دہشت گردی کا عفریت دن بدن دنیا پر اپنی گرفت کو مضبوط سے
مضبوط تر کررہا ہے اور ہر نکلتے سورج کے ساتھ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے
والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ گلوبل پیس انڈیکس کی رپورٹ بتاتی ہے کہ دنیا
میں مسلح جنگوں کے نتیجے میں مرنے والوں کی تعداد ساڑھے تین گنا بڑھی ہے۔
2010 میں ہلاکتوں کی تعداد 49 ہزار تھی، جو کہ 2014 میں بڑھ کر ایک لاکھ 80
ہزار ہوگئی۔ یوں گزشتہ سال دہشت گردی کے واقعات میں مرنے والوں کی تعداد
میں نو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار ہونے
والے ممالک میں سرفہرست مسلم ممالک ہیں، جو دہشت گردی کے مراکز بنتے جارہے
ہیں، جب کہ مغربی ممالک مزید پرامن ہورہے ہیں۔ مسلم دنیا میں ایک وقت امن
کا یہ عالم تھا کہ کوئی عورت تن تنہا مدینہ سے حرا تک کا سفر مال و جان کے
خطرے کے بغیر کرلیا کرتی تھی اور اس کے بعد بھی اگرچہ مسلمان حکمران رفاہی
اسلامی ریاست کے اصولوں پر پوری طرح کاربند نہ رہے، لیکن پھر بھی داخلی امن
کی حالت کافی حد تک مستحکم تھی۔
برصغیر میں مغلیہ بادشاہت کے دور میں بھی امن کی یہ حالت تھی کہ جب لارڈ
میکالے نے پورے برصغیر کا دورہ کیا تو اس نے اپنی رپورٹ میں حیرت کا اظہار
کیا کہ برصغیر میں ایسا امن کہ آپس میں کوئی جھگڑا نہیں ہوتا، لیکن آج مسلم
ممالک کی حالت یہ ہے کہ پوری مسلم دنیا بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔ دنیا کے ایک
کونے سے دوسرے کونے تک کوئی بھی مسلم ملک امن و آشتی کا گہوارا نہیں۔
بدامنی، جنگ وجدل اور قتل وغارتگری کی دبیز چادر میں لپٹی امت مسلمہ خود
اپنی داستان الم سنا رہی ہے۔ عالم اسلام کے زخموں سے رستا ہوا خون ہر کھلی
آنکھ کو دکھائی دے رہا ہے۔ ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں اور گولہ و بارود کی
بو سے دماغ کی رگیں پھٹنے کو ہیں۔ سکون و چین عنقا ہوچکا ہے۔ افسوسناک بات
تو یہ ہے کہ بہت سے مسلم ممالک میں مسلمان سے مسلمان جنگ کرتا نظر آتا ہے۔
افغانستان، عراق، صومالیہ، شام اور دیگر کئی مسلم ممالک میں ایک نبی، ایک
قرآن اور ایک مذہب کے ماننے والے اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر ایک دوسرے کے
خلاف صف آرا ہیں۔ دنیا میں اور بھی بہت سے ممالک ہیں، لیکن بدامنی صرف مسلم
ممالک کا مقدر بنی ہوئی ہے۔
اسلامی ممالک شورش زدہ ممالک میں تو سرفہرست ہیں، جب کہ پرامن ممالک کی
فہرست کی آخری سطروں میں بھی نام دکھائی نہیں دیتا۔ مشرق وسطیٰ کو امن کے
لحاظ سے 2014 کا سب سے متشدد خطہ قرار دیا گیا ہے، جب کہ مغرب امن کی
تاریخی سطح کے بالکل قریب ہے۔ انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے ایگزیکٹو
چیئرمین سٹیو کیلیلیا کا کہنا ہے: ”اگر ہم سب سے زیادہ پرامن ممالک پر نظر
ڈالتے ہیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ مزید پرامن ہوتے جا رہے ہیں اور یہ
ممالک زیادہ تر مغربی یورپ میں ہیں۔ آئس لینڈ دنیا کا سب سے زیادہ پرامن،
جب کہ شام دنیا میں سب سے زیادہ تشدد کا شکار ملک ہے، جب کہ لیبیا کی
پوزیشن میں گزشتہ برس کی نسبت زبردست گراوٹ آئی ہے۔“
زمانے کی یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور
نہ کوئی ملک ہوتا ہے۔ ان کا مقصد تو اپنے گھناﺅنے مقاصد کی تکمیل کے لیے
صرف انسانیت اور مذاہب کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔
دہشت گردی کی کارروائیاں اور مذہبی انتہاپسندی مسلم دنیا کو تقسیم کرنے کا
موجب بن رہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہشت گردی میں اضافے کی بڑی وجہ عراق اور
