اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب!

اقوام متحدہ نے جانبدارانہ اور معاندانہ رویہ اپناتے ہوئے ایک بار پھر ظالم اور مظلوم، قاتل اور مقتول، دہشت گرد اور امن پسند کو ایک ہی صف میں کھڑا کر کے اپنی منافقت کا پردہ چاک کردیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں جہاں ایک طرف ہزاروں بے گناہ فلسطینیوں کے قاتل اسرائیل کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا ہے، وہیں مظلوم اور بے بس فلسطینیوں کو بھی جنگی جرائم کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، جو سراسر ناانصافی ہے۔ انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیموں نے رپورٹ پر کڑی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا ہے : ”جلاد اور مظلوم دونوں کو ایک صف میں کھڑا کیا گیا ہے، جن ہاتھوں نے اقوام متحدہ کی رپورٹ مرتب کی ہے، وہ خود بھی انسانیت سے عاری معلوم ہوتے ہیں، ورنہ وہ کم ازکم صہیونی جنگی جرائم اور فلسطینیوں کے راکٹ حملوں میں کچھ تو فرق کرتے۔“ گزشتہ سال اسرائیل نے 51 روزہ جارحیت کے دوران غزہ کی پٹی پر6 ہزار سے زیادہ فضائی حملے کیے تھے اور توپ خانے کے 50 ہزار سے زیادہ گولے داغے تھے، جن کے نتیجے میں 2200 سے زاید فلسطینی شہید اور 10 ہزار زخمی ہوگئے تھے اور ہزاروں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئیں، جبکہ دوسری جانب فلسطینی مزاحمت کاروں کے دفاعی حملوں میں صرف چار یہودی شہریوں سمیت 68 فوجی مارے گئے تھے۔ اس تفاوت کے باوجود اقوام متحدہ نے ظالم اسرائیل اور مظلوم فلسطینیوں کو ایک ہی پلڑے میں ڈال دیا ہے، جو یقینا ظالم اسرائیل کی پیٹھ تھپکانے کے مترادف ہے۔

فلسطین میں ہونے والی اسرائیلی درندگی ہر کھلی آنکھ پر عیاں ہے۔ اسی سفاکیت کو دیکھتے ہوئے رواں ماہ انسانی حقوق کی ایک غیرسرکاری تنظیم ”ہیومن رائٹس واچ“ نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون سے پرزور مطالبہ کیا تھا کہ وہ جنگ کے دوران معصوم فلسطینی بچوں کے وحشیانہ قتل عام کے جرم میں اسرائیل کو بھی جنگی جرائم کے مرتکب ”داعش“ جیسے گروپوں اور ممالک میں شامل کریں۔” اس سے قبل اقوام متحدہ میں الجزائر کی خاتون سفیر بھی اسرائیلی فوج کو فلسطینی بچوں کے قتل عام کی مرتکب قرار دے کر اسے بلیک لسٹ کرنے کا مطالبہ کرچکی ہیں، لیکن اقوام متحدہ اپنے لے پالک دہشت گرد کو امن پسند ثابت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ دوسری جانب انتہا پسند صیہونی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو اقوام متحدہ کی جانب سے حماس کی مخالفت میں جاری کی جانے والی رپورٹ بھی منظور نہیں ہے۔ اسرائیلی انتہا پسند وزیر اعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل جنگی جرائم کا مرتکب نہیں ہوتا۔ اسرائیلی وزیر اعظم نے غزہ کی پٹی کی حکمراں جماعت حماس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل ایک دہشت گرد تنظیم کے مقابلے میں اپنا دفاع کرتا ہے۔ یہ تنظیم اسرائیل کی تباہی چاہتی ہے اور اس نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ حماس نے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں اسرائیل کی مذمت کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن اس کے ساتھ اپنے مزاحمت کاروں کو جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینے کی بھی مذمت کی ہے۔

