کراچی کے شہریوں نے کچھ روز قبل قیامت برپا ہوتے دیکھی جب
ہیٹ انڈیکس 49 ڈگری ہوگیا تھا ۔ کراچی جو کہ ساحل سمندر پر واقع ہے اس شہر
میں اسقدر گرمی اور سینکڑوں کی تعداد میں ہلاکتوں کے بعد پیدا ہونے والی
صورتحال سمجھ سے بالا تر ہے ۔
شہر میں اچانک شروع ہونے والا گرم موسم اور شدید حبس نے شہریوں کے اوسان
خطاء کردیئے کہ اچانک یہ ہوا کیا لوگ اس طرح چلتے پھرتے گرکر مرنے لگے جیسے
اچانک فضاء میں آکسیجن ختم ہوگئی ہو اور سورج سوا نیزے پر آگیا ہو کچھ لوگ
تو اس بات کا گمان کرنے لگے کہ شائید قیامت برپا ہونا شروع ہوگئی اور کچھ
کے زہن میں چند دنوں پہلے اخبارات اور شوشل میڈیا پر آنے والی وہ خبریں
تھیں جن میں انھی تاریخوں میں زمین سے کسی شہاب ثاقب کے ٹکرانے اور دنیا کے
ختم ہوجانے کا ذکر تھا ۔
جو تین دن کراچی کے شہریوں نے گزارے ہیں بس اللہ کی پناہ ! لیکن جو اس
صورتحال میں اس شہر کے مفلوج سسٹم کی حالت تھی وہ خود ایک قیامت سے کم نہ
تھی جس میں ایک کردار حکومتی اداروں کے ساتھ کے الیکٹرک کا بھی تھا کہ جیسے
ہی سورج نے اس شہر پر آگ اگلانا شروع کی اسی وقت سے کے الیکٹرک کا تمام
نظام مفلوج ہو کر رہ گیا نتیجہ یہ نکلا کہ اسپتالوں میں آکسیجن کی مشینیں
کام کرنا چھوڑ گئیں ، مارکیٹ میں برف ملنا بند ہوگیا جان بچانے والی ادویات
خراب ہونا شروع ہوگئیں یہاں تک کہ سرد خانوں میں رکھی گئی میتیں گنجائش سے
زیادہ ہوگئیں اور بجلی کی عدم فراہمی کی وجہ سے خراب ہونا شروع ہوگئیں
تدفین کا عمل اس لیئے جلد نہ ہوسکا کہ میتیوں میں 70 فیصد غریب اور روزآنہ
کی اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کی تھی جن کی شناخت فل الفور نہیں
ہوپارہی تھی جن کی شناخت ہوئی ان میں سے بھی ان کے لواحقین اس قدر غریب تھے
کے ان کے پاس فوری طور ہر کفن دفن کے رقم دستیاب نہیں تھی صورتحال یہ پیدا
ہوگئی تھی کہ لوگ اپنے پیاروں کی لاشوں کو سمندر برد کرنے پہنچ گئے اللہ
بھلا کرے خواجہ غریب نواز ٹرٹس کا جنھوں نے اس تکلیف دہ صورتحاک کو بھانپ
لیا اور فوری طور پر آدھی رات کو ایسے تمام افراد کے لیئے مفت قبر کی
فراہمی کا انتظام کرنے کا اعلان کردیا ۔ لیکن افسوس اس تمام صورتحال میں
حکرانوں کا کردار نہایت تکلیف دہ رہا لوگ مرتے رہے اور حکمراں ایک دوسرے پر
ذمہ داری ڈالتے رہے قابل شرم بات تو یہ ہے کہ ایک ہزار لوگوں کے مرنے کے
بعد ہیٹ اسٹروک قائم کرنے کا اعلان کیا گیا تین دن لوگ اسی قیامت میں مرتے
رہے لیکن کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا جو بھی کیا لوگوں نے اپنی مدد آپ
کے تحت ہی کیا اس سے شرم کی بات اور کیا ہوگی کہ اس شہر میں میتوں کو غسل
دینے کو پانی تک میسر نہیں تھا کوئی کام کیا بھی گیا تو وہ کیا تھا کہ ایک
دن 11 بجے دن سے عام تعطیل لا اعلان کردیا گیا اور دوسرے دن پورا دن عام
تعطیل کردی گئی وہ بھی صرف سندھ کے سرکاری دفاتروں میں کیوں کہ باقی تمام
