گلگت بلتستان کے انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن واضح
برتری حاصل کرنے کے بعدحکومت قائم کرنے جارہی ہے۔یہ انتخابات انتہائی پرامن
ماحول میں ہوئے اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اپنا رائے حق دہی استعمال کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ انتخابات پاکستان میں تبدیل ہوتے حالات اور عوام
کے ابھرتے شعور کی بھی بھرپور عکاسی کرتے ہیں۔ ان انتخابات سے بہت سے
تجربات حاصل ہوئے اور سیاسی جماعتوں پر واضح ہوگیا ہے کہ اب وہی پارٹی اور
امیدوار کامیاب ہوں گئے جو صحیح معنوں میں عوام سے مخلص ہوں گے اور اپنے
اپنے علاقوں میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے۔ یہاں پاکستان مسلم لیگ ن کا
واضح برتری حاصل کرنا اور سابق حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے وزیراعلیٰ مہدی
شاہ کا بری طرح شکست کھا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ گزشتہ حکومت نے یہاں کے
عوام کو یکسر نظرانداز کئے رکھا ۔ پیپلز پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں
12سیٹیں حاصل ہوئی تھیں جن کی بدولت اسے وہاں پہلی حکومت قائم کرنے کا
اعزاز حاصل ہوا تاہم اس جس طرح وہاں کے عوام نے اگلے انتخابات میں اسے اس
اعزاز سے محروم کیا وہ باعث عبرت ہے۔انتخابات 2015ء میں پیپلز پارٹی کو
ملنے والی واحد سیٹ بھی اسلامی تحریک پاکستان کی حمایت کی مرہون منت
ہے۔دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ(ن) کو 14 سیٹوں پر کامیابی نصیب ہوئی۔مجلس
وحدت المسلمین اور تحریک اسلامی کو دو دو نشستیں ملیں ،تحریک انصاف کے حصے
میں ایک ایک سیٹ آئی اور دو آزاد امید وار کامیاب ہوئے۔نیشنل ڈاٹا بیس اور
رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے مطابق علاقے میں
کل رجسٹرڈ ووٹروں کی تعداد 618364تھی جن میں 329475مردوں کے اور 288889
عورتوں کے ووٹ تھے ۔ تقریبا 6 لاکھ افراد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف نے تمام حلقوں میں اپنا امید وار
کھڑے کیے تھے۔ جبکہ پیپلز پارٹی نے 22 حلقوں میں انتخاب لڑا۔ مجلس وحدت
المسلمین نے 15 ، آل پاکستان مسلم لیگ نے 13 ، جمعیت علمائے اسلام فضل
الرحمن گروپ نے 10 ، پاکستان عوامی تحریک نے 7 ، جماعت اسلامی نے 6 اور
تحریک اسلامی نے 12 امید وار کھڑے کیے تھے۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی 2009 میں ایک صدارتی حکم کے تحت قائم کی
گئی۔جس کے اولین انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور
اپنی انتخابی مدت پوری کی۔ 13 دسمبر 2014 کو ایک عبوری حکومت قائم کی گئی
جس کی نگران کابینہ 12 اراکین پر مشتمل تھی۔ جس کو آزاد و شفاف انتخابات
کرانے کا فریضہ سونپا گیا تھا۔چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان جسٹس ریٹائرڈ
طاہر علی شاہ نے پر امن اور شفاف انتخابات کے انعقاد میں تعاون کرنے پر
سیاسی جماعتوں کا شکریہ ادا کیا۔ان کا کہنا تھا کہ علاقے کے کسی بھی حلقے
میں دھاندلی کی شکایت وصول نہیں ہوئی۔ جو ایک بڑی کامیابی ہے انتخابات کے
نتیجے میں گلگت بلتستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنے گی جس میں دیگر
جماعتوں کو شامل کیے جانے کا امکان ہے۔حکومت سازی کے لیے کوششیں شروع کر دی
گئی ہیں امید ہے نئی حکومت گلگت بلتستان کو ترقی کی نئی منازل سے ہم کنار
کرے گی۔ گلگت بلتستان انتخابات اور سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے توباتیں
