نریندر مودی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی بڑے ملک کے انتظامی سربراہ بن جانے کے باوجود سنجیدگی ، برد باری پر یقین نہیں رکھتے اور پاکستان دشمنی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ جب تک وہ کسی ایک صوبے کے سربراہ اور ہندو تنگ نظر اور متعصب گروہ کے سرغنا تھے اس وقت تک تو ان کی تنگ نظری، پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سمجھ میں آتی تھی کہ وہ اپنی اگلی منزل پر پہنچنے کے لیے لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کو اپنی سیاست کا محور سمجھتے تھے۔ لیکن اب جب کہ انہوں نے اپنے مقاصد حاصل کرلیے، وہ دنیا کی ایک بڑی جمہوری ریاست کے پردھان منتری بن چکے انہیں گھٹیا اور نچلی سطح کی سوچ سے اپنے آپ کو باہر نکال کر برد بار ، سنجیدہ اور عالمی سطح کے لیڈر کے طور پر اپنے آپ کو پیش کرنا چاہیے۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی گھناؤنی سیاست کو خیر باد کہہ دیں ۔ خود بھی دیش بھگت بنیں اور اپنے ہمسائیوں کو بھی محب وطن سمجھیں۔

نریندر مودی نے بھارت کی سیاسی کمان سنبھالی اور وزیراعظم کے منصب پر براجمان ہوئے تو پاکستان کے سنجیدہ طبقے کو ہوشیار ہوجانا ہی تھا کیونکہ مودی کا سیاسی ماضی پاکستان اور مسلمانوں کے حوالے سے مثبت کبھی نہیں رہا انہوں نے اپنی سیاسی زندگی میں مسلمانوں کی توہین و تحقیر کی ، پاکستان کو اپنا دشمن سمجھا اور اپنے مخصوص طبقے کو پاکستان کے خلاف بڑھاکاتے اور اکساتے رہے ہیں۔ جب تک وہ وزیراعظم کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے ا س وقت تک تو ان کی ہرزہ سرائی کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں تھی لیکن اب جب کہ وہ اہم منصب پر براجمان ہوچکے ہیں ان کی باتوں کو سنجیدگی سے لینا لازمی ہے۔ ان کی باتوں کو ایک عام سیاست دان کی باتیں سمجھ کر، ایک متعصب سیاست داں تصور کرکے چھوڑا نہیں جاسکتا ۔ اب وہ جو کچھ بھی کہتے اور بیان دیتے ہیں اُسے اس ملک کی پالیسی ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ ویسے بھارت کی پالیسی کی کیا بات ہے؟ اس نے پہلے دن سے ہی پاکستان کو ایک علیحدہ آزاد ریاست تسلیم ہی نہیں کیا۔ اب اگر وہ اس بات کا اعلان بانگِ دھل کررہے ہیں کہ انہوں نے بنگلہ دیش بنوایا تو یہ کوئی نئی بات یا کوئی ڈھکی چھپی حقیقت نہیں ۔ پاکستان کے عوام بخوبی آگاہ ہیں ، سمجھتے بوجھتے ہیں کہ ہمارا پڑوسو ، ہمارا دشمن نمبر ایک ہے، بنگلہ دیش کے عوام تو دیش بھگت تھے وہ کسی بھی طور پاکستان سے الگ ہونا نہیں چاہتے تھے۔ کچھ غلطیاں ہماری اپنی تھیں، جن کا فائدہ ہمارے دشمن نے اٹھایا اور ہمارے بھائیوں کو ہم سے جدا کردیا ، جو آج بنگلہ دیش کی صورت میں دنیا کے سامنے ہے۔ پاکستان کے دشمن اس بات پر بہت خوش اور شادماں ہیں اور ہونا بھی چاہیے، برسوں کی محنت رنگ لے آئی۔ لیکن ہمارے دشمن یہ بات بھول جاتے ہیں کہ فرمان رسول ﷺ ہے کہ سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں ، اس میں جغرافیائی حدود بے معنی ہیں۔ مسلمان بنگلہ دیش کے ہوں، پاکستان کے ہوں، سعودی عرب کے ہوں، برما سیلون ، ہندوستان کے ہوں ان کے اس تعلق اور رشتہ کو دنیا کی کوئی طاقت ختم نہیں کرسکتی۔ یاد رکھو دشمنوں! تمہارے ملک میں جو مسلمان آباد ہیں ان سے ہمارا ایک روحانی رشتہ ہے وہ بھی ہمارے بھائی ہیں ، تم سے ان کا رشتہ بھائی بھائی کا ہر گز نہیں ہوسکتا، ہاں وہ تمہارے ہم وطن ہیں، ان کا اور تمہاراملک ایک ہے۔ لیکن تم غیر مسلم ہو اور وہ ہمارے مسلمان بھائی ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔

بات نریندر مودی کی ہرزہ سرائی کی شروع کی تھی جو انہوں نے سابقہ دنوں میں بنگلہ دیش اور چین کے دورے کے دوران کی ، یہی کیا وہ تو کوئی لمحہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ جب بھی پاکستان کا ذکر آتا ہے پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرکے ہی ان کا کھانا ہضم ہوتا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کریں تو انہیں بد ہضمی کی شکایت ہوجاتی ہے۔ ادھر ہمارے پردھان منتری قبلہ نواز شریف کو دیکھئے کہ اپنی تقریب حلف برداری کی تقریب میں مودی کو دعوت دے ڈالی جو انہوں نے کھڑاک سے رد کردی۔ خیر اپنی اپنی سوچ ہے۔ میاں صاحب نے سوچا ہوگا کہ اس خوشی کے موقع پر مودو کو دعوت دیدی جائے شاید وہ اسے ایک اچھا عمل تصور کرتے ہوئے قبول کر لے ، اس طرح دونوں ہمسایوں کے مابین اچھی فضاء قائم ہوسکے لیکن میاں صاحب کی سوچ کے کسی حصہ میں یہ بھی رہا ہوگا کہ مودی جو مسلمانوں اور پاکستان کا کھلا دشمن رہا ہے ان کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا اس طرح میاں صاحب مستقبل میں یہ کہہ سکیں گے کہ انہوں نے حلف اٹھانے سے قبل ہی دوستی کا ہاتھ بڑھایا لیکن بھارت کے وزیراعظم نے اسے قبول نہیں کیا۔

جیسا کہ مَیں نے پہلے کہا کہ جب نریندر مودی وزیر اعظم نہیں تھے ان کی باتیں ایک پاکستان دشمن اور ایک متعصب کی باتیں تھیں ، انہیں کسی نہ کسی طرح وزارت اعظمیٰ کی سیڑھی تک پہنچنا تھا جس کے لیے ان کے پاس اس سے بہتر سلوگن، اس سے اچھا نعرہ کوئی اور نہیں ہوسکتا تھا جو دوران انتخابات استعمال کیا گیا۔ وہ اس میں کامیاب و کامران رہے اور وزیراعظم بھارت بن گے ۔ اب ان کی حیثیت اور ہے، ان کا مرتبہ مختلف ہے، ان کا مقام اور ہے اب وہ جو کچھ کہتے ہیں وہ دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک کے سربراہ کا کہنا ہے، وہ اس ملک کے ان منصوبوں کا حصہ ہے جس پر اس نے مستقبل میں عمل کرنا ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ بھارت اب بھی اپنے مذموم مقاصدپاکستان دشمنی سے بعض نہیں آیا، وہ طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے پاکستان کے لیے مشکلات اور مصا ئب پیدا کرتا رہتا ہے۔ کیونکہ پاکستان دشمنی اس کی سِرِشت میں ہے، اس کے خون میں ہے، اس کی بنیادوں میں ہے کہ پاکستان اس کو ہر دم کھٹکتا ہی ہے۔ وہ اِسے پھلتا پھولتا نہیں دیکھ سکتا۔ اس لیے ہمیں اس سے ہر دم ہوشیار اور چوکنا رہنا ہوگا۔پتھر کا جواب اینٹ سے دینا ہوگا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہ وہ ہمارا پڑوسی ملک ہے۔ اس کی سرزمین پر ہمارے بے شمار مسلمان بھائی آباد ہیں، دونوں کی بہتری اس میں ہے کہ دونوں ممالک اپنے مسائل کو افہام و تفہیم سے حل کر لیں۔اپنے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کام کریں، کشمیر اصل میں دونوں کے درمیان بنیادی تَنازُع ہے ۔ اسے اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں اور کشمیری عوام کی اپنی مرضی سے حل ہوجانا چاہیے۔ کسی کو بھی جبر و ظلم کے ذریعہ ، دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ اپنے زیر اثر نہیں رکھا جاسکتا۔ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی ایک نہ ایک دن ضرور ملے گا۔ بھارت کو حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کشمیریوں پر زیادتی بند کردینی چاہیے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد بہت واضح ہے اس کی روشنی میں انہیں ان کا حقِ دے دینا چاہیے۔

میرا تو خیال ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک بھارت اور پاکستان حالتِ جنگ میں ہیں۔ جنگ اسی عمل کا نام نہیں کہ دونوں ممالک کی فوجیں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بر سرِ پیکار ہوں،گولا باری جاری ہو، ایک دوسرے پر فضائی حملے ہورہے ہوں، جانی ومالی نقصان پہنچایا جارہا ہو اور ایٹمی جنگ کے شروع ہوجانے کا خطرہ ہو۔ یہ بھی جنگ ہی ہے کہ جب موقع ملے پاکستان کی سا لمیت پر حملہ کردو، اسے ختم کرنے کے بیانات جاری کرتے رہو، اشتعال انگریز بیان دینا اپنا معمول بنا لو، یہ بھی جنگ ہی ہے اور اس جنگ میں ہمارا پڑوسی ملک بھارت 14 اگست 1947سے مبتلا ہے۔ اس کی وجہ سے پاکستان کو بھی حالت جنگ ہی میں رہنا پڑ رہا ہے۔ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے تشکیل دینے کے
بجائے عسکری معاملات پر بھر پور توجہ مرکوز رکھنا پڑ رہی ہے جو دونوں ملکوں کے عوام کے حق میں ہر گز نہیں۔

ہمیں اس بات پر سنجیدگی کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ آخر ایسی کونسی بات ہے کہ بھارت اور اس کے سیاسی رہنما، عسکری قیادت حتیٰ کے اس کے وہ عوام جو غیر مسلم ہیں پاکستان کے دشمن کیوں ہیں؟ کیا ہمارے کسی سیاسی رہنما نے اس بات کا نعرہ لگایا کہ ہم بھارت کے حصے بخرے کرنا چاہتے ہیں، ہم اسے تسلیم ہی نہیں کرتے۔۔ نہیں کسی رہنما نے کبھی یہ نہیں کہا پھر آخر بھارت کی سرزمین سے کوئی بھی پتھر اٹھالیں نیچے سے بونے سے بونا لیڈر بھی پاکستان کو توڑنے ، اُسے ختم کرنے ، اُس کی تقسیم کرنے کے خواب دیکھتا نظر آتا ہے۔آخر کیوں؟ اس پر ہرسنجیدہ لکھنے والے کو سوچنا چاہیے اور اپنے خیالات کو قلم و قرطاس پر منتقل کرنا چاہیے۔ بعض سنجیدہ کوششیں ہوتی ہیں ۔ بے شمار لکھاریوں نے اس موضوع پر قلم اٹھا یا ہے، سمینار اور مذاکرے بھی ہوتے ہیں۔