لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن اورعدل وانصاف
(Zulfiqar Ali Bukhari, Islamabad)
کسی کو پوراپورا ہرلحاط سے اسکا
حق دے دینا اور کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرنا عدل وانصاف کہلاتاہے۔ موجودہ
دور میں بہت سے معاملات ( مثلا زمین کے ریکارڈ،پاسپورٹ ،شناختی کارڈ ،اسلحہ
لائسنس کے حصول وغیرہ) کو کمپیوٹرائرڈ کرکے بدعنوانی کے عنصر کو کم سے کم
کرنے کی کوشش کی گئی ہے جوکہ عدل وانصاف کی فراہمی کی جانب ایک بڑااہم قدم
ہے اس سے ہر شخص کو اس کا جائز حق دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔اس حوالے سے
دیکھا جائے تو اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی بڑی اہمیت ہے۔ معاشرے میں
امن سکون کی ضمانت اس کو قرار دیاگیا ہے۔ہماری کائنات کا نظام عدل پر قائم
ہے۔ اس کی ایک ایک چیز درست مقام پر کام کر رہی ہے۔ کائنا ت میں موجود
اشیاء ایک دوسرے کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرتی ہیں۔ عدل اﷲ تعالی
کی صفت ہے۔ قران میں بھی باربار اس بارے میں احکام بیان کئے گئے ہیں۔قران
میں ایک جگہ پر اس کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ ــ’’میں بند وں پر ظلم نہیں
کرتا ‘‘جبکہ دو سرے مقام پر یہ بات یوں کہی گئی ’’اے رسولﷺ جب آپ انکے
درمیان فیصلہ کریں تو عدل کے ساتھ فیصلہ کریں ۔بیشک اﷲ تعالی ٰ عدل و انصاف
کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ جبکہ سورۃ شوری میں اسطرح سے حضور ﷺ کی زبان
سے قران میں کہلایا گیا کہ’’کہو مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ تمھارے درمیان
عدل کرو‘‘۔وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ اسلامی مملکت کے دعویٰ دار ممالک
بالخصوص پاکستان میں عدل وانصاف کی فراہمی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے جس
کی بناء پر مختلف انواع اقسام کے مسائل پیدا ہوتے جارہے ہیں۔جناب وزیر اعلیٰ
پنجاب محمد شہباز شریف صاحب جہاں بات کرتے ہیں کہ دہشت گردی کو ختم کرنا ہے
وہاں اگر وہ انصاف کی فراہمی کے حوالے سے ضروری اقدامات صوبہ بھر میں کریں
تو پھر انکا نام ہمیشہ عزت سے لیا جاتا رہے گا اور انکے ناقدین کے منہ بھی
بند رہیں گے۔
ہمارے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں موجود ہیومین رائٹس کی تنظیمیں اور
سیاست دان اپنے مطلب پرستی کی سرگرمیاں میں مصروف ہیں کسی کو انصاف فراہم
کرنے کی فکر نہیں ہے ۔شاید ہم لوگ بے حس ہو چکے ہیں جب تک خود پر کچھ نہ ہو
کسی کے لئے بھلا کرنے کی توفیق نہیں ملے گی۔ چند اسلامی ممالک کی حد تو عدل
وانصاف کی فراہمی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن ہمارے ارض پاک میں قیام کے
آغاز سے ہی اس کے بارے میں ایسا سلوک کیا گیا ہے کہ حقدار بھی اپنے حق سے
دستبرار ہونے کو ترجیح دیتے ہیں ۔عدل کی علامت ،عدالتیں بھی ہوتی ہیں جہاں
سے ہر شہری کو بلا امتیاز انصا ف کی فراہمی ممکن ہوتی ہے اگر کسی ملک کی
عدالتوں سے لوگ مایوس ہو جائیں تو چور بازاری ، رشوت اور تعلق داری کی بناء
فیصلے ہونے لگے ہیں اور پھر اس ملک کا امن سکون برباد ہونے میں دیر نہیں
لگتی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ ماضی میں جناب چیف جسٹس افتخار
محمدچوہدری کے عمدہ اقدامات کی وجہ سے عدل وانصاف کی جلد فراہمی کی بدولت
کسی قدر لوگ کوحق ملنا شروع ہوا ہے یہ تو ابھی ابتدا ء ابھی منزل دور ہے
اور رکاوٹ کھڑی کرنے والے بھی کم نہیں ہیں ۔یہ اپنے ہی لوگ ہیں جو اپنے
مقدمات اور کرپشن کیسز کی وجہ سے موجودہ عدالتوں سے خائف ہیں۔موجودہ چیف
جسٹس آف پاکستان اگر قانون میں ترمیم کروا کر کچھ ایسا کر سکیں کہ ہر دائر
ہونے والے جھوٹے کیس جو کہ دوسرے فریق کو تنگ کرنے اور حق سے محروم رکھنے
کے لیے ہوتے ہیں، مذکورہ عدالتوں سے خارج ہو جانے پر بھاری جرمانہ عائد کر
دیں تو ہو سکتا ہے کہ کیس کی دائر ہونے کی شرح میں واضح کمی ہوسکے
اورمذکورہ رقم کو عدالتی عملے میں تقسیم کیا جانا چاہیے تاکہ وہ بدعنوانی