حالات و واقعات اقوام متحدہ کی رپورٹ کی کسی صورت توثیق نہیں کرتے، کیونکہ اسرائیل ایک طویل عرصے سے فلسطین میں بے گناہ بچوں، خواتین، بوڑھوں اور نوجوانوں کے قتل کا مرتکب ہورہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق سفاک صہیونی فوجیوں کے ہاتھوں 2006 ءسے 2014 ءتک غزہ کی پٹی پر حملوں میں کم از کم 2ہزار بچوں کو نہایت بے دردی کے ساتھ شہید کیا جاچکا ہے۔ اسی طرح فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کی ایک طویل داستان ہے۔ اب جہاں اسرائیل ہے، وہاں صدیوں تک فلسطین اور مسلمان تھے پھر عالمی برادری کی معاونت سے فلسطینیوں پر مظالم کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ صہیونیوں نے دیر یاسین میں 9 اپریل 1948ءکو عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا۔ عرب خواتین کا برہنہ جلوس نکالا گیا۔ یہودی لاؤڈ اسپیکر لگا کر جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے :”ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ یہ اور یہ کیا ہے۔ اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جاؤ۔“انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹیں بتاتی ہیں کہ 1948ءکو اسرائیل کے قیام کے وقت جہاں بڑی تعداد میں فلسطینیوں اور عرب شہریوں کو بھاری ہتھیاروں، ٹینکوں اور توپوں کا نشانہ بناکر تہ تیغ کیا گیا، وہیں ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کو اجتماعی قبروں میں زندہ درگور کیا گیا۔ کوئی بستی اور کوئی کنبہ ایسا نہ تھا، جس میں فلسطینیوں کا اجتماعی قتل نہ کیا گیا ہو۔

1948ءسے صیہونیوں نے فلسطینیوں کو ان کی اپنی سرزمین فلسطین سے بے دخل کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکالا گیا، ان کی بستیوں کو تاراج کیا گیا اور انھیں دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا، یہاں تک کہ پڑوسی ملکوں میں ان کے کیمپوں کو وقتاً فوقتاً حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ 14 مئی 1948ءکو دنیا پر ناجائز وجود پانے والی بدمعاش ریاست اسرائیل کے حکمرانوں نے اپنے قیام کے 67 برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے، تاریخ کے صفحات اس کی مثال پیش کرنے سے عاجز ہیں۔ کون سا ظلم ہے جو مقدس فلسطین کے بے گناہ، معصوم اور مظلوم باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا۔ 2002ءمیں اسرائیلی فوج نے فلسطینی کیمپ جنین کا 15دن تک محاصرہ اور اس پر ہوائی جہازوں اور ٹینکوں سے حملہ کرکے ایک ہزار فلسطینی شہید اور نہ جانے کتنے زخمی کیے۔ اس کے علاوہ اسرائیل نے 1948ءمیں دیریاسین ، 1956ءمیں قصر قاسم، 1982ءمیں صابرہ اور شتیلہ، 1990ءمیں مسجد اقصیٰ ، 1994ء میں مسجد اقصیٰ اور 1996ءمیں مسجد ابراہیم کا قتل عام کیا۔ سر زمین انبیاءفلسطین میں اسرائیل گزشتہ 67 برسوں سے خون کی ندیاں بہا رہا ہے، لیکن عالمی برادری اسرائیل کی پشتی بان بن کر کھڑی ہے اور اسرائیل کے مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہی ہے۔ عالمی سامراجی طاقتوں کے جہاں کہیں مفادات ہوتے ہیں وہاں تو جنگ سے لے کر مذاکرات اور کانفرنسوں سمیت ہر قسم کے اقدامات عمل میں لائے جاتے ہیں، لیکن یہاں زبانیں گنگ ہیں۔ یہودیوں کے ہولوکاسٹ پر شور مچانے والی عالمی برادری کی جانب سے فلسطینیوں کے قتل عام پر ہمیشہ اسرائیلیوں کو قانون کے کٹہرے سے آزاد رکھا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کے سفاکانہ قتل عام پر اسرائیل کو نہ عالمی برادری کی کسی کارروائی کا خدشہ ہوتا ہے، نہ بڑی طاقتوں کی طرف سے کسی روک ٹوک کا اندیشہ ہوتا ہے، کیونکہ اسرائیل مغرب کا سرکش و مغرور بچہ بنا ہوا ہے، اسرائیل کو ظالمانہ کارروائیوں میں امریکا اور مغرب کی مکمل حمایت حاصل ہوتی ہے۔ مغرب صہیونیت کے دفاع میں ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ اسی لیے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم ڈھاتے ہوئے اسرائیل کو کسی عالمی قانون کا پاس بھی نہیں ہوتا ہے۔اس کو معلوم ہے کہ اس کے ہر جرم کے بعد بھی عالمی برادری اس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے میدان میں آجائے گی۔ گزشہ دنوں اقوام متحدہ کی جانب سے ظالم اسرائیل اور مظلوم فلسطینیوں کو ایک پلڑے میں ڈالنا بھی اسرائیل کے ساتھ تعاون کے مترادف ہے۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 632236 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.