ہوتی رہتی ہیں تاہم اس کے تاریخی پس منظر اور حیثیت کے حوالے سے بہت سوں کو
علم نہیں۔ چلیں اس حوالے سے بھی کچھ مختصر بات ہوجائے۔
گلگت بلتستان کی سرحدیں مغرب میں خیبر پختونخوا جنوب مغرب میں آزاد کشمیر
شمال مغرب میں افغانستان کی راہداری واخان شمال میں چین کے خود مختار علاقے
ڑن ڑیانگ یوئی گھور اور جنوب مشرق میں بھارت کے زیر انتظام مقبوضہ جموں
وکشمیر سے ملتی ہیں۔قیام پاکستان اور ہندوستان کی تقسیم سے پہلے جموں ہندو
ڈوگرہ حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے اپنی سلطنت کو انگریزوں کی مدد سے گلگت
بلتستان تک توسیع دیدی تھی۔1935ء میں اس نے علاقے کو انگریزوں کے ہاتھ 75
ہزار روپے کے عوض پٹے پر دے دیا۔دوسری عالمگیر جنگ کے بعد انگریزوں کا
اثرورسوخ کم ہونا شروع ہوا تو انہوں نے اپنی سلطنت کے زوال کے باوجود صورت
حال کو نہایت چالاکی کے ساتھ سنبھالا اور ریاستوں کو یہ اختیار دیا کہ وہ
دو نئی ابھرنے والی مملکتوں پاکستان اور بھارت میں سے کسی ایک میں شامل
ہوسکتی ہیں۔اس صورت حال میں گلگت بلتستان کے لوگوں نے بغاوت شروع کر دی۔
غذر کے عوام علم بغاوت بلند کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔ آہستہ آہستہ پورے
علاقے کے عوام مہاراجہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ بالآخر یکم نومبر 1947 کو
گلگت بلتستان کے عوام آزادی کے حصول میں کامیاب ہوگئے اور اس کے ساتھ ہی
ظالمانہ ڈوگرہ راج کا خاتمہ ہوگیا۔16 نومبر کو گلگت بلتستان کی اس نوزائیدہ
ریاست نے پاکستان میں ضم ہونے کا فیصلہ کرلیا۔گلگت بلتستان اب بھی پاکستان
کے ساتھ الحاق شدہ ہے لیکن آزاد اور خود مختار ریاست ہے ۔
حکومت پاکستان نے 1947 میں اسے گلگت ایجنسی اور بلتستان ایجنسی کا نام
دیا۔یہ صورت حال آئینی 1970 تک قائم رہی۔ 1970 میں شمالی علاقہ جات کی
کونسل قائم ہوئی اور گلگت بلتستان کو براہ راست وفاقی حکومت کے زیر انتظام
کر دیا گیا اور اسے فانا(FANA)کہا جانے لگا یعنی وفاق کے زیر انتظام شمالی
علاقہ جات۔ گلگت بلتستانی یعنی شمالی علاقہ جات سات اضلاع پر مشتمل ہے۔ اس
کی آبادی دس لاکھ نفوس کے لگ بھگ ہے۔ اس کا رقبہ 28 ہزار مربع میل(73 ہزار
مربع کلومیٹر)ہے اور اس کی سرحدیں چین ،افغانستان اور بھارت سے ملتی ہیں۔
29 اگست 2009 کو پاکستانی کابینہ نے گلگت بلتستان ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف
گورنس آرڈر 2009 کی منظوری دی۔ جس پر بعد ازاں صدر پاکستان نے دستخط کیے اس
حکم نامے کے تحت شمالی علاقہ جات کے عوام کو اپنے علاقے میں خود حکمرانی کا
حق حاصل ہوگیا۔ اس آرڈننس کے بعد یہاں انتخابات ہوئے جس کے نتیجے میں میں
ایک منتخب آئین ساز اسمبلی بھی وجود میں آئی۔ اسے گلگت بلتستان حکومت کا
نام دے دیا گیا۔اس وقت گلگت بلتستان میں بہت سے ترقیاتی منصوبے جاری ہیں۔
اس علاقے کی ترقی میں بہت سے نجی ادارے بھی موثر کردار ادا کررہے ہیں۔ خاص
طور پر آغاخان فاؤنڈیشن کئی طرح کے ترقیاتی و بہبودی سرگرمیوں میں مصروف ہے
جس کا مقصد لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری لانا اور انہیں بنیادی ضروریات
زندگی تک رسائی فراہم کرنا ہے۔ نئی حکومت بننے کے بعداس علاقے کے عوام ترقی
اور خوشحالی کی جو امید لگائے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ ن کی
کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہی اسے ووٹ دیا ہے ۔ ن لیگ کی قیادت نے بھی یہاں
کے عوام کی خدمت اور ترقی کا عزم رکھتی اور یقینا اسے اپنی پوزیشن اور
مقبولیت برقرار رکھنے کے لیے عملی اورسنجیدہ اقدامات اٹھانا ہوں گے ۔ |