شام میں داعش اور مختلف مسلم ممالک میں دیگر عسکریت پسند تنظیموں کی
کارروائیاں ہیں، لیکن یہ بھی حقائق ہیں کہ مسلم ممالک میں اودھم مچانے والی
عسکری تنظیموں کو امریکا اور اسرائیل نے ہمیشہ ہر تعاون فراہم کیا ہے۔
امریکا کی سی آئی اے اور اسرائیل کی موساد، انتہاپسندوں کی تربیت کرکے پوری
دنیا میں دہشت گردی کے لیے ان کا استعمال کرتی ہیں۔ اقوام متحدہ میں شام کے
نماینددے نے بھی گزشتہ دنوں اس بات کی توثیق کی ہے کہ دہشت گردوں کو
اسرائیل کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ مسلم ممالک کے حکمرانوں، دانشوروں، علمائے
کرام اور مسلم دنیا کی نمایندہ تنظیموں کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ دہشت
گردی سے نمٹنے کے لیے مسلم دنیا میں دہشت گردوں کی معاون قوتوں اور انتہا
پسندانہ نظریے اور سوچ کو کنٹرول کرنے سے متعلق امور پر غور و فکر کریں۔
مسلم ممالک میں جو متعدد عسکریت پسند تنظیمیں اور گروپس دہشت گردی میں ملوث
ہیں، ان کے سدباب کے لیے لائحہ عمل طے کریں۔ بڑھتی ہوئی دہشت گردی سے مسلم
دنیا کی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے سنگین چیلنجز پیدا ہوگئے ہیں، وقت
گزرنے کے ساتھ جو مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔ دہشت گردی کا بنیادی علاج تو
تعلیم کا فروغ ہے، لیکن فوری علاج علمائے کرام کرسکتے ہیں۔ علمائے کرام
عوام کو بتائیں کہ اسلام میں کسی بے گناہ انسان کا قتل نہ صرف حرام ہے،
بلکہ پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ دہشت گردی کی ممانعت سے متعلق
اسلامی احکامات کی تشہیر اگر لوگوں کی مادری زبان میں میڈیا کے ذریعے کی
جائے تو بلاشبہ بتدریج حالات میں تبدیلی آسکتی ہے اور دہشت گردی کی بیخ کنی
ہوسکتی ہے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ عالمی برادری مسلم دنیا کے ساتھ مخلص نہیں ہے۔ اگر
عالمی برادری حقیقت میں مسلم دنیا کی خیرخواہ ہوتی تو اپنے مفاد کی خاطر
دہشت گردوں کو استعمال کرنے کے بجائے مسلم دنیا میں تعلیم کے فروغ کے لیے
بہتر کردار ادا کرتی ہے۔ دنیا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اب تک کھربوں
ڈالر پھونک ڈالے ہیں، اگر یہی رقم تعلیم کے فروغ پر خرچ کی جاتی تو دہشت
گردی کا علاج آسانی سے ممکن تھا۔ عالمی امن سے متعلق سالانہ رپورٹ میں کہا
گیا ہے کہ صرف گزشتہ برس تشدد، جنگوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی
صورتحال سے منسلک اخراجات 140 کھرب ڈالر سے زیادہ رہے ہیں اور یہ رقم عالمی
مجموعی پیداوار کے 13 فیصد سے زیادہ ہے۔ ان اخراجات کا حجم برازیل، کینیڈا،
فرانس، جرمنی، برطانیہ اور اسپین کی مجموعی معیشتوں سے بھی زیادہ ہے۔
اندازہ لگائیے کہ اگر ساری نہیں تو اس سے نصف رقم بھی مسلم دنیا میں تعلیم
کے فروغ پر خرچ کی جاتی تو دہشت گردی کا مقابلہ کرنا آسان نہ ہوجاتا؟ دہشت
گردی اب تمام مسلم ممالک کا اجتماعی مسئلہ بن گیا ہے۔ اسی مسئلے کے حل کے
لیے مختلف ملکوں کے سربراہ ایک دوسرے کے ملکوں کے دورے کر رہے ہیں۔
پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی قیادت سنبھالنے کے بعد سے
دہشت گردی پر قابو پانے کے لیے جتے ہوئے ہیں۔ سرحدوں کی نگرانی، دہشتگردوں
کی فنڈنگ روکنے اور ان کی معاون شخصیات اور این جی اوز پر ہاتھ ڈالنے جیسے
اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان ھی اقدامات کی بدولت پاکستان کافی حد تک دہشت
گردی پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکا ہے۔ اگر پوری مسلم دنیا دہشت گردی کے
خلاف مضبوط لائحہ عمل طے کرے تو مسلم دنیا سے دہشت گردی کی بیخ کنی ہوسکتی
ہے۔ |