کلام قمر اور ریشہ حنا کے نثری حصے کا تعارفی مطالعہ

عابد انصاری صاحب نے' نہایت مہربانی فرماتے ہوئے' قمر نقوی صاحب کا مجموعہءکلام۔۔۔۔۔۔کلام قمر۔۔۔۔۔۔ عطا فرمایا۔ یہ قمر نقوی صاحب نے' عابد انصاری صاحب کو' اپنے دستخطوں سے 10 نومبر 1997 کو عطا کیا تھا/ عابد انصاری میرے بہت ہی اچھے دوستوں میں سے تھے۔ گاہے اپنا تازہ کلام عطا فرماتے رہتے تھے اور میں اس سے' لطف لیتا رہتا تھا۔ بعد ازاں قمر صاحب نے' مجھ ناچیز کو باطور خاص۔۔۔۔ ریشہءحنا۔۔۔۔ عنایت فرمایا۔ اسی طرح نظم۔۔۔۔۔ ماثورہ۔۔۔۔۔۔ ہاتھ لگی۔ ان کے کلام پر دوسرے وقت میں کلام کروں گا۔ سردست کچھ اور باتیں' جو انکشافات کا درجہ رکھتی ہیں' عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

ٹائیٹل پیج کی پشت پر قمر نقوی صاحب کا تعارف درج ہے:
نام: سید حسن قمر نقوی
وطن اجداد: لاہور
جد امجد: میراں سید محمد شاہ رح
موج دریا نقوی بخاری
مورث اعلی: میراں سید جلال الدین
جہانیاں جہاں گشت
اچھ شریف
وطن مالوف: آسیون ضلغ اناؤ
پیدائش: بھوپال
تاریخ پیددائش: 1932
تعلیم: ایم اے تاریخ
ایم بی اے
ادیب فاضل
رکن: برٹش انسٹی ٹیوٹ
مینجمنٹ
نارتھ امریکن ہنٹگ کلب
قیام: ٹلمسا۔ اوکلا ہوما۔ یؤ ایس اے

سیاست میں حصہ لینے سے پہلے' مولوی فضل الرحمن المعروف کوثر نیازی کو عالم دین' استاد' شاعر' ادیب' خطیب' مفسر' اور مقرر جانتا تھا۔ سیاست میں آنے کے بعد' وہ مولوی وسکی معروف ہوئے۔ خدا لگتی یہ ہی ہے' کہ میں نہیں جانتا کہ وسکی سے ان کی کس حد تک جان پہچان تھی یا تھی بھی نہیں' ہاں البتہ کلام قمر کو دیکھنے کے بعد' ان کے تین اور شخصی پہلو سامنے آئے ہیں۔

انہوں نے کتاب کا انتساب' قمر نقوی کے نام کیا ہے۔ انتساب کی عبارت کچھ یوں ہے:
استاد محترم علامہ حضرت قمر نقوی مدظلہ العالی کے نام
گویا وہ حضرت قمر نقوی سے استفادہ کرتے تھے۔

وہ صوفی بھی تھے۔ جیسا کہ انتساب کے آخر میں درج ہے:
حقیر فقیر صوفی فضل الرحمن کوثر نیازی
قمر نقوی بھی انہیں صوفی صاحب کہہ کر ہی ذکر کرتے ہیں۔ اس ذیل میں قمر نقوی نے بڑے ہی واضح الفاظ میں کہا ہے۔

ان کے تصوف اور معرفت کے حوالے سے بھی گفتگو ضروری ہے کہ ان کی شخصیت بالخصوص ذات عرفان کی آئینہ دار ہے اور ان کی ذات بابرکات کا۔۔۔۔یہ۔۔۔۔۔ درخشندہ پہلو ہے۔ امریکہ میں رہ کر مذہب کی اقدار اوراحکام کی حفاظت اور اصول شرعیہ کی مدامت کے ساتھ ایمان کی شمع روشن رکھنا' الله تبارک تعالی اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت کو قائم رکھنا سب جہاد ہی ہے اور صوفی صاحب شب و روز اس جہاد میں مصروف ہیں۔
کلام قمر ص: 33