لیکن نششتاً ، گفتاً اور برخاستاً کی حد تک۔ حکومت ان کوششوں سے کوئی نتیجہ اخذ کرکے آگے نہیں بڑھتی ۔ بھارتی ہرزہ سرائی کاجواب عام لکھاری پتھر کے مقابلے میں اینٹ دے مارتے ہیں دوسری جانب سرکاری حکام کا ہرزہ سرائی کا جواب تردید ی الفاظ کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔وہ صرف یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم ان بیانات کو مسترد کرتے ہیں۔ رسمی بیانات سے کام نہیں چلے گا۔ امن ، دوستی بھائی چارہ ہمارا بنیادی منشور ضرور ہو لیکن دشمن کی ایک آواز کے جواب میں ہمیں گھن گرج کے ساتھ بات کرنا ہوگی۔ پاکستان چھوٹا ملک ضرور ہے لیکن یہ بات سب جانتے ہیں اور کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان اب ایک ایٹمی قوت ہے۔ ہمارے ملک کے اندر کے حالات کچھ بھی ہوں لیکن ہم برابری کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ہماری مسلح افواج دنیا کی بہترین افواج میں سے ہیں۔ ہمارے عوام میں اپنے ملک پر مرمٹنے کا لازوال جذبہ موجود ہے ، بھارت میں جس کا فقدان ہے۔ شہادت کا جذبہ صرف مسلمان کے اندر ہی ہے بھارتی اس کی سوچ سے بھی نہ آشنا ہیں۔ پھر ڈر و خوف کس بات کا۔

بھارت ہمیں مختلف طریقے سے کمزور کرنے کے حربے استعمال کررہا ہے۔ بنگلہ دیش بنا تو آواز آئی کہ دو قومی نظریہ ختم ہوگیا ۔ جی نہیں! پاکستان کے مسلمان ہر اعتبار سے بھارت سے مختلف ہیں ، ہمارا مذہب، ہماری ثقافت، ہماری تہذیب، ہماری سوچ کسی بھی طرح بھارت سے مطابقت نہیں رکھتی۔ پاکستان اور بھارت مذہبی اعتبار سے ہی نہیں بلکہ ثقافتی اعتبار سے بھی الگ تشخص رکھتے ہیں۔ بھارت میں جو مسلمان رہ رہے ہیں وہ ان کا وطن ہے، جغرافیائی اعتبار سے وہ بھارت کے شہری ہیں لیکن ان کا مذہب اور ان کی ثقافت بھارت کے ہندوؤں سے مختلف اور جداگانا ہے۔ بھارت بڑا ملک ہے، وہ پاکستان سے ہر اعتبار سے بڑاہے، اس کی سرحدیں وسیع ہیں، آبادی زیادہ ہے۔ پھر اسے پاکستان سے کیا خطرہ ؟ اس کے باوجود وہ اپنے دفاعی بجٹ میں اضافے کی جانب گامزن ہے۔ آخر کیوں؟ کس بات کا ڈر اور خوف اُسے لاحق ہے۔ یہی ناکہ پاکستان چھوٹا ضرور ہے لیکن وہ بھی ایٹمی طاقت ہے، فوج ہی نہیں عوام اپنے ملک پر مر مٹنے کا لازوال جذبہ رکھتے ہیں۔ ان میں قوت مزاحمت پائی جاتی ہے۔ اب عام خیال یہ ہے کہ بھارت چین پاک را ہد اری منصوبے کو ثبوتاث کرنا چاہتا ہے۔ یہ کوئی آسان بات نہیں چین پاکستان کا بہترین دوست ہے وہ بھارت کی ہرزہ سرائی سے بخوبی آگاہ ہے۔ دوسری جانب ایران بھی ہمارا اچھا پڑوسی دوست ہے وہ بھی اس منصوبے میں شرکت پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ رو س بھی کچھ کچھ پاکستان کی جانب مائل نظر آرہا ہے ایسی صورت میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی چاہیں کتنی ہی ہرزہ سرائی کرلیں وہ پاکستان اور چین کے مابین ہونے والا اقتصا دی راہ داری منصوبہ PAk China Economic Coridore جوپاکستان کی اقتصادی ترقی میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے کو کسی بھی طور نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ بھارت کا اس منصوبے پر عمل در آمد کی صورت میں کسی بھی قسم کا نقصان کا کوئی تعلق کسی طور نظر نہیں آتا ۔ لیکن بھارت جو ہمارا پڑوسی ہونے کے باوجود دشمنی کی انتہائی حدود کو چھو رہا ہے اس کو اس منصوبے پر عمل در آمد کی صورت میں بھارت دشمنی نظر آنے لگی اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی کے ساتھ ساتھ تمام حکومتی کارندوں کو اس منصوبے سے بھارت کو خطرہ محسوس ہونے لگا اور انہوں نے پاکستان دشمنی کا اظہار شروع کردیا۔ پاک چین اقتصادی راہدی منصوبہ جوں ہی منظر عام پر آیا بھارت نے اپنا روایتی واویلا شروع کردیا۔ اس منصوبے کی مخالفت بلا جواز اور پاکستان دشمنی کے علاوہ کچھ اور نہیں تھی۔ بھارت کے بلاوجہ واویلا کے جواب میں چین نے بھی دو ٹوک الفاظ میں بھارت کی تنقید کو بلاجواز قرار دیا ۔ چین کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کسی تیسرے فریق کے خلاف نہیں۔

اقتصادی راہداری کی تعمیر چین پاکستان عمومی ترقی، علاقائی روابط بڑھانے ، خطے میں امن ،استحکام اور ترقی کے لیے انتہائی اہم ہے۔

تمام تر عمومی صورت حال کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارت کے ہندو عوام عام طور پر اور سیاسی قائدین خاص طور پر پاکستان دشمنی کے بغیرسیاسی طور پر زندہ نہیں رہ سکتے۔ نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ پاکستان دشمن بیانات، مسلمان دشمن خیالات کے اظہار کے صورت میں ہی حاصل کی ہے۔ پاکستان سے دوستی اور اچھتے تعلقات کو بھارتی سیاسی قیادت اپنی موت تصور کرتی ہے ۔ یہ سب وہ اپنے متعصب ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے ہی کرتے ہیں حالانکہ پاکستان سے اچھے تعلقات انہیں بھارت میں موجود کروڑں مسلمانوں کی آشیرباد حاصل ہوگی لیکن یہ ان سیاسی پنڈتوں کے لیے بے معنی ہے۔ مودی اب دنیا کے ایک بڑے جمہوری ملک کے سربراہ ہیں انہیں اپنے انداز حکمرانی کے ساتھ ساتھ اندازِ بیان بازی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ پاکستان اور پاکستان کے غیور عوام ان کی گیدڑ بھپکیوں میں آنے والے نہیں۔ ہم تم سے کم نہیں، تم ایٹمی قوت تو ہم بھی وہی لیکن امن، بھائی چارہ ، پیار و محبت ہمارا پیغام ہے۔سب کچھ گوارہ کشمیر پر تمہارا قبضہ گوارا نہیں ۔ کشمیری مسلمانوں پر تمہاراظلم و ستم برداشت نہیں۔ کشمیر اصل میں دونوں کے درمیان بنیادی تنازع ہے ۔ اسے اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشنی میں اور کشمیری عوام کی اپنی مرضی سے حل ہوجانا چاہیے۔ کشمیریوں کو ان کا حق آزادی ایک نہ ایک دن ضرور ملے گا۔نریندر مودی کی ہرزہ سرائی کشمیریوں کو ان کے جائز حق سے محروم نہیں کرسکتی۔(24جون2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1273574 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More