پہلے تولو پھربولو صاحب
(Prof Liaquat Ali Mughal, Kehroor Pakka)
پہلے تولو پھر بولو! اس ایک
محاورے کی اہمیت و حقیقت ایک کائنائی سچائی (universal truth) ہے کہ انسان
اس وقت تک ہی معتبر اور معزز رہتا ہے جب تک خاموش رہتا ہے یا جب تک اپنی
حیثیت اور اوقات سے بڑھ کربات نہیں کرتا اس کا امیج بنا رہتا ہے لیکن جیسے
ہی بولتا ہے اس کی قابلیت ،لیاقت اور حیثیت عیاں ہوجاتی ہے زبان کو قابو
میں رکھنا اور بوقت ضرورت اس کا صحیح استعمال کرنا ایک فن ہے ۔ جو کہ سب کو
نصیب نہیں ہوتا ۔ ہمارے ہاں بھی آج کل ایک دوسرے کی پگڑیا ں اچھالنے،
ریمارکس پاس کرنے حتیٰ کہ اخلاقیات سے گری ہوئی باتیں کرنے کا ایک طوفان
بدتمیزی امڈ آیا ہے۔ دین، آئین،عدلیہ،مقننہ ، فوج، سیاست، صحافت غرض یہ کہ
کوئی میدان یا شعبہ ایسا نہیں جس میں ہم ایک دوسرے پر کیچڑ نہ اچھال رہے
ہوں۔وہ تمام سیاستدان جو تقریر یا گفتگو کے دوران اپنی زبان قابو میں نہیں
رکھ سکتے انہیں ہوش میں آجا نا چاہیے۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکا دینے
والے گمراہ کن، تحقیرو تذلیل آمیز، دل آزاری کا سبب بننے والے ،خلاف آئین و
قانون بیانات کے ذریعے عوام کو اپنا ہم نوا بنا لینگے تو یہ ان کی بھول ہے
اور نہایت احمقانہ اور بے وقوفانہ سوچ ہے کیونکہ عوام اتنی بھی بے شعور
نہیں ہے کہ ان لغویات اور فضولیات کا ادراک نہ کر سکے۔ ان بیانات کا فائدہ
ہو نہ ہو نقصانات ضرور ہیں ․مثلاََـ: بیان دینے والا اپنے بیان کے ذریعے
خود آئینے میں آجاتا ہے کہ اس کی اخلاقیات کیا ہیں اور وہ ظرف کی کونسی
منزل کا راہی ہے ۔ دوسرا یہ کہ پرنٹ میڈیا اور ٹی وی چینلز نے اس بات کی
بھی وضاحت کر دی ہے کہ عوام سننے اور پڑھنے کے بعدفیصلے کر سکیں کہ کوئی
کیا بول رہا ہے کیوں بول رہا ہے کس لئے بول رہا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ عوام اب
اسے ہی سنتے ہیں جسے وہ معقول جانتے اورگردانتے ہیں ۔تیسرا یہ کہ بیان در
بیان کے جواب میں بیان کے ذریعے سے نا صرف سیاسی اور ملکی ماحول آلودہ ہو
رہا ہے بلکہ ادب اور احترام اور عزت و لحاظ کی تمام حدیں کراس ہوتی جا رہی
ہیں اور اگر اس طرح یہ سلسلہ چلتا رہا تو کوئی بعید نہیں کہ کل کو آنے والی
نسلیں ایسے تاثرات دیدیں کہ ان حدِ ادب آفراد کو تکلیف پہنچے اور وہ سوائے
کف افسوس ملنے کے کچھ نہ کر سکیں کیونکہ جو بویا جاتا ہے وہ ہی کاٹا جاتا
ہے ۔اس لئے ہمارے حکمران وسیاستدان اور قلم کار ومقررین اپنی زبان کو قابو
میں رکھ کر ملک و قوم کو ان تمام کثافتوں سے محفوظ رکھ سکتے ہیں ان میں سے
بعض لوگ ایسے ہیں جو بیان دے کر بہت سوں کو متوجہ تو کر لیتے ہیں لیکن پھر
وہ اپنا بیان بھی واپس لیتے دکھائی دیتے ہیں اور یہ تاویلِ پیش کرتے ہیں کہ
ان کا بیان توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ انہیں اس بات کو اب تک جان
لینا چاہئے کہ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیاکے اس دور میں کسی بھی بات کا چھپا