وہ بڑے اچھے مصور بھی تھے۔
انتساب میں ہی چند مزید چیزوں کا انکشاف موجود ہے۔
ٹکساس میں بزم اردو' پچھلے دس برس سے' اردو کی خدمت کر رہی تھی۔
بزم کے 32ویں عظیم الشان مشاعرے میں' کوثر نیازی کی تصاویر کی نمائش ہوئی اور ان کے کام کو سراہا گیا۔

بزم اردو کے سرپرستوں میں' حضرت مجید جامی' جناب عرفان علی' جناب سید الیاس' جناب سرور عالم راز' جناب شوکت قادری' جناب ڈاکٹر نرمل سنگھ' جناب نادر درانی جناب ابوطالب ایسے جید لوگ شامل تھے۔

جناب سرور عالم راز کے نام پر' مجھے رکنا پڑا۔ موصوف عرصہ سے اردو انجمن چلا کر' اردو شعروادب کی خدمت کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اس باوقار انجمن سے' میرا تعلق چلا آتا ہے اور میں بھی' اپنی ناچیز تحریریں اردو انجمن پر رکھ رہا ہوں۔ جناب سرور عالم راز کا نام پڑھ کر' دل چسپی بڑھنا فطری سی بات تھی۔


قمر نقوی شعر کہنے کے حوالہ سے باظاہر عجیب لیکن حقیقت میں جو ہے واضح الفاظ میں کہتے ہیں۔ یقینا اسے ہی آمد کا نام دیا جاتا ہے۔ لکھتے ہیں

میرے کلام کی تخلیق' میرے ارادے یا کوشش کی مرہون منت نہیں۔ جو بھی کلام وجود میں آتا ہے وہ الہام کی شکل میں ہوتا ہے اور خود باخود الله تعالی کی طرف سے میرے ذہن میں پیدا ہونے لگتا ہے۔ جب بھی کوئی کلام وارد ہونے کو ہوتا ہے تب مجھے اس کا احساس ہو جاتا ہے۔ طبعت میں ایک قسم کی بے چینی اور توجہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے
کلام قمر ص 5

یہ انہوں نے سو فی صد درست بات کہی ہے۔ میں چاہوں یا مجھے کہا جائے' ایک نظم لکھ کر دو۔ سارا دن بیٹھا رہوں' ایک سطر بھی نہیں لکھ پاتا۔

ایک انہوں نے عجیب بات کہی ہے۔
کسی رات خواب میں غزل آنا شروع ہو جاتی ہے۔ کبھی دو چار شعر۔۔۔۔۔۔۔

پڑھنے لکھنے والے' رات کو قلم کاغذ قریب رکھتے ہیں۔ جاگتے میں بھی آئیڈیا آ سکتا ہے۔ خواب صبح تک یاد میں رہیں' ضروری نہیں۔

قمر نقوی کی اردو سے محبت' جذباتی وابستگی اور فراہم کی گئی معلومات دل کو سکون اور روح کو طمانیت بخشتی ہیں۔

اردو کے بارے میں شکوک کا ایک طویل سلسلہ چل نکلا ہے۔ نجانے کیوں ہر کہہ و مہہ کو یہ فکر لاحق ہو گئی ہے۔ اگرچہ اردو کو بچثیت زبان کوئی خطرہ نہیں۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔ انشاءالله۔۔۔۔۔ زندہ رہے گی۔۔۔۔۔۔اس کی حیات جاوداں کا ایک اور ثبوت تو یہ ہے کہ امریکہ ۔۔۔۔۔۔۔یعنی ممالک متحدہ امریکہ کی یونیورسٹی آف منے سوٹا میں اردو زبان کا شعبہ قائم ہو گیا ہے جہاں اردو کی ابتدائی تعلیم سے انتہائی تعلیم تک حاصل کرنے کا انتظام ہے۔۔۔۔۔ اور طالب علموں کی ایک مناسب تعداد اردو زبان سیکھنے میں مشغول ہے۔۔۔۔۔۔ ایک اور یونیورسٹی میں بھی اردو کے شعبے کا عنقریب فیصلہ ہونے کو ہے انشاءالله۔
ص۔7