وفاقی اداروں اور پرائیوٹ اداروں میں کام کرنے والوں پر شائید اس گرم موسم
کا اثر نہیں ہورہا تھا اور پھر ایک اور دلچسپ کام کیا گیا کہ سندھ کی حکومت
نے وفاق کی حکومت کے خلاف دھرنا دے دیا ۔
ہونا کیا تھا جو نہیں ہوا فوری طور پر تمام شہر میں ایمرجینسی کا نفاز کرنا
چاہئے تھا ہیٹ اسٹروک سینٹر کھولنے چاہیے تھے، ماکیٹوں میں لوگوں پر پانی
کا شاور کرنا تھا ،حکومتی سطح پرمفت قبروں کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا ،
میتوں کے غسل دینے لیئے علاقائی سطح پر عارضی غسل خانے بنانا اور ان پر
پانی کی فراہمی کو یقینی بنانا تھا اور بھی بہت سے کام تھے جو کرنے چاہیے
تھے لیکن نہیں کیئے گئے ۔
ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ جب بھی کوئی سانحہ رو پیش آتا ہے تو بہت باتین کی
جاتی ہیں کہ یہ کردیا جائے گا وہ کردیا جائے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سب
کچھ بھلا دیا جاتا ہے چاہے سمند ر میں نہاتے ہوئے ڈوب کر لوگ مریں کسی
فیکٹری میں آگ لگنے سے مزدور جل کر خاک ہوجائیں یا کچی شراب پی کر سینکڑوں
لوگ ہلاک ہوجائیں اور اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے موسم میں بہتری کے ساتھ ساتھ
حکمران بھی اس واقع کو جلد از جلد بھلا نا چاہ رہے ہیں ۔
نہ ہی کے الیکٹرک کے خلاف کوئی ایکشن لیا گیا نہ ہی کسی وزیر مشیر نے
استعفی دینا گوارہ کیا کیونکہ مرنے والوں میں کوئی وزیر و مشیر وڈیرہ
جاگیردار یا سرمایہ دار نہیں تھا اور جو لوگ تھے وہ اتنے اہم نہیں کہ ان کے
مرنے پر استعفی دیا جائے اب اس قیامت سے گذرنے کے بعد ایک مزید قیامت سے
شہری دوچار ہیں کہ کئی علاقوں میں اب بھی بجلی بحال نہیں ہوئی اور جہاں
ہوئی وہاں وولٹیج کی کمی اور زیادتی نے جینا دوبھر کیا ہوا ہے کہیں وولٹیج
کی حالت یہ ہے کہ فرج پانی تک ٹھنڈا نہیں کر پارہے ہیں تو کبھی اتنا زیادہ
وولٹیج آجاتا ہے کہ کئی چیزیں جل جا رہی ہیں لیکن کے الیکٹرک چین کی بانسری
بجا رہی ہے ۔
حکومتی ایوانوں میں کراچی میں بجلی کے مسعلے پر دھواں دھار تقاریر تو سننے
کو ملیں لیکن آئندہ ایسے سانحات کے دوران کوئی بھی حکمت عملی سامنے نہیں
آئی ۔بجلی اور پانی کے مسعلے پر با آسانی قابو پایا جاسکتا ہے لیکن اگر
چاہیں تو ۔۔۔
سب سے پہلے تو تھرکول سے بجلی پیدا کرنے والے پروجیکٹ پر تمام تر توجہ
مرکوز کی جائے چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں ، سولر سسٹم کو سرکاری سطح پر
تمام اداروں میں لازمی قرار دیا جائے تما سرکاری اسکول کالج اور دیگر
اداروں میں جو زیادہ تر دن کے اوقات میں ہی کھلے رہتے ہیں ان میں صرف سولر
سسٹم کی بجلی استمال کی جائے، تمام اسٹریٹ لائٹس کو سولر کیا جائے، تما م
پانی سپلائی کرنے والی موٹروں کو سولر سسٹم سے منسلک کیا جائے تما م بل
بورڈز کو لازمی سولر سسٹم کا پابند کیا جائے اس سے بجلی کے بہت حد تک بچت
ہوگی ۔ |