رہنا بہت ہی مشکل بلکہ نا ممکنات میں سے ہے۔ اب بیان دینے والازرداری ہو کہ
الطاف حسین، رانا ثناء اﷲ ہو کہ شرمیلا فاروقی ، شیخ رشید ہو کہ خواجہ سعد
رفیق ،نواز وشہبازشریف ہوں کہ عمران خان، میڈیاپر سن ہوں کہ علماء کرام ،بلاول
بھٹو ہو کہ حمزہ شہباز یہ اور اسی طرح کے تمام افراد و بیانات قابل مذمت
ہیں ۔ان سے نہ تو بیان دینے والے کا قد اونچا ہوتا ہے اور نہ ہی سننے والوں
پر کوئی اچھا اثر پڑتا ہے سیاسی بیانات اور تقاریر کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ
ہے لیکن بغیر سوچے سمجھے منفی جذبات کے تحت کسی کی تذلیل ومزاح یا پھر
معاشرے میں تفرقہ اور انتشار پھیلانے والے بیانات ملک کی نام نہاد جمہوری
اقدار اوراخلاقیات سے گرنے کے مترادف گرادنے جاتے ہیں۔ لہذاٰ اپنے بیانات
کے دوران سیاستدانوں کا محتاط رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا ان کے نزدیک
سیاسی فائدہ حاصل کرنا ہے ۔
زرداری کا آرمی کے خلاف بیان اور پھر تاویلیں پیش کرنا مذکورہ بالاتحریر کا
حصہ ہے زرداری کا بیان کہ اینٹ سے اینٹ بجادیں گے ملک کو بند کردیں گے
سابقہ کرنیلوں کے کردار سے واقف ہیں وغیرہ ان کی منفی سوچ کی آئینہ دار ہے
یہ بیانات دے کر زرداری نے منہ بھر مٹی پھانک لی ہے اب نہ تواسے اگل سکتے
ہیں اور نہ ہی نگل سکتے ہیں ہر دو صورتوں میں مزہ کرکرا ہورہا ہے اور اسی
بنا پر ان کی تاویلیں اور دلیل سمجھ سے باہر ہیں وہ آصف زرداری جس کے بارے
میں تجزیہ نگار فرماتے تھے کہ صلح جو امن پسند اور ٹھنڈی طبیعت کے مالک ہیں
لیکن ان کے بیانات ان تمام اوصاف کی نفی کرتے ہیں۔ اگر بنظر غایت دیکھا
جائے تو مذکورہ بالا خوبیاں اس وقت تک تھیں جب تک اقتدار کا ہما سر پر سجا
تھا کیونکہ اس وقت ان کا جائز تو جائز تھا ہی ناجائز بھی جائز تھا کوئی
پوچھنے والا نہیں اس لئے راوی چین ہی چین لکھتا ہے اب اقتدار نہیں ہے بے
بسی ہے مزید یہ کہ ان کی دم پر بڑا زور کا پاؤں پڑا ہے اس لئے دماغ کا ماؤف
ہوجانا اور زبان کا لغویات بکنافطری امر ہے ایک بات اور قابل غور ہے کہ جب
سے بلاول نے باقاعدہ طور پر پارٹی سنبھالنے کا عندیہ دیاہے اس وقت سے
زرداری صاحب کی طبیعت مزید ناساز ہوچکی ہے کیونکہ بچے کچے اختیارات بھی
ہاتھ سے جاتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان سب کے باوجود زرداری کو اپنی دماغ
ٹھنڈا اور زبان قابو میں رکھنا چاہئے بھلائی اسی میں ہے اب محض سیاسی
مفادات کیلئے ہونے والی بیان بازی کے بارے بہت احتیاط اور الفاظ کے محتاط
چناؤ کے ساتھ کچھ کہنا ہو تو بھی یہی کیاجا سکے گا کہ یہ ذہنی پستی بلکہ
ذہنی بیماری کی علامت ہے اس سے اجتناب ازحد ضروری ہے۔جو ہوا بہت برا ہوا
ملکی و قومی حالات اس بھیانک عمل کو برداشت کرنے کے متحمل نہیں ہیں لہذا اب
زبان کے ساتھ ساتھ ہاتھوں کو بھی کنٹرول کرنا ضروری ہے۔ایسا نہ ہو کہ یہ شر
کی چنگاری کسی بہت بڑے الاؤ میں تبدیل ہوجائے اور اس پر قابو پایا بس سے
باہر ہوجائے۔ |
|