قمر نقوی' نثری نظم کے سلسلہ میں' کافی سنجیدہ نظر آتے ہیں۔ اس صنف شعر پر' انہوں نے کھل کر بحث کی ہے۔ یہ ہی نہیں' اس صنف شعر سے' ذاتی وابستگی کے بلاتکلف اشارے ملتے ہیں۔ لکھتے ہیں۔

نثری نظم کا مستقبل تابناک محسوس ہوتا ہے اور اس کو یقینا نظم کی صنف میں ممتاز مقام حاصل ہوگیا ہے۔۔۔۔ ابھی اس کے کمال کا لمحہ نہیں آیا۔۔۔۔۔ اور شادد اس مقام پر پپہنچنے کے لئے اس صنف کو ان مراحل سے گزرنا ہو گا جن کے بعد منزل مراد کی حدود کا آغاز ہوتا ہے.
ص 24

ایک دوسری جگہ پر لکھتے ہیں۔

اگر اس کو نظم کے قبیلے میں رکھنا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ جو کہ واقعی اس صنف کا تقاضا ہے ۔۔۔۔۔۔ تو اس کی نظمیت کو برقرار رکھنا ہو گا۔۔۔۔۔۔ اور نظمیت کا قیام اسی وقت ممکن ہے جب اس میں شعریت کا وجود ہو۔۔۔۔۔

بڑی ہی معقول بات ہے۔ شعریت سے عاری چیز' نظم کی حدود سے باہر رہتی ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں.

شعریت صرف اور صرف اس وقت پیدا ہو سکتی ہے جب اس میں ترنم' تبسم اور وزن قائم رکھا جائے گا۔
ص 15

ترنم اور تبسم تک تو بات سمجھ میں آتی ہے۔ یہ وزن والی بات' سمجھ سے باہر ہے۔ وزن کی صورت میں' اسے نثری نظم کیوں کہا جائے گا۔ وزن دانستگی سے وابستہ ہے۔ دانستگی الہامی کیفیت سے' باہر کی چیز ہے۔ وزن اور بعض مروجہ اطوار فکر کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔

مرا پیغمبر عظیم تر

کسی بھی صورت میں گوارا نہیں۔ یہ گستاخی اور بےادبی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ شعر اور نثر کے امتیازات وزن سے الگ اور ہٹ کر ہیں۔ شعر میں یہ امور موجود ہوتے ہیں۔
فکری اورصوتی آہنگ
تبسم
چنچل پننا
حسن شعرہا کا التزام۔ تشبیہ' استعارہ' علامتیں' تلمیحات اورشعری صنعتوں کا فطری اہتمام
شعریت poetic
کم لفظوں میں بہت زیادہ کہہ دیا جاتا ہے
کوملتا' ریشمیت' نزاکت' والہانہ پن وغیرہ
غنا
لفظوں کی نشت و برخواست نثر سے قطعی ہٹ کر اور الگ تر
میں اپنے کہے کی سند میں فقط ایک مثال پیش کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔

اگر یہ شاعری نہیں تو نثر بھی نہیں ہے۔
دیکھ کے چاند مرے آنگن کا
جانے کیوں پھیکا پڑ جائے
چنچل روپ بہاروں کا

قمر نقوی نے آخر میں اس صنف شعر سے خصوصی متعلق ہونے کے حوالہ سے کہا ہے۔

میں بتدریج
ان قواعد و ضوابط کے اختراع اور تنظیم کے کام میں مشغول ہوں اور ممکن ہے کچھ دن بعد میں کوئی ایسا فن اختراع میں کامیاب ہو جاؤں جو فن عروض کا مماثل ہو کر نثری نظموں کی پاسبانی کر سکے۔
ص 26


اس ذیل میں کیا پیش رفت ہوئی' میں آگاہ نہیں ہوں۔ اگر کسی صاحب کو آگاہی ہو' تو ضرور قلم اٹھائے۔ جو بھی سہی شاعری کی کوئی بھی صنف اور صورت رہی ہو' یہ طے ہے' کہ پرلطف شاعری ایک خودکار عمل ہے۔

