عالمی حدت میں تبدیلی آرہی ہے اور اس حقیقت کے ہمارے آج کل کے طرز زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ مثلاً شدید تر ین طوفان، بارش و سیلاب، خشک سالی کے طویل دور، جنگل میں آگ کے طویل دور، آتش فشاں کا پھٹنا، زلزلے وغیرہ ہیں۔ امریکی صدر کے مضر گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے منصوبوں کو ریپبلکن پارٹی کے ارکان کی اکثریت سے شدید مخالفت کا سامنا ہے کیونکہ ریپبلکنز کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کے ان منصوبوں سے امریکی کاروبار متاثر ہونگے۔ اسی طرح چین کے ایک اعلیٰ سائنسداں نے خبردار کیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے ملک پر منفی اثرات مرتب ہونگے جس سے پیداوار میں کمی اور آب و ہوا متاثر ہونگے۔ چین دنیا کا سب سے آلودہ ملک ہے اور اس کا کہنا ہے کہ زہریلی گیسوں کا اخراج جس سے ماحول تبدیل ہوتا ہے وہ سنہ 2030تک اپنے عروج پر ہونگے۔اس صورتحال کے باوجود چین نے زہریلی گیسوں کے اخراج پر قابو پانے سے متعلق کوئی ہدف نہیں طے کیا ہے۔ خیال رہے کہ پوری دنیا کے 45فیصد کاربن اخراج کے ذمہ دار چین اور امریکہ ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں فوری اقدامات پر زور دینے کے لئے گذشتہ سال 2014میں دنیا بھر کے 161ممالک میں دو ہزار سے زیادہ مقامات پر جلوس نکالے گئے ہیں۔ عوامی ماحولیاتی مارچ نامی مہم میں شرکت کرنے والے لاکھوں مظاہرین نے کاربن کے اخراج پر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ غرض کہ ہمارے ملک ہندوستان کو بھی ماحولیاتی آلودگی سے پاک و صاف رکھنے کے لئے کئی ایک اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں جس طرح فضائی آلودگی کا مسئلہ خطرناک موڑ اختیارکرتا جارہا ہے اس پر قابو پانے کے لئے مرکزی اور ریاستی حکومتیں پہل کریں اور ملک کی ترقی کے لئے صرف صنعتوں میں اضافہ کے ساتھ ساتھ عوام کی صحت مند زندگی کے لئے بھی اقدامات کرنے ہونگے۔ عالمی سطح پر بھی مہک ہتھیاروں کے استعمال پر پابندی عائد کرنی ہوگی لیکن یہ ناممکن ہے کیونکہ طاقتور ترین ممالک اپنے ہتھیاروں کی نکاسی کیلئے کروڑوں ڈالرز حاصل کررہے ہیں اور استعمال کے لئے آج دنیا میں جو ماحول پیدا کرچکے ہیں اس کا اختتام شائد اتنی جلد ممکن نہیں۰۰۰
ٌٌٌ***
 
Dr M A Rasheed Junaid
About the Author: Dr M A Rasheed Junaid Read More Articles by Dr M A Rasheed Junaid: 14 Articles with 10832 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.