جس ملک میں عوام آٹے سے محروم اور بھوکے مرتے ہیں

پاکستان میں ایک وزیر پر یومیہ ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں
یہ لمحہ فکریہ ہے! پاکستان کا ہر شہری 27ہزار225روپے کے بیرونی قرضوں میں جکڑا ہوا ہے

کیوں یہ ہے ناں! کتنے تعجب کی بات کہ پاکستان جو ایک غریب ملک ہے اور جس ملک میں عوام آٹے سے محروم ہو کر بھوکے مرتے ہیں اِس ملک میں ایک وزیر پر یومیہ ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں اور دوسری بات یہ کہ ہمارے ہی ملک کی قومی اسمبلی کی اسپیکر فہمیدہ مرزا کی گاڑی کے ٹائروں کی تبدیلی پر 10لاکھ روپے قائمہ کمیٹی کے فنڈ سے خرچ ہوتے ہیں اور عوام کو پریشان اور حیران کر دینے والی اِن دونوں خبروں کے ساتھ ساتھ ایک خبر یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کا ریکارڈ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ سرحد کے ایک وزیر کے 8ارب 24کروڑ کے اثاثے ہیں اور سرحد کی کابینہ میں متعدد اراکین کروڑ پتی ہیں اِن اعداد و شمار کی روشنی میں اگر دیکھا جائے تو جب بے شمار دولت ہمارے پاس موجود ہے پھر اِس لحاظ سے ہمارے حکمرانوں کو بیرونی امداد اور قرضوں کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے مگر اِس کا کیا کیا جائے جب مانگنے اور کھانے کی عادت منہ لگ جائے تو یہ کب یوں اتنی آسانی سے جاتی ہے اِس کے لئے ایک بڑا وقت درکار ہوتا ہے پھر ہاتھ پھیلا پھیلا کر مانگ کر کھانے اور سر پر ہاتھ پھیرنے کی عادت جاتی ہے۔

بہر کیف! میں آج آپ کو یہ بات سچ سچ بتاؤں کہ ہمارے ملک میں عوام آٹے سے محروم ہیں اور بھوکے مر رہے ہیں اور اِس ہی ملک میں اِس برسرِ اقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی حکومت کی کچن کابینہ کے ہر وزیر پر یومیہ ایک لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں جو اِس بات کا غماز ہے کہ حکمرانوں کو عوامی تکالیف اور دُکھ درد کا کوئی احساس نہیں اگر حکومت اور اِس میں شامل وزرا اور اراکین کو کوئی فکر ہے تو بس اتنی سی ہی لاحق ہے کہ عوام کی حالتِ زار کی بہتری کے نام پر دنیا بھر سے اپنے پرائے سب سے جھولیاں پھیلا پھیلا کر اور ہاتھ بڑھا بڑھا زیادہ سے زیادہ امداد اکٹھی کی جائے اور اِسے عوام کی فلاح و بہود پر خرچ کرنے کے بجائے اپنے اُوپر ڈنکے کی چوٹ پر خرچ کیا جائے۔ اور اتنی خرچ کی جائے کہ جب تک قومی خزانہ اور دوسروں کی تجوریاں اچھی طرح سے خالی نہ ہوجائیں۔

جس پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے حکمران اور وزرا اپنے اِس نصب العین پر پوری طرح سے کاربند ہیں اور اپنے حصے کا یہ کام جن میں اَب صدر اور وزیر اعظم بھی اپنے وزرا کے ساتھ مل کر یکسوئی اور خندہ پیشانی سے انجام دے رہے ہیں۔ جس کی مثال نہیں مل سکتی۔

