فوج کی مجبوری اور زرداری کا المیہ

فوج کی مجبوری:
فوج کابنیادی فرض ریاست اور اسکے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے ۔ریاست by and largeمعاشرے کی نمائندہ ہوتی ہے اسلیئے ریاست اور اسکے مفادات کے تحفظ سے مراد معاشرے اور اسکے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے اور فوج کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس بنیادی فرض سے پہلو تہی نہیں کر سکتی ۔ ریاست کے تحفظ سے مراد اسکی علاقائی حدود (زمینی، فضائی اور بحری ) کا تحفظ اور اسکے مفادات کے تحفظ سے مراد قومی، معاشی، معاشرتی اور سماجی مفادات کا تحفظ ہے ۔فوج اپنے اس بنیادی فرض سے بخوبی ٓاگاہی رکھتی ہے اور جب اس فرض کی ادائیگی کا وقت ٓاتا ہے تو فوج ایک خود کار نظام کے تحت حرکت میں ٓاتی ہے ۔ اسی لئے جب کنٹرول لائن پر دشمن کی طرف سے فائر ٓاتا ہے تو سرحدی چوکی پر بیٹھے ہماری فوجی جوان کسی سے یہ نہیں پوچھتے کہ جناب ہمیں اس کا جواب دینا چاہیے یا نہیں بلکہ وہ دشمن کو اس کا منہ توڑ جواب اپنے ٓاپ دیتے ہیں کیونکہ یہی ان کا کام ہے اور وہ اپنا کام جانتے ہیں ، جب پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ائیر ڈیفنس پر مامور پاک شاہین خود کار نظام کے تحت مداخلت کار طیاروں کو interceptکرتے ہیں، جب ہماری بحری حدود میں در اندازی ہوتی ہے تو پاک نیوی اپنی کاروائی کرنے سے پہلے کسی سے نہیں پوچھتی، جب ملک کے خلاف کوئی سازش رچائی جاتی ہے تو ISIکسی سے اجازت لیکر اس کا توڑ نہیں کرتی، جب ملک میں سیلاب یا زلزلہ یا کوئی اور ٓافت ٓاتی ہے تو پاک فوج کو یہ کوئی نہیں کہتا کہ جاکر لوگوں کی مدد کرو بلکہ فوج خود بخود میدان عمل میں اترتی ہے کیونکہ ریاست پاکستان کی علاقائی حدود کے تحفظ کے ساتھ ساتھ پاکستانی معاشرے کا تحفظ بھی پاک فوج کے بنیادی فرائض میں شامل ہے ۔ فوج کے اسی کردارکی وجہ سے پاکستانی قوم اس سے بے پناہ محبت رکھتی ہے ۔

زرداری جیسے لوگوں کا المیہ:
کرپشن کی دنیا کے بے تاج بادشاہ ٓاصف علی زرداری کا المیہ یہ ہے کہ وہ ہر وقت اس فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کئی ملکوں میں پھیلے اپنے کرپشن کے کاروبار کو کسطرح مزید ترقی دے سکیں۔
فوج کو کیا چیزیں اپ سیٹ کرتی ہیں؟
فوج کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے جو قواعد و ضوابط ، نظم و نسق، حکم کی پابندی اور روایات کی پاسداری کے گرد گھومتی ہے۔ فوج میں شمولیت اختیار کرنے والوں کو شروع دن سے ہی ان اصولوں کی پابندی اور پاسداری کی تربیت دی جاتی ہے اور by the timeجب ایک ٓافیسر یا جوان اپنی تربیت مکمل کر تا ہے یہ اصول اس کی فطرت کا حصہ بن چکے ہوتے ہیں ۔ان اصولوں کو مجموعی طور پر ملٹری مائینڈ سیٹ کہا جا سکتا ہے ۔ اس ملٹری مائینڈ سیٹ کو درجہ ذیل چیزیں اپ سیٹ کرتی ہیں:

۱۔ بد نظمی اور ابتری:(Choas and disorder)
معاشرے میں جب بد نظمی اور ابتری پھیلتی ہے تو اس پر سب سے زیادہ تحفظات فوج کو ہوتے ہیں کیونکہ جب معاشرتی نظم و ضبط بگڑتا ہے تو اس سے ریاست کی سلامتی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں اور چونکہ فوج کا فرض ریاست کا تحفظ ہوتا ہے لہذا فوج اس بگاڑ سے خطرہ محسوس کرتی ہے اسی لئے فوج پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی بد نظمی اور ابتری کو بہتر کرنے کے عزم سے کام کر رہی ہے ۔

۲۔ معاشی بد حالی : Economic Crises
state securityایک جاری و ساری عمل ہوتاہے اور اس پر اخراجات بھی اسی حساب سے ہوتے ہیں ۔ فوجی ادارے ہمہ وقت تیاری میں مشغول ہوتے ہیں اور اس تیاری کو بدلتے ہوئے حالات کے مطابق uptodateرکھنا پڑتا ہے جس کے لئے فنڈزدرکار ہوتے ہیں جو مہیا کرنا ریاست کا کام ہوتا ہے ۔ ریاست فوجی منصوبوں کو اسی صورت میں فنڈز مہیا کر سکتی ہے جب اسکی معیشت مضبوط ہو۔ اگر معیشت بد حالی کا شکار ہو تو ریاست کے لئے دفاعی اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو جاتا ہے جس سے دفاعی منصوبے تعطل کا شکار ہوتے ہیں اور ایسی صورت حال فوج کے لئے ناقابل قبول ہوتی ہے ۔ کرپشن پاکستان کے اداروں اور معیشت کے لئے زہر قاتل ہے اور فوج اسکا تریاق کرنا چاہتی ہے تاکہ ملک معاشی بد حالی سے نکل سکے جس پر زرداری فرماتے ہیں ہمیں نہ چھیڑو یعنی ہمیں کرپشن کرنے دو ۔