کلام قمر .... میں قمر نقوی کا مقالہ۔۔۔۔۔ تیسرا زاویہ۔۔۔۔۔ معلومات اور یادوں کا اچھا خاصا ذخیرہ رکھتا ہے۔ اس میں اختر حسین شیخ کی تحریر کا ذکر آیا ہے جانے ان کی تحریر کیوں کتاب میں شامل نہیں ہو سکی۔

اس میں ان حضرات سے متعلق یادوں کا ذکر ملتا ہے۔
اقبال راہی
بلقیس فاطمہ نقوی
سردار جگنور سنگھ
حاجی ملک مقبول
شاہد واسطی
شرین زاد بہنام
ظفر علی راجہ
عابد انصاری
فخرالدین بلے
محسن بھوپالی
مرتضی برلاس
پروفیسر یوسف جمال

۔۔۔۔۔ ریشہءحنا۔۔۔۔۔ میں دو مقالے شامل ہیں۔ پہلا مقالہ محترمہ شرین زاد بہنام کا ہے' جب کہ دوسرا مقالہ جناب قمر نقوی کا ہے۔ محترمہ شرین زاد بہنام کے مقالے پر' کسی دوسرے وقت میں' گفتگو کروں گا. سردست قمر نقوی صاحب کے مقالے سے متعلق' کچھ عرض کرنے کی جسارت کرتا ہوں.

مادہ پرستی تو ہر دور کی ریتا ہے اور یہ بھی' آج کچھ کم نہیں۔ اس بےحسی کے عالم میں بھی' حسن و عشق کی اہمیت اپنی جگہ پر قایم رہی ہے۔ آج غم جاناں پر' غم روزگار کو اہمیت دینے کا نعرہ بلند کیا جا رہا ہے۔ زبانی کلامی تو یہ ٹھیک ہے اور اس کی حمایت بھی کی جانی چاہیے۔ کہنا اور کرن'ا دو الگ چیزیں ہیں' لہذا اسے عملی جامہ پہنانا امکان میں ہی نہیں۔ غم جاناں کی آڑ میں' عصری کرب کا بھی اظہار ہوتا آیا ہے۔ ظفر کا یہ شعر' 1854 کے تناظر میں دیکھیے' معنویت ظاہر سے یکسر ہٹ کر سامنے آئے گی۔

چشم قاتل تھی مری دشمن ہمیشہ لیکن
جیسی اب ہو گئی قاتل کبھی ایسی تو نہ تھی

قمر نقوی نے اس مدے پر ہی بحث کی ہے اور ان کا موقف اور انداز بڑا جان دار ہے۔ ان کا یہ جملہ دیکھیے کتنا باوزن ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ حسرتوں آرزوں تمناؤں مرادوں اور خوابوں کا کوئی مقررہ دور نہیں ہوا کرتا' اس لئے کہ حسن اور عشق زمان و مکان کے اسیر نہیں ہیں۔ ص 27

اپنے کہے کی سند میں اشعار درج کیے ہیں۔ پہلا شعر حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رح کا درج کیا ہے۔
اندر آئینہ جاں عکس جمالے دیدم
ہمچوں خورشید کہ در آپ زلالے دیدم

یہ بات غلط بھی نہیں کہ کلام میں نازکی' شیفتگی' کشش اور آشفتگی کیسے پیدا ہو گی۔ حسن و عشق ہی تو یہ جوہر اس میں پیدا کرتے ہیں۔ صاف ظاہر ان عناصر کو پیدا کرنے کے لیے اس نوع کے لفظوں کی ضرورت پیش آئے گی۔ لکھتے ہیں۔

جذبات کے اظہار وبیان کو نظم کی شکل دینا اور اس لفظی شکل کو مضمون کے مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہی کمال شاعری ہے۔ ص 29

نقوی صاحب کا کہنا ہے

جن شعرا کو قبول عام اور شہرت دوام حاصل ہوئی ان کا وہی کلام بنیاد عظمت بنا جو سادہ اور عام فہم تھا۔ زبان کی سادگی روزمرہ اور بیساختگی ان مشاہیر کا طرہءامتیاز اور فصاحت بلاغت و لطافت کلام ان کی خصوصیات رہیں۔ ص 30