جبکہ اِس منظر اور پس منظر میں ایک حیران اور پریشان کُن خبر یہ بھی ہے کہ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سالی کی پہلی ششماہی کے دوران غیر ملکی قرضوں کی مالیت 3ارب 39کروڑ ڈالر کے اضافے سے 54 ارب 45 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس کی تفصیل کچھ اِس طرح سے ہے کہ جون 2009 میں غیر ملکی قرضوں کی مالیت 51 ارب 5 کروڑ ڈالر ریکارڈ کی گئی تھی جو پہلی سہ ماہی میں 43ارب99کروڑ اور دوسری سہ ماہی میں 54ارب45کروڑ تک پہنچ گئی ہے اِس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو آج لگ بھگ 17کروڑ پاکستانیوں میں سے ہر فرد بیرونی قرضوں کے مزید بوجھ تلے دب کر انفرادی طور پر اغیار کے27ہزار 225روپے کا قرض دار ہوگیا ہے۔

جو پاکستانی عوام کے لئے تو لمحہ فکریہ ہے مگر اِس صورت ِ حال میں میرا خیال تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور وزرا کے لئے یہ بات سکون کا باعث ہے کیوں کہ اَب ہمارے حکمران اور وزرا عوام کا قرض اُتارنے کے بہانے بھی اپنے بیرونی دوستوں اور دشمنوں سے بھی مزید امداد وصول کریں گے اور اپنی اپنی عیاشیوں کا سامان پیدا کریں گے۔

یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ اَب شائد کوئی بھی پاکستانی میری اِس بات سے تو قطعاً انکار نہ کرسکے کہ محدود وسائل رکھنے والے ہمارے ملک میں سالانہ تیزی سے بڑھتے ہوئے آبادی کے تناسب نے اِسے نئے مسائل سے دوچار کردیا ہے جن کی وجہ سے آج ملک کے سترہ کروڑ عوام اپنی بنیادی انسانی سہولتوں سمیت اشیائے ضروریہ جن میں بجلی، پانی، گیس، صحت، تعلیم، خوراک، آٹے، چینی، گھی، دال اور چاول جیسے اجناس کے حصول سے بھی محروم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے عیاش پسند حکمرانوں کی جانب سے عوامی سہولتوں کی عدم فراہمی کے باعث عوام میں احساسِ محرومی کا عنصر بھی بڑی تیزی سے پروان چڑھتا جارہا ہے اور اَب عوام میں انفرادی اور اجتماعی خودکشیوں کا رجحان عام ہونا بھی کوئی معیوب نہیں سمجھا جا رہا ہے۔

آخر اِس بے حسی کی کیا وجہ ہے؟ اَب یہ ایک ایسا پرانا اور بے مقصد اور بے معنی سا سوال ہو کر رہ گیا ہے کہ جس کا جواب بھی حکمرانوں اور سیاستدانوں کی جانب سے سیاسی اور گول مول سا ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ اِس سوال میں اَب نہ تو کوئی معنویت ہی باقی رہی ہے اور نہ ہی اِس سوال کے جواب میں وہ تاثیر ہی رہ گئی ہے کہ جس سے عوام مطمئین ہوں اور اپنے حکمرانوں اور وزیروں کی درازیئے عمر کے لئے دعائیں کرتے پھریں کیونکہ اگر اَب اِس سوال و جواب کی واقعی کوئی اہمیت ہوتی تو شائد ہمارے ملک کی ہرگز ایسی دگرگوں صورتِ حال نہ ہوئی جیسی آج ہوگئی ہے۔ بلکہ ہمارے غریت مند حکمران اور وزرا اپنی کوششوں اور دانش سے ایسی حکمت ِ عملی مرتب کرتے کہ عوام کو اِس اذیت سے کب کا چھٹکارہ حاصل ہوچکا ہوتا جس سے ہمارے ملک کی عوام آج دوچار ہیں۔ اور اِس طرح اِن کی کاوشوں سے ہمارے ملک میں بسنے والے ہر بھوکے ننگے اور غریب کی گھر کی دہلیز اور اِس کے آنگن میں بھی خوشیاں ضرور رقص کررہی ہوتیں۔ جس سے آج ہمارے ملک کا ہر غریب محروم ہے جس کی وجہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ملک سے غربت کے خاتمے سے متعلق وضع کردہ ناقص پالیساں اور بے اُصول حکمت عملی ہیں۔

اِسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ اُصول کمرے کی آرائش کی بجائے عمل کے لئے ہوتے ہیں اور اُصولوں کے معاملے میں چٹان کی طرح ڈٹ جانے والی اقوام اور افراد ہی دنیا میں امر ہوجاتے ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوں کہ جو اپنے ہی بنائے ہوئے اُصولوں کی پاس داری کرتے ہیں اور اِن پر قائم دائم رہ کر یہی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ کر دنیا کے لئے مشعلِ راہ ہوجاتے ہیں۔

کیوں کہ آج دنیا کے دانشور اِس پر پوری طرح سے متفق اور متحد ہیں کہ ایسے لوگوں کے نزدیک جو نقطہ سب سے زیادہ فکر انگیز اور مقدم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے اُصولوں پر ثابت قدم رہا جائے اور اِس کو ہی مدِنظر رکھ کر اپنا مشن جاری رکھا جائے یہ بھی یاد رہے کہ اگر ہم اِس سے پھر گئے تو پِھر کوئی اصول جامع نہیں رہے گا اور ہماری کامیابی و کامرانی کا مینار پل بھر میں ریت کے ڈھیر میں بدل جائے گا۔ اَب اِسی کو ہی لیجئے جناب! آپ اِسے کیا کہیں گے؟ کہ بالآخر اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا بھی کیوں کسی سے پیچھے رہیں خبر یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنی ہی لگائی گئی پابندی کے باوجود3 کروڑ روپے سے زائد کی لاگت سے 25 جدید ترین گاڑیاں بھی خرید لی ہیں اور اِس خبر کے ساتھ ہی ایک اور افسوس ناک بات تو یہ بھی ہے کہ جن کی باضابطہ منظوری فنانس کمیٹی سے بھی کئی ماہ بعد حاصل کرلی گئی ہے اِس کے علاوہ نہ صرف یہ بلکہ خبروں کے مطابق یہ گاڑیاں قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین اور اسمبلی سیکریٹریٹ کے لئے بھی خریدی گئی ہیں جبکہ اِن تمام حیران کُن صورت حال کے بعد پاکستانی قوم سمیت ساری دنیا کے لئے بھی سب سے زیادہ تذذب میں مبتلا کر دینے والاایک نقطہ یہ بھی ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا نے قائمہ کمیٹی کے فنڈ میں سے صرف 10لاکھ روپے اپنی مرسڈیز گاڑی کے ٹائروں کی تبدیلی پر خرچ کردیئے ہیں۔ جو ایک امداد پر چلنے والے غریب ملک کے حکمرانوں کی کھلی عیاشی اور فضول خرچی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جنہیں روکنے اور ٹوکنے والا کوئی نہیں ہے یہ حکمران اپنی عیاشی کے لئے جو چاہیں کرتے پھریں اِن کا احتساب کوئی نہیں کرسکتا۔ جب کوئی اِن کے سامنے آیا اِس پر حکمرانوں نے کسی گدھ کی طرح حملہ کردیا اور اِس کا وہ حشر کیا کہ پھر کوئی غریب اِن کے سامنے نہیں آیا۔

اور اِسی طرح جب کسی غریب نے قومی خزانے کو دیکھنا بھی چاہا تو اِن لوگوں نے مل کر غریب کی آنکھیں ہی نکال لیں اور غریب اِس قصور میں مارا گیا کہ میں نے کیوں قومی خزانے کی طرف دیکھا اور اپنا حق جتاتے ہوئے اِس سے مٹھی بھر اپنی ضرورت کے تحت دولت نکالنی چاہی تو اِسے اپنی آنکھوں اور زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑ گیا۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 889952 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.