۳۔ کنٹرول : Control
فوج کی دنیا کا کنٹرول فوجی اپنے پاس رکھتے ہیں اور وہ اپنی دنیا میں کسی سویلین کی مداخلت برداشت نہیں کرتے ۔ جب بھی اور جہاں بھی فوجی دنیا کو کسی سویلین نے کنٹرول کرنے کی کوشش کی ہے وہاں اسے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ۔ کیری لوگر ایکٹ ہو یا ISIکو وزارت داخلہ کے تحت کرنے کا فیصلہ فوج نے ایسا نہیں ہونے دیا کیونکہ یہ فوج کو سویلین کے کنٹرول میں دینے کی کوشش تھی جو کامیاب نہیں ہوئی۔ اب ایسی ہی کوشش کراچی میں رینجرز کی کاروائیوں میں مداخلت کر کے کی جا رہی ہے جس کا نتیجہ زرداری اینڈ کو کے حق میں نہیں ہوگا۔

کراچی کے حالات پر فوج کی تشویش ایک فطری بات ہے۔ کیونکہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور ٓانے والے چند سالوں میں گوادر کی ترقی کے ساتھ ساتھ کراچی میں بھی معاشی سرگرمیوں کے ایک نئے دور کا ٓاغاز ہونے والا ہے اسلیئے پاک فوج ہر قیمت پر اس شہر میں امن قائم کرنا چاہتی ہے ۔ کرپشن کے کاروبار سے جو پیسہ بنایا جا رہا ہے وہdirectly یا indirectlyدہشتگردوں کے ہاتھوں میں چلا جاتا ہے جسے وہ پاکستان کے خلاف دہشتگردی کی کاروائیوں میں استعمال کرتے ہیں ۔ فوج اس عمل سے واقفیت حاصل کر چکی ہے اور ٓاہستہ ٓاہستہ اس nexusکو ختم کرنے کی کوشش کر رہی جس کے نتائج ہمارے سامنے ٓارہے ہیں ۔ پچھلے کئی مہینوں سے دہشتگردی کی کاروائیوں میں بڑی حد تک کمی واقع ہوئی ہے اور اگر فوج کو یہ عمل بلا روک ٹوک اور سیاسی مداخلت کے جاری رکھنے کا موقع دیا جائے تو پاکستان امن کا گہوارہ بن سکتا ہے ۔ لیکن جہاں زرداری جیسے لوگوں کا منہ کھلتا ہے وہاں اس عمل کو نقصان پہنچتا ہے ۔ ایسے لوگوں کے لئے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا منہ بند رکھیں ۔

زرداری کی یادہانی کیلئے ایک واقع:
زیادہ پرانی بات نہیں ہے جب بابائے کرپشن ٓاصف علی زرداری اپنے جیسے چند لوگوں کی مہربانیوں سے پاکستان کے صدر بنے اور ایوان صدر میں رہائش پذیر ہوئے ۔ ایوان صدر سے پمز ہسپتال کا فاصلہ زیادہ سے زیادہ تین چار کلومیٹر ہوگا جہاں ان کے والد حاکم علی زرداری (مرحوم ) زیر علاج تھے۔ ٓاصف علی زرداری سیکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے ایوان صدر سے نکل کر چند کلومیٹر دور اپنے بیمار باپ کی عیادت کو نہیں جاسکتے تھے ۔ ٓاج اگر وہ اپنی بل سے باہر نکل کر کراچی، لاہور، پشاور، اسلام ٓاباد میں ٓازادانہ گھوم پھر رہے ہیں تو اس کا سہرا بھی فوج کے سر جاتا ہے جس نے دہشتگردی کے ٓافریت کو قابو کیا اور زرداری کو یہ ٓازادی نصیب ہوئی ۔ اس کا صلہ موصوف فوج کو دھمکیوں کی صورت میں دے رہے ہیں۔
ختم اس بات پر کرتا ہوں کہ زرداری جیسے لوگ اپنے المیہ سے باہر نہیں ٓاسکتے اور فوج اپنی مجبوری سے جان نہیں چھڑا سکتی لہذا وہ اپنا کام کریں فوج اپنا کام کرئے گی لیکن ایک بات طے ہے کہ باطل ہمیشہ مٹنے کے لئے ہوتا ہے باقی صرف حق رہتا ہے ۔ زرداری نے غلط کہا کہ ٓاپ تو تین سال بعد چلے جائیں گے اور ہم ہمیشہ رہیں گے ۔ ہمیشہ رہنے والی تو صرف اﷲ تعالیٰ کی ذات ہے جواندھیرے سے روشنی کو پیدا کرکے سارے عالم کو منور کرتی ہے ۔زرداری جیسے لوگ پاکستان کا وہ اندھیرہ ہیں جس کے ختم ہونے کا وقت قریب ٓارہا ہے۔سب جانتے ہیں جب دیا بجھنے والا ہوتا ہے تو اس کی لو بہت پھڑ پھڑاتی ہے زرداری بھی ایسا ہی ایک دیا ہے بات فقط وقت کی ہے کہ کب؟
Zahid M. Abbasi
About the Author: Zahid M. Abbasi Read More Articles by Zahid M. Abbasi : 14 Articles with 15331 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.