اس کے بعد انہوں نے فصاحت بلاغت اورسادگی کی استاد شعرا کے کلام سےاسناد کے ساتھ پرمزہ اور پرمغز گفت گو کی ہے۔

فصاحت کیا ہے

فصاحت نظم کا وہ لباس ہے جو اس کے پیکر نازنین سے نہ صرف کاملا مربوط ہو بلکہ اس کی زیب وزینت اور مراد شعر کی لطافت و نفاست کا باعث ہو۔ ص 31

بلاغت کیا ہے۔

بلیغ کلام وہ ہے جو فصیح ہو عیوب سے پاک ہو اور مقتضائے حال کے مناسب ہو۔ ص 34

سادگی کے بارے میں ان کا موقف ہے کہ

سادگی سے مراد وہ صورت لفظی ہے جو عام فہم ہو اور عالم و عام دونوں طبقات کے افراد کے لئے قابل اعتنا قرار پا سکے۔ ص 37

کتاب کے آغاز میں قمر نقوی نے جو مقالہ پیش کیا ہے' کمال کی معلومات رکھتا ہے۔ اچھے کلام کے اصول اور معیارات بڑے خوب صورت انداز میں درج کیا ہے۔ یہ شاعر اور شعر کے قاری اور سامع کے لیے برابر کی افادیت رکھتا ہے۔

بلاغت کے ضمن میں جدید و قدیم شعرا سے سند پیش کرتے ہیں۔ اس ذیل میں غالب کے کلام سے بھی سند پیش کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں غالب کا یہ شعر فصیح و بلیغ ہے لطیف نہیں
آگہی دم شنیدن جسقدر چاہے پھیلائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالم تقریر کا

غالب کے اس شعر کو لطیف قرار دیتے ہیں۔
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

بہت کم ایسا ہوا ہے کہ مجموعہ شعر کے ساتھ معلومات افروز نثر بھی پڑھنے کو ملے۔ قمر نقوی کے ہاں یہ کمال شعر و نثر لطف اندوزی کے لیے میسر آ جاتا ہے۔

مصوری سے متعلق کلام ترتیب وار درج ہیں۔

چلا ہوں لے کے میں سرکار دوعالم کے لئے
جمال شعر وادب' فکر و فن کا نذرانہ
..........

جانے کس نے یہ در کعبہ پہ جا کے لکھ دیا
اس کا گھر کہتے ہیں اس کو جس کا کوئی گھر نہیں
..........

کیسے دل کو سمجھاؤں ہے نظر کا دھوکا سب
چاند میں جو ہالا ہے کان میں جو بالی ہے
.........

مرے لمحے غزالان حرم ہیں
یہ روز وشب ہی میرے ہمقدم ہیں
قمر لکھتا ہوں خود اپنا مقدر
مری طویل میں لوح و قلم ہیں
.........

ایسی حالت میں کہ ہے انجام دونوں ہی کا ایک
شمع اب کس کو کہوں میں کس کو پروانہ کہوں
...........

راہ منزل میں قدم دیکھ کے رکھنا کہ قمر
گرنے والے کو زمانے نے سنبھالا بھی نہیں
.........

قصہء منصور و سرمد نہ ہوتا تو قمر
دفتر عشق میں مضمون ہمارا ہوتا
............

بس ایک رقص تک ہی نہ رہ جاؤ دوستو
قاتل چھپا ہوا ہے پس دیوار دیکھنا
...........

ہزار آبلہ پائی کا غم رہے لیکن!
نظام شوق میں لازم سفر ہی کرنا ہے
...........

نظم۔۔۔۔ آنسو اور نگینہ
...........

نظم۔۔۔۔ لافانی
...........

مرا شمار بھی کرنا رموز قدرت میں
کہ میں بھی اپنے زمانے کے واجبات میں ہوں
..........

آنا ہو اگر تم کو آساں ہے پتہ میرا
دیوار گری ہو گی بجھتا سا دیا ہو گا
مقصود حسنی
About the Author: مقصود حسنی Read More Articles by مقصود حسنی : 9 Articles with 24689 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.