لبرل اور غیر جانبدار مغربی معاشرہ
(Tahir Afaqi, Faisalabad)
گزشتہ دنوں امریکی ریاست جنوبی
کیرولینا میں سیاہ فاموں کے ایک چرچ میں سفید فام نوجوان نے اندھا دھند
فائرنگ کرکے نو افراد کو ہلاک کردیا ۔اس بربریت نے پورے امریکہ کر ہلا کہ
رکھ دیا۔ اگلے روز امریکی صدر باراک ابامہ نے سان فرانیسکو میں ایک تقریب
میں نسل پرستی کو امریکی معاشرے پر ایک بد نما داغ قرار دیا اور کہا اس
بدنما داغ کو مٹانے کیلئے سب کو کوشش کرنی ہو گی۔صدر نے کہاکہ حملہ آور ڈلن
روف کے عزائم یاد دلاتے ہیں کہ نسل پرستی بد ستور ایک داغ ہے جس سے ہمیں مل
کر نبٹنا ہوگا اور اس ناسور کو معاشرے سے ختم کرنا ہوگا۔
افسوس کی بات ہے کہ جب بھی امریکہ یا کسی مغربی ملک میں ایسا بربریت سے بھر
پور واقعہ رونما ہوتا ہے تو اسے انتہائ پسندی یہ نسل پرستی کہہ کر فائل بند
کر دی جاتی ہے کبھی بھی یہ نہیں دیکھا جاتا کے واقعہ میں ملوث ملزم کس
یونیورسٹی یا سکول کا پڑھا ہوا ہے ۔ یقینا ایسے لوگ کیمبرج ، ہاورڈ ،
کیلفورنیا، شکاگو، بوسٹن یونیورسٹیز وغیرہ سے پڑھے لکھے ہوتے ہیں کبھی بھی
نہیں کہا جاتا کہ یہ یونیورسٹیز انتہا پسندی پھیلانے کا زریعہ بن رہی ہیں ۔
بلکہ جیسے ہی ایسا کوئی واقع پے کسی امریکی یا یورپی کے ملوث ہونے کا پتہ
چلتا ہے تو اس ظلم و بربریت کو نفسیاتی مسئلہ یا ذہنی بیمار کہہ کر معاملہ
ختم کر دیا جاتا ۔ مگر جیسے ہی پتہ چلتا ہے کہ ایسے واقعہ میں کوئی مسلمان
ملوث ہے تو میڈیا اور ایجنسیز حرکت میں آکر اسے مسلم دہشت گرد قرار دے کر
رہتے ہیں۔اور اس کی مدرسہ ،تعلیم کو خاص موضع بنا کر پوری دنیا کا میڈیا
مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر رہتا ہے۔ ایسے واقعات میں مغربی دہرا
معیار ان کی مسلم دشمنی کی واضع عکاسی کرتاہے۔ یہ ہے لبرل اور غیر جانبدار
مغربی معاشرے کا حال اور ہم اب بھی ان کی محبت کے گن گانے سے باز نہیں آتے۔ |
|