میں ملوث نہ ہوسکیں۔
پاکستان میں بہت عرصے بعد لینڈریکارڈکو بھی کمپیوٹرائزڈ کرنے کا آغاز کیا
گیاجس میں بہت سے مسائل حائل تھے لیکن اسکی بدولت بہت کچھ بہتر ہونے کی
توقع ہو چلی ہے مگر ابھی بھی صورت حال ماضی کی نسبت اچھی ہے ۔لیکن کچھ
خامیاں ہیں جس کی وجہ سے لوگ نا حق پریشان ہوتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ماضی
کا انتقال کروانے کا طریقہ کار ہی بہتر تھا کہ پٹواری کو پیسے دے کر کام ہو
جایا کرتا تھا۔ابھی کل کی ہی ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کو ہی
لے لیجئے کہ پنڈی گھیب میں اے ڈی ایل آر تعینات نہ تھا جس کی وجہ سے کئی
لوگوں کے انتقال نائب تحصیلدار کی کوتاہی کی وجہ سے منسوخ کر دیئے گئے ہیں
جوکہ بہت بڑی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لینڈریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے
والے سروس سنٹرز پر بھی عوام کا وقت بہت ضائع کروایا جاتا ہے اور لوگوں کو
اپنے انتقالات کروانے کے لئے دنوں تک بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔کہیں کہیں
عملہ بھی ناتجربہ کار ہے جس کی وجہ سے عوام کو جگہ جگہ دھکے کھانے پڑتے
ہیں۔اس حوالے سے کوشش کی جانی چاہیے کہ ایک ہی چھت کے نیچے سب معاملات حل
ہو سکیں۔سروس سنٹرز کی جانب سے جاری کر دہ دستایزات میں بھی عموماََ غلطیاں
کی ہوئی ہوتی ہیں اس حوالے سے خاص طور پر انچارج سروس سنٹرکوہدایت جاری کی
جائیں ہر ممکن حد تک احتیاط کے بعد وہ عوام کو دی جائیں تاکہ بعدازں
پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جناب وزیر اعلیٰ پنجاب اگر کوشش کریں تو
محدود وقت کے لئے ہر سنٹر پر دو اے ڈی ایل آر تعینات کر وا دیں تاکہ عوام
کو سہولت مل سکے خاص طور پر جہاں زیادہ رش ہو وہاں لازمی طور پر دو اے ڈی
ایل آر تعینات کئے جائیں۔متعلقہ نمبردار ،پٹواری ،گردوار حضرات کو بھی کچھ
وقت کے لئے ہر روز سروس سنٹر رہنے کیلئے کہا جائے تاکہ انکے لئے دربدر عوام
کو نہ ہونا پڑے ایسا کرنے سے رشوت ستانی کے فعل میں بھی کم ملوث ہونے کے
امکانات ہیں۔اگرچہ ایسا ہر جگہ نہیں ہو رہا ہے بالخصوص میں یہاں ذاتی تجربے
کا ذکر کرنا چاہوں گاکہ لیاقت پورکے اے ڈی ایل آر مظہر فرید صاحب نے راقم
کا کام فورا سے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔جناب بات کہنے کی یہ ہے کہ اگر
ہمارے سرکاری دفاتر میں محترم محمد مظہر فرید اسسٹنٹ دائریکٹر لینڈریکارڈ
صاحب کی طرح اگر ہمارے سرکاری اہلکار اپنی ذمہ داری کا احساس کر لیں تو
ہمارے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ لوگ اپنے حق کے حصول کی خاطر مل جل کر جہد وجہد کریں
توپاکستان میں عدل وانصاف کے خواب کو پورا کیا جاسکتا ہے۔لیکن ایک بات بے
انصافی کرنے والوں کو بھی سوچنی چاہیے کہ انکو بھی اپنے یوم حساب کا د ن
دیا درکھنا چاہیے جس دن ان سے انکے ہر عمل کاجواب دہ ہونا پڑیگا۔دوسری طرف
محکمہ مال کے ریکارڈ میں ہونے والی بدعنوانیوں اورلوٹ مار کے حوالے سے بھی
متعلقہ اضلاع کے ڈسٹرکٹ کلکٹر صاحبان کو بھی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی
چاہیے تاکہ سرکاری خزانے میں اضافہ ہو،یہ نہ ہوکہ متعلقہ اہلکار اپنی جیب
گرم کرکے سرکاری ادائیگی مقررہ حد سے کم وصول کرلیں، اورزمین کے حقیقی
مالکان کے سپرد انکی اراضی بھی ہونی چاہیے ،اس حوالے سے ڈسٹرکٹ کلکٹر
صاحبان کو دیکھنا چاہیے کہ کتنے عرصے سے کوئی خاص زمین کسی کے نام ہوئی
ہوئی ہے ،اس معاملے میں سنگین بدعنوانیاں ظاہر ہو سکتی ہیں بالخصوص انتقال
وارثت نہ کرانے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی کی جانی چاہیے کیونکہ جب
تک ایسا نہیں ہوگا اُسوقت تک درست کمپیوٹرائزڈ لینڈ ریکارڈ مرتب نہیں ہو
سکے گا اور ماضی کے گھپلے اس کا حصہ بنے رہیں گے۔اس حوالے سے ڈسٹرکٹ کلکٹر
صاحبان انچارج کمپیوٹر سروس سنٹر کو واضح ہدایات جاری کریں تاکہ لینڈ
ریکارڈ کی درستگی بھی ممکن ہو سکے بصورت دیگر لینڈ ریکارڈ کمپیوٹرائرڈ ہو
جانے کے بعد بھی اسکے مشکوک ہونے پر انگلی اٹھتی رہیں گی۔ |
|